ادبستان

ورق در ورق: افغانستان کا معاصر افسانوی منظرنامہ اور معاشرہ

اردو چینل معاصر ادبی رسائل سے اس بنا پر ممیز اور ممتاز کیا جاسکتا ہے کہ اس کے ہر شمارے میں ان ملکوں کے ادبی منظر نامے کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے جن سے واقفیت عام نہیں ہے۔

Urdu Channel

تشدد کے لرزہ خیز واقعات ، خود کش بم دھماکے ، قتل اور غارت گری، زندگی کے تمام گوشوں پر گہری مذہبی انتہا پسندی کے لرزاں سائے اور جمہوری اور سیکولر اقدار سے بے زاری، یہی وہ حوالے ہیں جن سے افغانستان کا معاصر منظر نامہ متشکل ہوتا ہے۔ افغانستان میں فنون لطیفہ، علی الخصوص شعرو ادب کی کیا صورت حال ہے؟ پشتو اور فارسی بولنے والوں سے آباد یہ ملک، جہاں زبانی، لوک اور تحریری ادب کی ایک عظیم روایت رہی ہے ، کیا اب زندگی کرنے کے حسی اورجمالیاتی حوالوں سے یکسر محروم ہو گیا ہے؟

انتشار، افرا تفری، تنگ نظری، جہالت اور مبینہ شجاعت پر احساس تفاخر سے پرے بھی کیا افغانستان کا کوئی وجود ہے؟ یہ سوالات بڑی حد تک تشنۂ تعبیر ہی رہتے ہیں۔ ہمارے معاصر معاشرے میں جس کی تشکیل ذرائع ابلاغ کی رہین منت ہے، افغانستان جہالت، توہم پرستی اور عدم رواداری کے ایک قابل نفریں پیکر کے طور پر ابھرتا ہے۔ افغانستان سے متعلق اسٹیریو ٹائپ مسلمہ صداقت کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔

افغانستان کی علمی و فکری پیش رفت، دانشورانہ سرگرمیوں، فکر و اظہار کے نئے طریقوں اور گہری انسانی دردمندی کو محیط تخلیقی بیانیہ سے متعلق مکمل عدم آگہی کی دبیز تاریکی کا پردہ چاک کرنے کی لائق تحسین کوشش ممبئی سے شائع ہونے والے مؤقر ادبی جریدے اردو چینل نے اپنے شمارہ نمبر 38میں کی ہے جو حال ہی میں اشاعت پذیر ہوا ہے۔

اردو چینل معاصر ادبی رسائل سے اس بنا پر ممیز اور ممتاز کیا جاسکتا ہے کہ اس کے ہر شمارے میں ان ملکوں کے ادبی منظر نامے کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے جن سے واقفیت عام نہیں ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس جریدہ نے کُردی افسانہ پر بھی ایک بہت اچھا گوشہ شائع کیا تھا۔ تازہ شمارے میں معاصر افغانی افسانے کو مرکز ارتکاز بنایا گیا ہے۔ اردو چینل کے مدیر اور نئی نسل کے معتبر ناقد اور شاعر قمر صدیقی نے اپنے اداریے میں معاصر افغانی افسانے کے امتیازات واضح کرتے ہوئے لکھا ہے؛

افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے اور اس سے ہمارا تعلق صدیوں پرانا ہے۔ لیکن وہاں کے ادب و ثقافت کے حوالے سے ہماری معلومات افسوس ناک حد تک کم ہیں۔ افغانستان ایک عرصہ سے جنگ اور تشدد کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ اس آگ نے افغانستانی معاشرہ کو کتنی گہرائی تک جھلسا دیا ہے اس کا احساس آپ اس شمارے میں شامل افسانوں کی مدد سے کر سکتے ہیں۔ افغانستان کے معاصر افسانوی منظر نامہ سے منتخب کردہ پانچ افسانے افغانستان کے معاشرہ کی عکاسی تو کرتے ہی ہیں، افغانستان کے شستہ ادبی ذوق کا اشاریہ بھی ہیں۔

معاصر افغانی افسانہ اس عام ادبی تصور کی تخلیقی سطح پر تکذیب کرتا ہے کہ کسی اہم سانحہ یا واقعہ کو فوری طور پر منعکس نہیں کیا جا سکتا ہے اور اگر اس پر مبنی کوئی فن پارہ لکھا بھی گیا ہے تو یہ دیر پا نہیں ہوگا۔نیز اس کی وقعت اخباری رپورٹ سے زیادہ نہیں ہوگی۔ بامیان وادی میں مہاتما بدھ کے قدیم ترین مجسموں کو طالبان نے بم دھماکے سے اڑا کر تہذیبی ورثہ کو نیست و نابود کرنے کی مذموم حرکت کی تھی۔ انسانیت کو شرمسار کر دینے والا یہ واقعہ 2001 میں رونما ہوا تھا اور محض ایک ماہ بعد ممتاز پشتو ادیب زالمے بابا کوحی نے اپنا بے مثال افسانہ ‘مورتی کی دھول’لکھا جس کی عالمی سطح پر بڑی پذیرائی ہوئی اور اس کا انگریزی ترجمہ The Idol’s Dustبہت مقبول ہوا تھا۔

