فکر و نظر

رویش کا بلاگ: راہل کے وعدے میں ایک ڈیڈلائن ہے، مودی کی طرح دائیں بائیں کرنے کا پیٹرن نہیں

راہل کے وعدے میں ایک ڈیڈلائن ہے اور ایک نمبر ہے۔ مودی کی طرح ہرسال دو کروڑ روزگار دینے کا وعدہ کر کے دائیں بائیں کرنے کا پیٹرن نہیں ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی(فوٹو بشکریہ : پی ائی بی)

وزیر اعظم نریندر مودی(فوٹو بشکریہ : پی ائی بی)

راہل گاندھی نے تعلیم اور سرکاری نوکری سے متعلق دو باتیں کہی ہیں۔ انہوں نے مالدہ  میں کہا کہ گاؤں اور قصبوں میں سرکاری کالجوں کے نیٹ ورک کو درست کریں‌گے۔ دوسری حکومت میں آنے پر مارچ 2020 تک مرکزی حکومت کے خالی پڑے 20 لاکھ عہدوں کو بھر دیں‌گے۔ ڈیڑھ سال سے نوکری سریز اور یونیورسٹی سریز کر رہا ہوں۔ کسی سیاسی جماعت نے ان مدعوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ سب نے کنارہ کیا۔ اب جب ہر سروے میں یہ آ رہا ہے کہ نوجوان سب سے زیادہ بےروزگاری کو ترجیح دے رہا ہے اس پر کوئی پختہ بات نہیں ہو رہی ہے۔

راہل گاندھی کے ان دو وعدوں سے لگتا ہے کہ وہ پرائم ٹائم دیکھتے ہیں! بی جے پی کو بھی دیکھنا چاہیے۔ دنیا کی ٹیلی ویژن کی تاریخ میں پہلی بار پرائم ٹائم ٹیلی ویژن پر تعلیم اور نوکری پر اتنا لمبا کوریج کیا ہوں۔ ایک دن نہیں، ایک ہفتہ نہیں بلکہ کئی مہینے۔ 50سے60 ایپی سوڈ یونیورسٹی پر کیا، سرکاری نوکریوں پر کئی مہینے تک پرائم ٹائم کرتا چلا گیا۔ فیس بک پیج RavishKaPage پر پچاسوں مضمون لکھے ہیں۔ کوئی بھی چیک کر سکتا ہے۔ اس تاریخ کو کوئی ٹی وی والا پہلے میچ کر دکھا دے۔

راہل گاندھی کے دونوں بیانات پر بحث ہونی چاہیے۔ تبھی مقابلہ میں باقی جماعت بھی سرکاری تعلیم اور روزگار کو اہمیت دیں‌گے۔ زیادہ پختہ وعدہ کریں‌گے۔ راہل کے وعدے میں ایک ڈیڈلائن ہے اور ایک نمبر ہے۔ مودی کی طرح ہرسال دو کروڑ روزگار دینے کا وعدہ کر دائیں بائیں کرنے کا پیٹرن نہیں ہے۔ ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ 30 مارچ 2020 ختم ہو رہا ہے۔ 20 لاکھ میں کتنی نوکریاں دیں۔ صحافیوں اور نوجوان بھی اس ڈیڈلائن اور نمبر سے ان کا پیچھا کر سکتے ہیں۔ یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ موجودہ اگزام سسٹم  کی جو حالت ہے، وہ خستہ ہے۔ اس کے بس کی نہیں ہے کہ کوئی امتحان مقررہ وقت پر کرائے۔ آپ ٹھوس طریقے سے بتائیے کہ کیسے یہ کام کریں‌گے۔

راہل کے اس اعلان کو ان کی ہی پارٹی کے رہنما بڑھاوا نہیں دے رہے ہیں۔ شاید ان کو یقین کم ہوگا۔ چدمبرم جیسے رہنماؤں کو اس میں یقین ہے یا نہیں پتہ نہیں لیکن اس طرح کی لائن راہل کو ان کی ہی پارٹی کے کارپوریٹ پرست رہنماؤں سے بھڑا دے‌گی۔ دو سیاسی جماعتوں کے بیچ میں اور ہر سیاسی جماعت کے اندر جدو جہد اب انہی مدعوں پر ہونا چاہیے۔ گاؤں قصبوں کے کالج کڑک گئے ہیں۔ اس کے لئے کانگریس کی حکومتیں بھی ذمہ دار رہی ہیں۔ بی جے پی اور علاقائی جماعتوں کی بھی۔ بی جے پی کو تین اہم ریاستوں میں 15 سال حکومت چلانے کا موقع ملا۔ آج تک کوئی بہتر تعلیمی ادارہ نہیں بنا سکا۔ اس نے بھی قصبوں اور گاؤں کے سرکاری کالجوں کو تباہ کیا ہے۔ نتیجہ معمولی لوگوں کے بچّے تعلیم سے بےدخل ہو گئے۔ معیاری تعلیم سے دور کر دئے گئے۔

