فکر و نظر

رویش کا بلاگ: ووٹر کا ہلکا ہونا ہی جمہوریت کا کھوکھلا ہونا ہے

نوجوانوں نے اپنی طرف سے 2014 کی طرح مودی-مودی نہیں کیا۔ 2014 کے انتخابات میں کسی کے سامنے مائک رکھتے ہی مودی-مودی شروع ہو جاتا تھا۔ کچھ بھی سوال پوچھنے پر جواب مودی-مودی آتا تھا۔ اس بار ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا۔ کیا یہ نوجوان مودی کو ووٹ نہیں کریں‌گے؟

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

میں فیلڈ میں کبھی یہ سوال نہیں کرتا کہ آپ کس کو ووٹ دیں‌گے۔ اس سوال میں میری دلچسپی نہیں ہوتی ہے۔ میں یہ ضرور دیکھنا چاہتا ہوں کہ ایک ووٹر کس طرح کی اطلاعات اور نظریات سے خود کو ووٹ دینے کے لئے تیار کرتا ہے۔ آج باغپت ضلع‎ کے کئی نوجوانوں سے ملا۔ شہری نوجوانوں کی طرح کسی نے کہا نہیں یا پھر جتایا نہیں کہ وہ مجھے جانتے ہیں۔ میں ایسے ہی نوجوانوں کے درمیان جانا چاہتا تھا جو مجھے صحیح سے نہیں جانتے ہوں۔ ان نوجوانوں کی کل تعداد 80-70 تو آرام سے رہی ہوگی یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔

 یہ سبھی سرکاری مقابلہ جاتی امتحانوں کی تیاری کرنے والے نوجوان ہیں۔ جن کے مدعے میں لگاتار ڈیڑھ سال سے اٹھا رہا ہوں۔ میرے پروگراموں کو ان نوجوانوں تک سو فیصد نہ پہنچنے دینے کی کئی وجہ ہو سکتی ہیں پر میرا فوکس یہ نہیں تھا۔ ضروری نہیں کہ ہرکوئی مجھے جانے ہی۔ ان نوجوانوں سے بات کرنے کا اپنا تجربہ شیئرکرنا چاہتا ہوں۔

نوجوانوں نے اپنی طرف سے 2014 کی طرح مودی-مودی نہیں کیا۔ 2014 کے انتخابات میں کسی کے سامنے مائک رکھتے ہی مودی-مودی شروع ہو جاتا تھا۔ کچھ بھی سوال پوچھنے پر جواب مودی-مودی آتا تھا۔ اس بار ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا۔ کیا یہ نوجوان مودی کو ووٹ نہیں کریں‌گے؟ اس لہر‌کے نہیں ہونے کے بعد بھی ایسا یقینی طور پر نہیں لگا۔ کیونکہ بولڈ ہوکر سپورٹ کرنے والوں نے خود سے بولڈ ہوکر نہیں کہا کہ اس بار سبق سکھا دیں‌گے۔ میرے سوالات روزگار اور تعلیم کے معیار تک ہی محدود تھے مگر کئی بار جواب کے سلسلے میں جو نکلا اس میں گودی میڈیا کی کامیابی نظر آئی۔

 گودی میڈیا مودی کی سیاست کی سب سے کامیاب انٹرپرائز ہے۔ نوجوانوں تک صرف بی جے پی کی بات پہنچی ہے۔ بی جے پی کے الزام اور دلیل پہنچے ہیں۔ ان کی اطلاع کی دنیا انہی اطلاعات سے بنی ہے جس کو پروپیگنڈہ کہتا ہوں۔ دوردراز کے علاقوں میں مین اسٹریم سے لےکر نجی سطح پر اطلاعات کی دنیا سے حزب مخالف اور اختیاری اطلاعات کی صفائی ہو چکی ہے۔

نوجوانوں کی زبان پر بات چیت کی چرچہ کے دوران حزب مخالف کا ذکر ہمیشہ بی جے پی کی دلیل سے ہی آیا۔ حزب مخالف نے بی جے پی کے بارے میں جو کہا ہے، اس حوالے سے کسی نے بی جے پی پر سوال نہیں کیا۔ سیاسی گفتگو ایک طرفہ ہو چکی ہے۔ اس کی فطرت میں تنوع مٹ چکا ہے۔ نوجوانوں کی فطری گفتگو سے حزب مخالف غائب ہو چکا ہے۔ اس کے لئے حزب مخالف بھی قصوروار ہے۔ حزب مخالف نے ابلاغ کے اختیاری طریقے کا استعمال نہیں کیا۔ جو ان کے اداروں  کا ڈھانچہ تھا، اس کا استعمال نہیں کیا۔

 وہ آج بھی اس اخبار اور چینل کو دیکھ‌کر اپنا دن شروع کرتے ہیں جہاں وہ ہیں ہی نہیں اور ہوں‌گے بھی نہیں۔ میں نے ایسے کئی ووٹر دیکھے جن کے دماغ میں اپوزیشن  کے ختم ہونے  کی حالت بن چکی ہے۔ ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو مگر مجھے ایسا لگا۔ آگے اور نوجوانوں سے ملوں‌گا، جیسےجیسے تجربہ بدلے‌گا، لکھوں‌گا۔

