خبریں

سی بی آئی  نے عدالت کو بتایا- آلوک ورما کی مدت کار میں نہیں ہوئی ڈوبھال ، استھانا کی فون ٹیپنگ

دہلی ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کر کے سی بی آئی کے ذریعے این ایس اے اجیت ڈوبھال کے فون کو غیر قانونی طور پرٹیپ کرنے کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ایجنسی نے عدالت کے سامنے حلف نامہ دائر کر کے جواب دیا۔

سی بی آئی ہیڈکوارٹر، فوٹو: پی ٹی آئی

سی بی آئی ہیڈکوارٹر، فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی : سی بی آئی نے منگل کو دہلی ہائی کورٹ میں ان الزامات سے انکار کیا ہے کہ اس  نے این ایس اے اجیت ڈوبھال اور جانچ ایجنسی کے اس وقت کے اسپیشل ڈائریکٹر استھانا کے فون غیر قانونی طور پر ٹیپ کیے تھے ۔ سی بی آئی نے حلف نامہ دائر کرکے بتایا کہ ایجنسی نے کبھی کسی ٹیلی فون نمبر کی غیر قانونی طور پر نگرانی نہیں کی ۔ایجنسی نے چیف جسٹس راجیندر مینن اور جسٹس اے جے بھمبانی کی بنچ کے سامنے ایک عرضی کے جواب میں حلف نامہ دائر کیا ۔ ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کرکے سی بی آئی کے ذریعے ڈوبھال کے فون کو غیر قانونی طور پرٹیپ کرنے کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ ، یہ واضح کیا جاتا ہے کہ سی بی آئی کی اسپیشل یونٹ نے کسی وقت اجیت ڈوبھال اور راکیش استھانا کے ٹیلی فون کال ٹیپ نہیں کیے ۔ یہ بھی صاف کیا جاتا ہے کہ سی بی آئی غیر قانونی طور پر کسی ٹیلی فون کی نگرانی نہیں کرتا۔حلف نامہ میں یہ بھی کہا گیا کہ ، درخواست گزار کے ذریعے لیگل سکریٹری اور دوسرے آئی اے ایس افسروں کے فون نمبر وں کو غیر قانونی طور پرٹیپ کیے جانے کا براہ راست ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کی سختی سے تردید کی جارہی ہے۔

عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سی بی آئی کے اس وقت کے ڈائریکٹر آلوک ورما اور اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانا کے بیچ تنازعے کے دوران ڈوبھال کے علاوہ کئی دوسرے لوگوں کے فون بھی ٹیپ کیے گئے تھے ۔ یہ عرضی وکیل سارتھک چترویدی نے دائر کی ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، عدالت کو پہلے موجود مرکزی حکومت کی ہدایتوں کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے حلف نامہ میں کہا گیا ہے سی بی آئی مکمل کارروائی کے تحت تکنیکی سرولانس کرتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ایسی تکنیکی سرولانس سے ملنے والی جانکاریوں کے بارے میں متعلقہ محکموں کو جانکاری دی جاتی ہے۔

پی آئی ایل کو خارج کرنے کی مانگ کرتے ہوئے ، سی بی آئی نے کہا کہ جن افراد کے خلاف ایجنسی نے اکتوبر 2008 میں بدعنوانی کے معاملے درج کیے تھے ، ان کے فون کو Competent authorityکے مطابق قانونی طور پر نگرانی میں رکھا گیا تھا۔حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ ٹیلی گراف ایکٹ ان معاملوں کی واضح طور پر تعریف کرتا ہے جن میں مرکزی حکومت کے ذریعے فون کال کو ٹیپ کرنے کی اجاز ت ہے اور کسی شہری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جاتی ۔وزارت داخلہ پہلے ہی عدالت میں کہہ چکی ہے کہ Law Enforcement ایجنسیوں کے ذریعے ٹیلی فون ٹیپنگ ہندوستان کی سالمیت اور مفاد میں کیے جاتے ہیں ۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)