خبریں

بلقیس بانو معاملہ: مجرم پولیس والوں پر 2 ہفتے میں کارروائی کرنے کے لیے گجرات حکومت کو حکم

بلقیس بانو کے ساتھ مارچ 2002 میں گینگ ریپ  کیا گیا تھا، اس وقت وہ حاملہ تھیں۔ انہوں نے گجرات فسادات میں اپنی فیملی کے سات ممبروں کو کھویا تھا۔

سپریم کورٹ/ فوٹو: پی ٹی آئی

سپریم کورٹ/ فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو گجرات حکومت کو حکم دیا کہ 2002 کے بلقیس بانو معاملے میں مجرم قرار دیےگئے پولیس افسروں کے خلاف دو ہفتے کے اندر انضباطی کارروائی پوری کی جائے۔چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس سنجیو کھنہ کی بنچ نے  گجرات حکومت کو یہ طے کرنے کے لئے دو ہفتے کا وقت دیا ہے کہ 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو گینگ ریپ  معاملے کی تفتیش میں چھیڑچھاڑ کے لئے ہائی کورٹ کے ذریعے مجرم قرار دیے   گئے 6 پولیس اہلکاروں کے خلاف انضباطی کاروائی کی جائے۔

ہائی کورٹ نے چار مئی 2017 کوآئی پی سی  کی دفعہ 218 (اپنی ڈیوٹی نہیں کرنے) اور دفعہ 201 (ثبوتوں سے چھیڑچھاڑ کرنے)کے تحت پانچ پولیس اہلکاروں اور دو ڈاکٹروں کو قصوروار ٹھہرایا تھا۔چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی بنچ نے کہا کہ وہ بلقیس بانو کی زیادہ معاوضہ مانگنے والی عرضی پر 23 اپریل کو سماعت کرے‌گی۔ بنچ میں جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس سنجیو کھنہ بھی شامل ہیں۔

بلقیس بانو نے گجرات حکومت کے پانچ لاکھ روپیہ کے معاوضہ دینے سے متعلق پیشکش کو منظور کرنے سے بنچ کے سامنے انکار کر دیا۔عدالت نے ریاستی حکومت کے ذریعے مجوزہ پانچ لاکھ روپے کے معاوضے کی رقم کو ‘ عبوری ‘ بتایا اور کہا کہ دوسرے کے لئے نظیر بننے والا معاوضہ دلانے کے لئے دائر عرضی پر 23 اپریل کو سماعت کی جائے‌گی۔

بنچ نے گجرات حکومت کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ کے ذریعے دئے گئے بیان کے مدنظر عرضی پر سماعت دو ہفتے کے لئے ملتوی کر دی۔ مہتہ نے عدالت میں بیان دیا کہ ان افسروں کے خلاف دو ہفتے کے اندر انضباطی کارروائی پوری ہو جائے‌گی۔اس سے پہلے، عرضی پر سماعت شروع ہوتے ہی بانو کی وکیل شوبھا گپتا نے کہا کہ ریاستی حکومت نے قصوروار پولیس افسروں کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک آئی پی ایس افسر ابھی بھی گجرات میں نوکری پر ہے اور وہ اس سال سبکدوش ہونے والے ہیں جبکہ دیگر افسر سبکدوش ہو چکے ہیں لیکن ان کی پنشن اور سبکدوشی کا فائدہ روکنے جیسی کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

گجرات میں احمد آباد کے قریب رندھی کپور گاؤں میں ایک بھیڑ نے تین مارچ 2002 کو بلقیس بانو کی فیملی پر حملہ کیا تھا۔ اس دوران پانچ مہینے کی حاملہ بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ  کیا گیا جبکہ اس کی فیملی کے 6ممبر کسی طرح مشتعل بھیڑ سے بچ‌کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ بلقیس نے گودھرا ٹرین جلائے جانے کے بعد ہوئے گجرات فسادات میں اپنی فیملی کے سات ممبروں کو کھویا تھا۔

ممبئی ہائی کورٹ نے چار مئی 2017 کو 12 لوگوں کی سزايابی اور عمر قید کی سزا کو برقرار رکھا تھا جبکہ آئی پی سی کی دفعہ 218(اپنی ڈیوٹی اد ا نہیں کرنے) اور دفعہ 201 (ثبوتوں سے چھیڑچھاڑ کرنے) کے تحت پانچ پولیس اہلکاروں اور دو ڈاکٹروں کو قصوروار ٹھہرایا تھا۔عدالت عظمیٰ نے اس فیصلے کے خلاف دو ڈاکٹروں اور آئی پی ایس افسر آر ایس بھگوڑا سمیت چار پولیس اہلکاروں کی اپیل 10 جولائی، 2017 کو خارج کر دی تھی۔

واضح ہوکی اس سے پہلے بھی سال 2017 میں اکتوبر اور اس کے بعد نومبر مہینے میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت سے پولیس اہلکاروں کے خلاف ہوئی کارروائی کی تفصیل مانگتے ہوئے سوال کیا تھا کہ سال 2002 کے بلقیس بانو گینگ ریپ معاملے میں قصوروار ٹھہرائے گئے پولیس اہلکاروں کے خلاف انضباطی کارروائی کی گئی ہے یا نہیں۔قصوروار پولیس اہلکاروں میں نرپت سنگھ، ادریس عبدالسید، بیکابھائی پٹیل، رام سنگھ بھابھور، سوم بھائی گوری اور ڈاکٹر ارون کمار پرساد اور ڈاکٹر سنگیتا کمار پرساد شامل ہیں۔

ایک خصوصی عدالت نے 21 جنوری، 2008 کو معاملے میں 11 لوگوں کو قصوروار ٹھہرایا تھا اور عمر قید کی سزا دی تھی۔ اس کے بعد ان لوگوں نے خود کو قصوروار ٹھہرائے جانے کو چیلنج دیتے ہوئے ممبئی ہائی کورٹ کا رخ کیا اور نچلی عدالت کے فیصلے کو خارج کئے جانے کی گزارش کی۔سی بی آئی نے بھی ہائی کورٹ میں ایک اپیل دائر کر کے اس بنیاد پر تین قصورواروں کو موت کی سزا دئے جانے کی گزارش کی کہ وہ اس معاملے میں کلیدی  مجرم ہیں۔

اس معاملے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی لیکن بلقیس بانو کے گواہوں کو نقصان پہنچائے جانے اور ثبوتوں سے چھیڑچھاڑ کئے جانے کا خدشہ جتائے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے معاملے کو اگست 2004 میں ممبئی منتقل کر دیا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)