خبریں

سست ہے پردھان منتری آواس یوجنا کی رفتار، ابھی تک بنے صرف 39 فیصد گھر

وزیراعظم مودی نے آئندہ عام انتخابات سے ٹھیک پہلے یہ بات کہی ہے کہ 2022 تک تمام شہریوں کورہائش فراہم کرانا ان کا مقصد ہے۔ لیکن اس اعدادو شمار کے بعد یہ صاف ہوگیا ہے کہ پی ایم اے وائی کو بہت سست رفتاری سے انجام دیا جارہا ہے۔

فوٹو: پی آئی بی

فوٹو: پی آئی بی

نئی دہلی : پردھان منتری آواس یوجنا (پی ایم اے وائی ) کے تحت منظور سستے گھروں میں صرف 39 فیصد گھر ہی اب تک بن پائے ہیں ۔خبررساں ایجنسی آئی اے این ایس نے اناراک کی رپورٹ کے حوالے سے یہ جانکاری دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، پی ایم اے وائی کے تحت سستی رہائش گاہ منصوبے کی رفتار سست ہے ۔ ریئل اسٹیٹ سے متعلق صلاح دینے والی فرم انا راک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پی ایم اے وائی کے تحت صرف 39 فیصد گھر ہی اب تک بن پائے ہیں۔

رہائش اور شہری معاملوں کی وزارت کے مطابق، پی ایم اے وائی کے تحت منظور 79 لاکھ گھروں میں سے اب تک 39 فیصد گھروں کی تعمیر کا کام مکمل ہوا ہے۔ وہیں رپورٹ کے مطابق، ملک کے 7 بڑے شہروں میں نئے رہائشی یونٹ  کی فراہمی میں گزشتہ 5 سالوں میں 64 فیصد کی کمی آئی ہے۔رپورٹ کے مطابق، 2014 میں جہاں 5.45لاکھ رہائشی یونٹ تھے وہیں 2018 میں 1.95لاکھ رہ گئے ہیں ۔ گھروں کی فروخت میں گزشتہ 5 سالوں میں 28 فیصدی کی کمی آئی ہے ۔ 2014 میں جہاں 3.43 لاکھ گھربکے وہیں گزشتہ سال 2.48 لاکھ گھر بکے ۔

قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم مودی نے آئندہ عام انتخابات سے ٹھیک پہلے یہ بات کہی ہے کہ 2022 تک تمام شہریوں کورہائش فراہم کرانا ان کا مقصد ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے پرائیویٹ سیکٹر سے بھی مدد کی اپیل کی تھی۔لیکن اس اعدادو شمار کے آنے کے بعد یہ صاف ہوگیا ہے کہ پی ایم اے وائی کو بہت سست رفتاری سے انجام دیا جارہا ہے۔

بروک ریج کمپنی انا راک نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ 5 سالوں کے دوران گھروں کی قیمت میں 7 فیصد کا اضافہ ہواہے ، جبکہ اس دوران ان کی مانگ میں 28 فیصدی کمی آئی ہے۔ کمپنی کے بانی اور چیئر مین انج پوری کا کہنا ہے کہ ریئل اسٹیٹ کی شبیہہ ٹھیک کرنے کے لیے کئی قدم اٹھائے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اعدادوشمار میں 7 اہم شہروں میں گھروں کی قیمت اوسطاً 7 فیصدی بڑھی ہے۔ لیکن اگر افراط زر کو شامل کیا جائے تو حقیقت میں گھروں کی قیمت میں کمی آئی ہے۔واضح ہوکہ دہلی-این سی آر ، ممبئی، چنئی، کولکاتہ ، بنگلور، حیدرآباد اور پونے کو سروے میں شامل کیا گیا تھا۔