میڈیا نے صرف اس لئے کنارہ نہیں کیا کیونکہ اس کو اپوزیشن  کو کنارے کرنا تھا بلکہ اس لئے بھی کہ آج میڈیا بھی تعلیمی نظام کو لےکر ایماندار نہیں ہے۔ وزیر اعظم مودی نے کالجوں کے بارے میں پانچ سال میں کچھ نہیں کہا۔ صرف اتنا کہا کہ ٹاپ ٹین میں دس یونیورسٹی کو لانے کے لئے 10000 کروڑ دیں‌گے۔ جو اصل میں فنڈ دیا اس کو سن‌کے آپ ہنسیں‌گے۔ انہوں نے مہنگا ادارہ بنانے کی پالیسی بنائی۔ امبانی کے کالج کو منظوری دے دی تو کاغذ پر ہی تھا۔ آپ اس تعلق سے انٹرنیٹ سرچ کر کے میڈیا رپورٹ دیکھ سکتے ہیں۔ ہم نے بھی پرائم ٹائم میں دکھایا ہے اور فیس بک پیج پر لکھا ہے۔

بی جے پی کے پاس 5 سال کا موقع تھا ان عہدوں کو بھرنے کا، مگر اس کو بھرنا نہیں تھا۔ ساتویں تنخواہ کمیشن کی رپورٹ میں ہی بات آ گئی تھی کہ کن کن محکمہ جات میں کتنے عہدے خالی ہیں۔ اسی میں تھا کہ ریلوے میں عہدوں کی تعداد گھٹانی ہے۔ انٹرنیٹ پر ہے اور میں نے قصبہ میں لکھنے سے لےکر پرائم ٹائم میں کئی بار اس پر بولا ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر کی خبر ہے۔ وزیر داخلہ نے سینٹرل فورسیز اور دہلی پولس میں خالی عہدوں کا تجزیہ کیا تھا۔ پتہ چلا کہ 55000 عہدے خالی ہیں۔ کاش ایسے تجزیے پہلے ہوتے اور وقت سے بھرے گئے ہوتے تاکہ کئی نوجوانوں کو عمر کی حد گزر جانے سے پہلے موقع مل جاتا۔ وہی حال ریلوے کا تھا۔ پارلیامنٹ میں وزیر ہی بتا رہے تھے کہ ڈھائی لاکھ عہدے خالی ہیں۔ مگر بھرنے کا خیال تب آیا جب انتخاب آیا اور بےروزگاری کا مدعا سر چڑھ‌کر بولنے لگا۔

نوجوانوں کو راہل گاندھی اور کانگریس کو اس پر بولنے کے لئے مجبور کرنا چاہیے۔ وہ جتنا زیادہ بولیں‌گے تبھی پتہ چلے‌گا کہ گاؤں قصبوں میں سرکاری کالج کا نیٹ ورک بنانے کے لئے وہ کیا کیا سوچ رہے ہیں اور کیسے ایک سال کے اندر 20 لاکھ عہدوں کو بھر دیں‌گے۔ کہاں سے ایماندارانہ  اگزام سسٹم  لائیں‌گے، کیسے امتحان کریں‌گے کہ رزلٹ پر کسی کو شک نہ ہو اور مقدمےبازی نہ ہو۔ کوئی بھی امتحان پورا ہونے میں سال سال کیوں لگتا ہے؟

وزیر خزانہ جیٹلی نے آج دینک بھاسکر سے کہا ہے کہ نوکریاں گھٹنے کے الزام بے بنیاد ہیں۔ پہلے کہا تھا کہ اگر نوکریاں نہیں ہوتیں تو ملک بھر میں عدم اطمینان ہوتا۔ آج ہی بہار میں بی پی ایس سی‌کے امتحان دہندگان تحریک کر رہے ہیں۔ امتحان دہندگان نے پٹنہ کے اشوک روڈپر مارچ نکالا ہے۔ ہر دن کسی نہ کسی ریاست میں تحریک ہو رہی ہے۔ بنگال میں وہاں کی پبلک سروس کمیشن کے باہر طالب علموں نے لمبا دھرنا دیا۔ یوپی میں شکچھا متروں نے کتنی لاٹھیاں کھائیں۔ کتنوں نے خودکشی کر لی۔ اساتذہ نے اسٹرائک کیے اور لاٹھیاں کھائیں۔ اگر وزیر خزانہ کو نہیں دکھتا ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔

یوپی سے 69000 اساتذہ کی بھرتی کے امتحان دہندگان میسج پر میسج ٹھیلے جا رہے ہیں۔ نارملائزیشن کی کارروائی  کے بارے میں نہ ہمیں سمجھ ہے اور نہ ہی امتحان دہندگان کو۔ ان کے سوالوں کو مطمئن نہیں کیا جا رہا ہے۔ وہی حال ہے۔ یوپی پولیس کے 41520 امتحان دہندگان کی جوائننگ نہیں کرائی جا رہی ہے۔ جبکہ امتحان دہندگان کا الزام ہے کہ وزیر یہاں وہاں بول رہے ہیں کہ نوکری دے دی گئی۔ ان 41000 امتحان دہندگان کو لگتا ہے کہ اگر انتخاب نکل گیا تو جوائننگ نہیں ہوگی۔ حکومتوں کا جو ریکارڈ ہے اس کو دیکھ‌کا ان کا خدشہ صحیح ہے۔ ان 41000 طالب علموں میں 90 فیصد مجھے گالی دیتے ہوں‌گے۔ ہندو مسلم کرتے ہوں‌گے، پھر بھی یہ مجھ ہی کو کہتے ہیں کہ آپ لکھ دیں یا دکھا دیں۔ مگر میں اس میں گہرا بحران دیکھتا ہوں۔ ذاتی طور پر ان کی گالیوں کو نہیں لیتا۔ ان کو کس غلطی کی سزا دی جا رہی ہے۔ انہوں نے امتحان پاس کیا ہے تو جوائننگ ہونی چاہیے۔

اسی بہار میں مگدھ یونیورسٹی ہے۔ قانونی پینچ کی وجہ سے اس بار تیسرے سال کا رزلٹ نہیں آیا۔ طالب علم تھک گئے۔ 31 مارچ کر ریلوے کا امتحان کا فارم بھرنے کا موقع چلا گیا۔ بہار یونیورسٹی سے طالب علموں کو فون آیا تھا۔ تین سال کا بی اے پانچ سال میں بھی پورا نہیں ہوا ہے۔ طالب علموں نے مظاہرہ کیا مگر اس میں بھی سو پچاس ہی آئے۔ باقی طالب علم اپنا-اپنا دیکھو اور رویش کمار یا میڈیا کو میسج کر آئی پی ایل دیکھو کی پالیسی پر چلتے رہے۔ طالب علموں کی اسی سیاسی خوبی کی وجہ سے ان کو بیوقوف بنانا ممکن ہو سکتا ہے۔ پوری زندگی برباد کرنے کے بعد بھی ان کے درمیان وہی سیاسی جماعت بامعنی بنے ہوئے ہیں جنہوں نے ان کا مسئلہ سنا تک نہیں۔

طالب علموں کو ہی بہار یا کسی بھی ریاست کی تعلیم اور اگزام سسٹم کو لےکر لڑنا ہوگا۔ وہ لڑ رہے ہیں مگر وہ کافی نہیں ہے۔ اس میں کچھ بدلنے کی اخلاقی قوت نہیں ہے۔ دو لاکھ لوگوں کی زندگی سیشن دیر ہونے سے برباد ہو گئی۔ یہی دو لاکھ اپنے ماں باپ کے ساتھ گاندھی میدان میں ننگے پاؤں کھڑے ہو جاتے تو مہینے بھر میں حکومت کچھ کرنے کے لئے مجبور ہوتی۔ میڈیا کوریج سے پختہ بدلاؤ نہیں آئے‌گا۔ وہ میں نے کرکے دیکھ لئے۔ ڈیڑھ سال کرنے کے بعد آج رہنما مجبور تو ہوئے ہیں بات کرنے کے لئے مگر کچھ پختہ ہوتا نہیں دکھ رہا ہے۔ بحث ہی نہیں ہے اس پر۔ اس انتخاب کی کامیابی تبھی ہوگی جب نوجوان تعلیم اور روزگار کے سوال پر کانگریس اور بی جے پی کو مجبور کر دے۔ نیا سوچنے اور پختہ وعدہ کرنے کے لئے۔

(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)