خبریں

رشوت کے معاملوں سے نپٹنے کے لیے الیکشن کمیشن کے مطالبات کو مرکز ی حکومت نے نہیں مانا

الیکشن  کمیشن نے عوامی نمائندگی قانون، 1951 میں ترمیم کرکے دفعہ 58بی کو  شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا، تاکہ سیاسی جماعتوں کے ذریعے رائےدہندگان کو رشوت دینے پر انتخاب کو ملتوی یا رد کیا جا سکے۔ لیکن حکومت نے اس  کو خارج کر دیا۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

نئی دہلی: الیکشن کمیشن نے2016 سے اب تک 4بار خط لکھ‌کر مودی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اگر کسی بوتھ یا انتخابی حلقہ میں رائےدہندگان کو رشوت دینے کے معاملے سامنے آتے ہیں تو کمیشن کو یہ اختیار دیاجانا چاہیے کہ وہ انتخاب کو ملتوی/رد کر سکیں۔ حالانکہ حکومت نے ہر بار کمیشن کے اس مطالبہ کو خارج کر دیا۔دی وائر نے آرٹی آئی کے تحت الیکشن کمیشن سے اس معاملے میں وزیر قانون اور وزارت قانون کے ذریعے لکھے گئے خط سمیت کئی دستاویز حاصل کئے ہیں۔ ان خطوط سے واضح ہوتا ہے کہ انتخاب میں پیسے کے بڑھتے استعمال کے باوجود حکومت یہ اختیار نہیں دینا چاہتی ہے کہ رشوت کے معاملے سامنے آنے پر کمیشن انتخاب کو  رد کر سکے۔

الیکشن کمیشن نے سب سے پہلے 6 جون 2016 کو اس معاملے میں حکومت کو خط لکھا تھا اور اس کے بعد تین بار خط لکھ‌کر اپنے اسی مطالبہ کو دوہرایا تھا۔ اس میں سے دو بار سابق چیف الیکشن کمشنر نسیم زیدی نے وزیر قانون روی شنکر پرساد کو خط لکھا تھا۔کمیشن نے جون 2016 میں وزارت قانون کو ایک تجویز بھیجی تھی جس میں(Representation of the People Act) عوامی نمائندگی قانون، 1951 میں ترمیم کرکے دفعہ 58اے کی طرز پر دفعہ 58بی کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ دفعہ 58اے کے تحت الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر بوتھ-کیپچرنگ کے معاملے سامنے آتے ہیں تو وہ انتخاب کو ملتوی /رد کر سکتا ہے۔

الیکشن کمیشن نے مطالبہ کیا تھا کہ اسی طرح ایک دیگر دفعہ 58بی کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ سیاسی جماعتوں کے ذریعے کسی انتخابی حلقہ کے رائےدہندگان کو رشوت دینے پر انتخاب کو ملتوی/ردکیا جا سکے۔حالانکہ روی شنکر پرساد اور وزارت قانون نے یہ کہتے ہوئے کمیشن کے مطالبہ کو خارج کر دیا کہ بوتھ-کیپچرنگ اور رشوت کے معاملے ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں یا ان کو ایک ہی چشمے سے نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔

پرساد نے 18 نومبر 2016 کو سابق چیف الیکشن کمشنر نسیم زیدی کو بھیجے خط میں لکھا، جہاں تک رائےدہندگان کو رشوت دینے کے معاملے میں انتخاب کو خارج کرنے کے لئے عوامی نمائندگی قانون، 1951 میں خاص اہتمام کو شامل کرنے کی تجویز ہے، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بوتھ کیپچرنگ کے ساتھ رائےدہندگان کی رشوت خوری کے الزامات کا موازنہ  کرنا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ اس کی صورتیں الگ ہوتی ہیں۔ رشوت کا الزام ہمیشہ جانچ  اور ثبوت کا موضوع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، کمیشن قبل  میں آئین کے آرٹیکل 324 میں دیے گئے اختیارات کے تحت ان حالات سے نپٹ رہا ہے۔ اس لئے، صورت حال بنائیں رکھیں۔ ‘

پرساد سے پہلے وزارت قانون نے 26 ستمبر 2016 کو الیکشن کمیشن کو ایک خط بھیجا تھا جس میں یہی بات لکھی گئی تھی۔ اس خط پر حکومت ہند کے نائب سکریٹری کےکے سکسینہ کا دستخط ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذریعے پھر سے اسی معاملے کی سفارش کرنے پر وزارت نے 22 مئی 2017 کو خط لکھ‌کر اپنے پرانے جواب کو ہی دوہرایا اور کمیشن کے مطالبہ کو خارج کر دیا۔