میں ملا تو ضرور کئی درجن نوجوانوں سے مگر بات چیت میں حصہ کچھ نے ہی لیا۔ باقی کیوں خاموش رہے، کسی کی طرف سے کیوں بولڈ نہیں تھے، یہ گیس کرنا ٹھیک نہیں ہوگا مگر اس کو درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک نوجوان نے ضرور چمک‌کر کہا کہ فوج پر سوال کئے جا رہے ہیں۔ کانگریس کو نہیں کرنا چاہیے۔ پر کیا کانگریس کا سوال فوج کو لےکر تھا یا مارے گئے دہشت گردوں کی تعداد کو لےکر تھا جو بی جے پی کے رہنماؤں نے اپنی طرف سے کئے۔

 ایسی باریکیاں گفتگو سے غائب رہیں۔ جو بھی ہے یہ بولنے والا نوجوان اپنی سیٹ سے کھڑا ہو گیا۔ کچھ نوجوانوں نے اپنی سیٹ پر بیٹھے ہوئے کہا کہ فوج کو لےکر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ مودی کا اکیلے کا فیصلہ نہیں تھا۔ وہاں تو سب مل کر فیصلہ کرتے ہیں۔ اس لئے سب کا فیصلہ ہو اور اس کا سہرا اکیلا لے یہ ٹھیک نہیں ہے۔ سب بولنے کے بعد وہ یہ بولنا نہیں بھولے کہ فوج کو لےکر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ میڈیا یا بی جے پی کے اداروں  نے جو ماحول بنایا ہے شاید اس میں دبی زبان میں اتناہی کہا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے ان نوجوانوں کے پاس اپنی دلیلوں کو لےکر اتنی خوداعتمادی نہیں ہے کہ اپنی بات کی دعوےداری کھل‌کر کر سکیں۔

لڑکیوں سے بھی ملا، ان کی بولنے کے لئے  حوصلہ افزائی کرنے کے بعد بھی نتیجہ زیرو رہا۔ یہ بہت تکلیف دہ ہے۔ کاش اسے کوئی بدل دیتا۔ ایک ہی بول پائی مگر وہ اپنے تجربہ اور سیاسی سمجھ میں فرق نہیں کر پائی۔ جیسا کہ نوجوان لڑکے بھی نہیں کر پائے۔ اس لڑکی نے کہا کہ سرکاری امتحان ہوتا ہے تو پیسے دےکر سیٹ بک جاتی ہے۔ مثال وہ حال فی الحال کی دے رہی تھی مگر آخر میں کہا کہ جب سے بی جے پی آئی ہے، سب ٹھیک ہو گیا ہے۔

 کیا اپنی بات کو کہنے کے بعد بی جے پی کے لئے کچھ اچھا کہنا ضروری ہے یا یہ ان کی فطری پسند ہے، اس کا آخری جواب میرے پاس نہیں ہے۔ میں صرف اس نوجوان کو پڑھ رہا تھا جس کو لےکر کہا جاتا ہے کہ یہ ملک بدل دیں‌گے۔ مگر ان کو صحیح سے پتا ہے کہ انگریزی اور ریاضی کی خراب سمجھ نے ان کو قصبے کو بدلنے لائق نہیں چھوڑا ہے۔ میں باغپت کی کھیکڑا تحصیل کے ایک کوچنگ سینٹر میں ان سے باتیں کر رہا تھا۔

نوجوانوں کو پتا ہے کہ دیہی اور قصبہ کے علاقوں میں تعلیمی انتظام ٹھپ ہے۔ اس کا معیار اتنا خراب ہے کہ وہ کئی سال اسکول اور کالج میں گزارنے کے بعد بھی درجہ چہارم کے لائق ہی ہو پاتے ہیں۔ ان نوجوانوں نے سرکاری اسکول اور کالج گھٹیا ہی دیکھے ہیں۔ گھٹیا کالجوں کا ہر دور میں بنے رہنا اور اس کا کبھی نہ بدلنا ان نوجوانوں کو تعلیم میں اصلاح کی کسی بھی امید سے دور کر دیا ہے۔ انہوں نے اس جانکاری کو قبول‌کر نے کے بجائے نظرانداز کرنا سیکھ لیا ہے۔

 ایسی بات نہیں ہے کہ انہوں نے اس کو ٹھیک کرنے کے لئے کوشش نہیں کی۔ مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ یہ ضرور ہے کہ وہ  روزگار کے سوال سے کافی پریشان ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انتخابی سال میں بحالیاں آئیں ہیں۔ ورنہ پانچ سال تک ویکنسی نہیں آئی۔ اب جب انتخاب ختم ہوگا تب پھر بحالیاں آنی بند ہو جائیں‌گی، لیکن ان سوالوں کو بیان کرتے وقت ان کا ویسا غصہ نہیں دکھا جو بےروزگاری کے مسئلے میں امید کی جاتی ہے۔ انتخاب میں یہ کس کو ووٹ دیں‌گے، میں اس میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