بزدلی اور عدم رواداری ہمیشہ ظلم و تشدد کو راہ دیتے ہیں اور تشدد کا بازار گرم کرنے والے دراصل اندر سے انتہائی خوف زدہ اور بزدل افراد ہوتے ہیں۔ ظلم کی یہ اساس بھی بزدلی پر قائم ہے۔ تشدد کے پیروکار کس طرح خود اس کا شکار ہوتے ہیں، یہ افسانہ اس کی تفصیل گہرے فنکارانہ شعور کے ساتھ بیان کرتا ہے۔

اردو چینل کے شمارے میں اس افسانے کا ترجمہ ‘مورتی کی دھول’کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے اور معروف مترجم ڈاکٹرذاکر خاں نے اسے فنی مہارت کے ساتھ اردو میں منتقل کیا ہے۔ کسی چیز کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی سفاکانہ کوشش کس طرح اس شے کی افزونی کا باعث بن جاتی ہے، اسی نکتہ کو باباکوحی نے تخلیقی ہنر مندی کے ساتھ اجاگر کیا ہے؛

بڑے پیمانے پر دھماکہ خیز مادے کا استعمال کیا گیا، تیز آوازوں کے ساتھ ہونے والا انتہائی بھیانک دھماکہ جس کے زیر اثر دھول آسمانوں پر پہنچتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ اس دھماکے نے گوتم بدھ کی اس مورتی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جو پہاڑوں کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے تھی۔ اب اس مورتی کے ٹکڑے وادیوں میں جا بجا بکھرے ہوئے تھے، گوتم بدھ وادیوں میں سنگریزوں کی طرح ٹوٹ پھوٹ کر بکھر چکا تھا لیکن اب وہی سنگریزے لاکھوں کروڑوں بدھ میں تبدیل ہوتے محسوس ہو رہے ہیں۔ شام کے ستارے نے بدھ کی مورتی کے ٹکڑوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کے ٹوٹ کر بکھر جانے کی تصدیق کر دی۔ اب پہاڑوں کے دامن میں سنگریزوں کی صورت لاکھوں کروڑوں گوتم بدھ کی چھوٹی بڑی مورتیاں چمکتی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔

بدھ کی مورتی توڑنا آسان نہیں تھا اور بندوقوں، ٹینکوں اور مورٹار سے جب اسے مسمار نہیں کیا جا سکا تو طالبان نے گوتم بدھ کی مورتی کے دل میں دھماکہ خیز مادہ بھر دیا اور دھماکے کے بعد مورتی ریزہ ریزہ ہو گئی۔ مورتی کے ٹکروں کو ادھر اھر بکھیرنے کا کام بعض نوجوان بڑی تندہی اور جوش و خروش سے انجام دیتے رہے اور مورتی کی دھول میں ان کا پورا وجود غائب ہو گیا۔ ان لوگوں نے پانی میں غوطہ لگا کر دھول چھڑانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئے۔

ان کے چہرے، ناک اور کان سوکھنے پر مورتی کی دھول کے سفید ذرات جم گئے تھے جو کسی صورت سے نہیں ہٹے۔ مورتی توڑنے والے خود مورتیوں میں تبدیل ہو گئے تھے۔ دھول پانی سے بھی صاف نہیں ہو رہی تھی۔ اس پر سب ششدر تھے۔ چار طالبان کو جو مورتی میں تبدیل ہو گئے تھے، آخرش کمانڈر کے حکم کے مطابق گولی مار دی گئی۔ کمانڈر کا حکم تھا ؛

ہر اس شے کو توڑ دو جو مورتی میں تبدیل ہو گئی ہو۔ ہر اس چیز کو ضایع کردو جو پہلے ہی سے مورتی کی شکل میں موجود ہو۔

یہ طالبان مکمل طور پر پتھر میں تبدیل ہو گئے تھے کہ ان کے جسم سے خون نہیں بہا۔ ان کا اندرون دھول اور راکھ سے بھرا ہوا تھا۔ کمانڈر ملّا حنان بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہا کہ اس نے جب تسبیح پڑھنے کی کوشش کی تو اس کے دانوں میں حرکت نہیں تھی۔ وہ پتھر میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اس کی انگلیاں اس قدر سرد ہو چکی تھیں کہ وہ تسبیح کے دانوں کو حرکت دینے سے قاصر تھا۔ اس نے اپنی انگلیوں کی طرف دیکھا ، اس کی انگلیوں کی پوریں سفید ہو چکی تھی، چونے کے پتھر کی طرح سفید۔

ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی پتلے کے پلاسٹر لگے ہوئے ہاتھ ہوں‘‘۔ اس صورت حال نے کمانڈر ملّا حنان کو بری طرح خوف زدہ کر دیا اور اس نے اپنے سپریم کمانڈر سے رابطہ قائم کیا اور اس سے ملاقات کا خواہاں ہوا۔ ملّا حنان کی ملاقات سپریم کمانڈر سے ہوئی۔ وہ اس وقت مصلے پر بیٹھا تلاوت کر رہا تھا۔ جب اس نے اسے سلام کرنے کے لیے اپنا منھ کھولا تو سلام کے بجائے اس کے گلے سے ایک چیخ نکلی؛

اوہ کمانڈر…مورتی کی دھول….کمانڈر کی پیشانی پر مورتی کی دھول….نہیں ایسا نہیں ہو سکتا…..کیا ہمارا کمانڈر بھی….؟

یہ افسانہ مہاتما بدھ کے تاریخی مجسموں کی تاراجی اور ان کے انہدام کا دلدوز انسانی بیانیہ خلق کرتا ہے جس پر واقعہ کے فوری پن کے اثرات نمایاں نہیں ہیں اور افسوس ناک انہدام ایک غیر انسانی اور غیر مہذب خوں آشام المیہ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے جس پر گردش زمانہ اثر انداز نہیں ہو سکتی ہے۔

نوجوان پشتو افسانہ نگار محمود مرہون کا افسانہ ‘نامۂ اعمال’گہرے فنی شعور کے ساتھ اس حقیقت کو باور کراتا ہے کہ بے گناہ لوگوں اور معصوم بچوں اور عورتوں کا قتل کسی بھی صورت میں کسی شخص پر جنت کے دروازے وا نہیں کر سکتا ہے۔ خوں ریزی ایسا گناہ ہے جسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی کا نتیجہ کبھی مثبت نہیں نکل سکتا۔ ہم ایسے زمانہ میں زندہ ہیں جب مذہب کی غلط تعبیر سے پیدا شدہ جنون نے ہم سے قاتل اور شہید میں فرق کرنے کی صلاحیت سلب کر لی ہے۔

نامہ اعمال کے ہیرو نے اپنی دانست میں خود کو جہاد میں مسلسل مصروف رکھا اور اس نے اپنی جان کی قربانی بھی دی۔ مرکزی کردار سے اس کے اعمال و افعال کی پرسش ہوئی اور پھر اسے جنت کے بجائے جہنم کا راستہ دکھایا گیا تو شکست خواب کے اس دلدوز منظر کی تفصیل افسانہ نگار سے سنیے؛

کیا میں مر چکا ہوں…نہیں میں مر نہیں سکتا، اگر میں مرتا تو شہید بن جاتا‘

’’تم اور تمہاری شہادت!!‘‘

’’اور یہ کیا ہے؟‘‘

’’یہ تمہارا نامۂ اعمال ہے‘‘

’’میرا نامہ اعمال؟ رکیے، مجھے اپنا داہنا ہاتھ آگے بڑھانے دیجئے۔ تم جانتے ہو کہ میں ایک شہید ہوں…اوہ! میرا داہنا ہاتھ کہاں چلا گیا….اب میں کیا کر سکتا ہوں۔ میں اپنا نامۂ اعمال بائیں ہاتھ میں لے لیتا ہوں۔ اف میرے خدا، تم مجھے جہنم کی طرف کیوں لے جا رہے ہو؟ کیا میں شہید نہیں ہوں؟‘‘

’’نہیں ، تم شہید نہیں بن سکتے۔ تم ایک قاتل کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو۔‘‘

اس گوشے میں خان محمد سند کا افسانہ’کرتب’، پروین فیض زادہ ملال کا افسانہ ‘نفرت’اور محمد کارواں کا افسانہ’پہاڑوں کی جانب’شامل ہے۔ یہ افسانے تشدد، جبر، نفرت اور ذرائع ابلاغ کے توسط سے تشکیل دینے والے جھوٹ کو سچ کی شکل میں پیش کرنے کی متعدد صورتوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ ڈاکٹر قمر صدیقی اور ڈاکٹر ذاکر خاں کی اردو داں حلقوں کو معاصر افغانی افسانہ سے متعارف کرانے کی کوشش قابل قدر بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔

مختلف موضوعات کو محیط سرسری مضامین، غزلیں اور افسانوں پر مشتمل رسالہ شائع کرنا تو آسان ہے مگر کسی ایک مخصوص اور نئے موضوع پر لائق مطالعہ مواد جمع کرنا اور اسے فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ پیش کرنا آسان نہیں ہے اور یہ مقام مسرت ہے کہ یہ دشوار کام اردو چینل کر رہا ہے۔

(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)