23 نومبر 2016 کو روی شنکر پرساد کو بھیجے ایک خط میں نسیم زیدی نے لکھا، وزارت قانون کا ماننا ہے کہ بوتھ کیپچرنگ کے ساتھ رشوت کے الزامات کا موازنہ کرنا صحیح نہیں ہوگا کیونکہ رشوت ایک تفتیش اور ثبوت کا معاملہ ہوگا۔ اس تناظر میں، میں یہ بتانا چاہوں‌گا کہ بوتھ-کیپچرنگ کے معاملے میں بھی، کمیشن متعلقہ قانون کے تحت حقائق  کی توثیق اور اطمینان کے بعد ہی قانونی کارروائی کرتا ہے۔ رشوت کے معاملے میں بھی ایسا ہو سکے‌گا۔ کمیشن کو بہت محدود مدت میں کام کرنا ہوگا اور وہ سنجیدہ، غیر جانبدارانہ اور حقائق  پر مبنی جانچ اور توثیق کے بعد ہی کام کرتا ہے۔ اس طرح کمیشن کا ماننا ہے کہ کمیشن کے ذریعے کارروائی کرنے کے لئے دونوں جرائم کو الگ الگ کرکے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘

انہوں نے آگے لکھا، جیسا کہ پچھلے خط میں تجویز رکھی گئی تھی کہ پیسے کا غلط استعمال اور رائےدہندگان کو رشوت دینے کے معاملوں کو دیکھتے ہوئے، ہر موقع پر آرٹیکل 324 کے تحت مکمل اختیار کا استعمال کرنے کے بجائے اس مسئلہ سے نپٹنے کے لئے قانون میں ایک خاص اہتمام ہونا چاہیے۔ ‘واضح ہو کہ سال 2017 میں کثیرمقدار میں نقد بر آمد ہونے پر کمیشن کو تمل ناڈو کے رادھاکرشنانگر حلقہ کے ضمنی انتخاب کو آرٹیکل 324 میں دیے گئے اختیارات کے تحت رد کرنا پڑا تھا۔ اس سے پہلے 2016 میں رشوت کے معاملوں کی وجہ سے کمیشن نے تمل ناڈو کی اراواکرچی اور تھنجابور حلقہ کے انتخاب کو ردکیا تھا۔

نسیم زیدی نے دی وائر سے کہا، حکومت کہہ رہی ہے کہ کمیشن کو آرٹیکل 324 کے تحت ہی اس معاملے سے نپٹنا چاہیے۔سپریم کورٹ نے آرٹیکل 324 کے تحت الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیا تھا کہ اگر کسی معاملے کو لےکر قانون نہیں بنا ہے یا پھر جہاں قانون خاموش ہے تو خاص حالات میں اس کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ چوں کہ رشوت کے معاملے بہت بڑے ہو چکے ہیں اس لئے بار بار آرٹیکل 324 استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ناکافی ہے۔ اس کے لئے الگ سے قانون ہونا چاہیے۔ جس طرح قانون بنانے کے بعد بوتھ کیپچرنگ پر کمیشن نے 99.99 فیصد لگام لگا دی اسی طرح رشوت خوری کے متعلق قانون بنتا ہے تو کمیشن اس پر روک لگا سکے‌گا۔ ‘

زیدی نے کہا کہ ایک آزاد اور غیر جانبدارانہ انتخاب کرانے کے لئے عوامی نمائندگی قانون، 1951 میں دفعہ 58بی جوڑنا ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیشن کو بار بار حکومت کے پاس یہ سفارش بھیجنی چاہیے۔ حالانکہ کمیشن سے ملی جانکاری سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نسیم زیدی کے بعد ابھی تک کسی دوسرے کمشنر نے اس کی سفارش نہیں بھیجی ہے۔

Election Commission Documents by The Wire on Scribd

غور طلب ہے  کہ حال ہی میں چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑہ نے کہا کہ پیسوں کے غلط استعمال کی وجہ سے آزاد اور غیر جانبدارانہ انتخاب کرانا ہندوستانی جمہوریت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اروڑہ سے پہلے بھی کئی الیکشن کمشنر اس مسئلہ کو حکومت کے سامنے رکھتے رہے ہیں۔مودی حکومت کا دعویٰ تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے بلیک ختم ہو جائیں‌گے، لیکن سابق چیف الیکشن کمشنر اوپی راوت نے کہا تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے بلیک منی پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ سال 2018 میں پانچ ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے تناظر میں راوت نے کہا تھا کہ ہم نے ان انتخابات میں 200 کروڑ روپے ضبط کئے ہیں۔

پچھلے کچھ سالوں میں الیکشن کمیشن کے ذریعے ضبط کئے گئے نقد، ڈرگس، شراب اور قیمتی تحائف