بہت سارے نوجوانوں نے کھل‌کر نہیں کہا کہ وہ کس کو ووٹ کریں‌گے۔ مگر بی جے پی کے حامی نے کہا کہ سارا ووٹ بی جے پی کا ہے۔ ہم امیدوار کو ووٹ نہیں کر رہے ہیں۔ ان سے تو دکھی ہیں۔ انہوں نے ایسی کئی کمیاں گنا دی جن کو سن‌کر لگ سکتا ہے کہ یہ بی جے پی کو ووٹ نہیں کریں‌گے۔ انہوں نے سب بتایا کہ اسپتال میں ڈاکٹر نہیں ہیں۔ ایمرجنسی  میں 30 کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے۔ پڑھائی خراب ہے۔ سڑکیں خراب ہیں۔ صفائی کا برا حال ہے۔ مگر ہمارا سارا ووٹ بی جے پی کو جائے‌گا۔

یہ نوجوان فعال حمایتی  ہو سکتا ہے، اگر ہے تب بھی میں دیکھنا چاہ رہا تھا کہ تمام طرح کے بحران کا کسی ووٹر پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ان کے من کی بات نہیں جانتا لیکن جو کہا اس کی بنیاد پر لگا کہ کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ ایک نے کہا کہ ملک ضروری ہے۔ اس کے لئے دو سال اور بےروزگار رہ لیں‌گے۔ یہ وہی نوجوان تھا جو کہہ رہا تھا کہ جب سب نے مل‌کر پاکستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو پھر مودی اکیلےاس کا  سہرا کیوں لے رہے ہیں۔

صرف ایک جگہ کچھ ووٹر میں خود کو لےکر وضاحت دکھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پنچایت، کونسلر، ایم ایل اے اور رکن پارلیامان کے انتخاب میں بی جے پی کو ووٹ دینے تک امید رکھی کہ ان کی زمین کا معاوضہ ملے‌گا۔ ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے لوگوں نے ہی مظاہرہ شروع کروایا، شروع میں ان کے رہنما خوب آئے۔ ان کا مظاہرہ اب دو سال سے زیادہ کا ہو چکا ہے۔

زمین پر رینگ‌کر مظاہرہ کرنے سے لےکر پولیس کی لاٹھی کھانے اور کئی مقدموں میں گھیرے جانے کے بعد اب وہ کسی اور آپشن  کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ بنا پوچھے کہہ رہے ہیں کہ ہم ووٹ نہیں کریں‌گے۔ لکھنؤ سے لےکر دہلی تک حکومت ہونے کے بعد بھی معاوضہ نہیں دلایا اور نہ ہی جیتنے کے بعد حال لینے آئے۔ خواتین کو پولیس نے مارا، اس سے بھی دکھی ہیں۔ ایک ووٹر سے شہری بننے کا عمل کتنا لمبا ہے۔ کئی سال بعد وہ بدلتا ہے۔ بدلنے کا مطلب ہے کہ وہ سسٹم کی بےرحمی دیکھ پاتا ہے۔

کیا ان کے تجربات کی بنیاد پر دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ کسانوں میں شہری شعور آیا ہے؟ کیا وہ اپنے مدعوں کے متعلق اتنے ایماندار ہیں کہ کسی سیاسی جماعت کے متعلق عقیدت کوئی معنی نہیں رکھتی ہے؟ میرا جواب ہے نہیں ۔ سیاسی جماعتوں نے بار بار کسانوں کو ٹھگا ہے۔ اب وہ ٹھگے جانے اور کچلے جانے میں فرق نہیں کر پاتے ہیں۔ سیاسی تبدیلی ایک پارٹی کو ہراکر دوسری کو لانے سے نہیں آتی ہے۔ سیاسی تبدیلی آتی ہے سیاسی شعور کی تعمیر میں۔ کیا حزب مخالف نے کسی سیاسی شعور کی تعمیر کی ہے، اس کے لئے جدو جہد کیا ہے؟ یا پھر لوگوں نے اپنی سطح پر سیاسی شعور کی تعمیر کی ہے، جس میں میڈیا اور حزب مخالف تنظیموں کا کوئی کردار نہیں ہے، تو اس کا جواب 26 مئی کو ملے‌گا۔ ابھی نہیں کیونکہ عوام بول نہیں رہی ہیں۔ بتا نہیں رہی ہیں۔

ووٹر کے بننے کے عمل کو اگر دیکھیں تو سب کچھ ووٹر کے نجی تجربات پر چھوڑا گیا ہے۔ نجی تجربات کے سہارے ان کو چھوڑ‌کر اطلاعات کی دنیا نے ان کو اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ اطلاعات کی دنیا ان کے لئے ایسے تجربات کو گڑھتا ہے جو کئی بار ان کے نجی  تجربے پر بھاری پڑ جاتے ہیں۔ مجھے ایک ووٹر کا لاپرواہ دکھنا یا ووٹ کو لےکر ہلکے میں بات کرنا اچھا نہیں لگتا۔ اس کا ہلکا ہونا ہی جمہوریت کا کھوکھلا ہونا ہے۔

(بہ شکریہ رویش کمار فیس بک پیج)