آر ٹی آئی کے تحت ملی جانکاری سے پتہ چلتا ہے کہ  2016 کے آسام، مغربی بنگال، کیرل، تمل ناڈو اور پڈوچیری کے اسمبلی انتخابات میں الیکشن کمیشن نے 175.53 کروڑ کی نقد، 24.29 کروڑ روپے کی قیمت کی 52.76 لاکھ لیٹر شراب اور 12.05 کروڑ روپے کی قیمت کا 65260 کلو ڈرگس بر آمد کیا تھا۔کمیشن نے آسام میں 11.83 کروڑ روپے  نقد، 4.69 کروڑ روپے کی قیمت کی 9.72 لاکھ لیٹر شراب اور 5.99 لاکھ روپے کی قیمت کا 11928 کلو ڈرگس بر آمد کیا تھا۔ اسی طرح مغربی بنگال کے انتخاب میں 20.75 کروڑ روپے، 40.56 لاکھ لیٹر شراب اور 52216 کلو ڈرگس بر آمد کیا تھا۔

اس کے علاوہ کیرل میں 23.15 کروڑ روپے نقد، 49669 لیٹر شراب اور 521 کلو شراب ضبط کی گئی۔ سب سے زیادہ نقد رقم تمل ناڈو سے بر آمد کی گئی تھی۔ کمیشن نے یہاں پر 112.32 کروڑ روپے اور 1.84 لاکھ لیٹر شراب بر آمد کی تھی۔2017 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بھی ایسی ہی حالت تھی۔ اس سال اتراکھنڈ، پنجاب، گوا، اتر پردیش اور منی پور میں ہوئے انتخابات میں 184.85 کروڑ روپے  نقد، 37.26 لاکھ لیٹر شراب اور 6264 کلو ڈرگس بر آمد کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ 50 کروڑ سے زیادہ کے سونا چاندی بھی بر آمد کئے گئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے اکیلے اتر پردیش سے 119.03 کروڑ روپے نقد ضبط کیا تھا۔

اسی طرح 2014 کے لوک سبھا انتخاب اور اورناچل پردیش، آندھر پردیش (غیر منقسم) اڑیسہ اور سکّم کے اسمبلی انتخابات میں کمیشن نے 303.85 کروڑ روپے نقد اور شراب بر آمد کیا تھا۔کمیشن نے 24 اپریل 2017 کو حکومت کو لکھے خط میں لکھا،یہ اعداد و شمار صرف اس معاملے کی حد اور سنگینی کے اشارے ہیں کیونکہ یہ برآمدگی بہت بڑے مسئلہ کا بہت چھوٹا حصہ ہے۔ اس لئے الیکشن  کی غیر جانبداری کو تباہ کرنے والی مالی طاقت کے غلط استعمال پر مؤثر کارروائی کے لئے قانون کو اور سخت بنانے کی ضرورت ہے۔ ‘

الیکشن کمیشن نے آگے لکھا، انتخابات میں رشوت رائےدہندگان کی پسند کو متاثر کرنے کے لئے ہیرپھیر کرنے کی ایک کوشش ہے، اور آزاد اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے تناظر میں ایک بہت ہی سنگین جرم ہے۔ جرم کے وسیع اثر کو دیکھتے ہوئے، کمیشن کا ماننا ہے کہ انتخاب لڑنے کی نااہلی کے لئے دیگر جرائم کے مقابلے  اس جرم کو ایک الگ سطح پر رکھا جانا چاہیے۔ ‘

اس کے علاوہ کمیشن نے اس آدمی کو نااہل قراردینے کی تجویز رکھی تھی جس کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 171بی اور 171سی کے تحت رشوت خوری اور غیر مناسب اثر کے الزام طے ہوئے ہوں۔ فی الحال یہ اصول ہے کہ اگر کسی آدمی کو کم سے کم چھے سال کے لئے سزا ہوتی ہے تو وہ عوامی نمائندگی قانون، 1951 کی دفعہ 8 (1) کے تحت انتخاب لڑنے کےلئے نااہل ہو جاتا ہے۔

الیکشن اصلاحات کی سمت میں کام کرنے والا غیر حکومتی ادارہ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) کی حالیہ رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ انتخابات میں پیسے، شراب، قیمتی تحفہ وغیرہ دینے سے رائےدہندگان متاثر ہوتا ہے۔ اے ڈی آر نے اپنے سروے میں پایا ہے کہ 41.34 فیصد رائےدہندگان کے لئے پیسے، شراب، قیمتی تحفہ وغیرہ انتخاب میں کسی خاص امیدوار کو ووٹ دینے کے فیکٹر ہیں۔

قابطل ذکر ہے کہ  1989 میں عوامی نمائندگی قانون، 1951 میں دفعہ 58اے جوڑی گئی تھی ۔ اس وقت، بوتھ کیپچرنگ کو انتخاب میں ایک بڑا مسئلہ مانا جاتا تھا۔ بعدکے سالوں میں اور خاص کر حالیہ سالوں میں، آزاد اور غیر جانبدارانہ انتخابات میں پیسے کے غلط استعمال کا سنگین اثر دیکھا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذریعے انتخابات کے دوران امیدواروں/ان کے ایجنٹ، سیاسی پارٹی کارکنان سے بڑی مقدار میں نقدی، شراب، نشیلے مادوں، تحفے وغیرہ کو ضبط کرنے کی کئی مثال سامنے آئی ہیں۔