فکر و نظر

پاکستان: شاردا پیٹھ کھولنے کے معنی کیا ہیں ؟

  آرایس ایس کی طرح پاکستان میں بھی آج کل تاریخ کو توڑ مروڑ کر از سر نو لکھنے کی دوڑ لگی ہے۔ ہندوستان میں یہ کام ہندو انتہا پسندو ں کا خاصہ ہے، پاکستان میں یہ کام وہ افراد کررہے ہیں ، جن کو اپنے آپ کو اعتدال پسند اور روشن خیال کہلوانے کا خبط ہے۔

شاردا پیٹھ، فوٹو: وکی میڈیا کامنس

شاردا پیٹھ، فوٹو: وکی میڈیا کامنس

پچھلے ہفتے خبر آئی کہ پنجاب میں کرتار پور گرودوارہ کے درشن کی خاطر سکھ عقیدت مندوں کے لیے ایک راہداری کی منظوری کے بعد اب پاکستانی حکومت جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پاس ہندو زائرین کے لیے شاردا پیٹھ جانے کے لیے بھی ایک کوریڈور کھولنے پر غور کر رہی ہے۔ اس کے مضمرات کا جائزہ لئے بغیر حد متارکہ کے دونوں اطراف خصوصاً پاکستانی زیر انتظام کشمیرمیں اپنی روشن خیالی ثابت کروانے والے کئی احباب کی باچھیں کھل گئیں۔ نئی دہلی اور اسلام آباد میں بھی ماحول خاصا گرم ہوا۔ کہیں یہ کریڈٹ بھی پاکستان کے کھاتے میں نہ چلا جائے، وزارت خارجہ نے ذرائع کے حوالے سے بیان داغا کہ کرتار پور اور شاردا کو زائرین کے لیے کھولنے کی تجویز تو ہندوستان نے تو کئی دہائی قبل پیش کی تھی، مگر اسلام آباد ہی پس و پیش کر رہا تھا۔

کرتار پورسکھو ں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔ مگر پچھلے ایک ماہ سے ہندوستانی وفد مذاکرات میں اصرار کر رہا تھا کہ چونکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور مذہبوں میں تفریق نہیں کر سکتا ہے، اس لیے کرتار پور گرودوارہ جانے کے لیے سبھی ہندوستانی شہریوں کو راہداری ملنی چاہئے۔ آخری اطلاعات کے مطابق پاکستان وفد نے اس شرط کو منظور لیا ہے۔ اب ان سے کون پوچھتا کہ آخر کیرالا میں گورو وہار، اڑیسہ میں جگن ناتھ، اتر پردیش میں کاشی وشواناتھ جیسے ان گنت مندروں میں پھر غیر ہندوں کا داخلہ کیوں ممنوع ہے؟اسی طرح وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ جب شاردا پر بات چیت کا عمل شروع ہوجائے گا، تو نہ صرف جموں و کشمیر کے باشندوں یعنی کشمیری پنڈتوں، بلکہ سبھی ہندوستانی  شہریوں کے لیے راہداری کھلنی چاہئے اور وہ اس پر اصرار کریں گے۔

مجھے یاد ہے کہ چند برس قبل ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ(آر ایس ایس) کی ایک شاخ کی طرف سے دہلی اور جموں میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں آزاد کشمیر کے کسی فارسٹ کنزویٹر رئیس احمدکی طرف سے بذریعہ ڈاک ارسال کی گئی شاردا پیٹھ مند ر کی مٹی کی پوجا کی گئی اور اس موقعہ پر کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف گرما گرم تقریریں بھی ہوئیں۔مقررین نے لائن آف کنٹرول کو کھولنے کی مانگ کی، تاکہ ہندو زائرین جوق در جوق اس مندر کی زیارت کر سکیں۔مظفر آباد سے 270کلومیٹر دور شمال میں آٹھ مقام اور دودنیال کے درمیان، شاردا کھنڈرات، کشمیر کی قدیم تہذیب اور علم و فن کے گواہ ہیں۔ بدھ مت کی عظیم دانش گاہوں نالندہ اور ٹیکسلا کی طرح شاردا بھی ایک قدیم علمی مرکز تھا ۔

نیلم اور مدھومتی کے سنگم پر واقع ان یادگاروں کو صرف ایک مندر یا عبادت گاہ کے طور پر فروغ دینا ، تاریخ اور اس دا نش گاہ کے ساتھ انتہائی زیادتی ہوگی۔ چارلس الیسن بیٹس نے 1872میں جب گزٹ آف کشمیر ترتیب دیا، تو اس مقام پر ایک قلعہ کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قلعہ سے 400گز کی دوری پر ایک مندر کے کھنڈرات اس کو ملے۔ بیٹس اور والٹر لارنس ، جنہوں کے کشمیر کے قریہ قریہ گھو م کر معمولی واقعات تک قلم بند کئے ہیں، کہیں بھی شاردا مندر کی یاترا کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ہندو قوم پرست آرایس ایس کی طرح پاکستان میں بھی آج کل تاریخ کو توڑ مروڑ کر از سر نو لکھنے کی دوڑ لگی ہے۔ ہندوستان میں یہ کام ہندو انتہا پسندو ں کا خاصہ ہے، پاکستان میں یہ کام وہ افراد کررہے ہیں ، جن کو اپنے آپ کو اعتدال پسند اور روشن خیال کہلوانے کا خبط ہے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ 1947سے قبل اس امر ناتھ کی طرز پر اس علاقہ میں بھی ہندو یاترا ہوتی تھی۔اگر ایسا ہوتا تو لارنس اور بیٹس کے گزٹ میں اس کا ضرور ذکر ہوتا۔

1372میں میر سید علی ہمدانی کی آمد تک کشمیر میں وقتاً فوقتاً بدھ مت اور ہندو شیوازم کے درمیان انتہائی کشیدگی جاری تھی۔ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا ایک طرح سے معمول تھا۔ شاید اسلام کو جس طرح اس خطے میں عوامی پذیرائی ملی، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ کشمیر میں 1260قبل مسیح میں سریندرا پہلا بدھ بادشاہ تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ بدھ بھکشوؤں نے ہی زعفران کی کاشت کو متعارف کروایا۔ 232قبل مسیح اشوکا کی حکومت کے خاتمہ کے بعد راجہ جالو نے ہندو شیوا زم قبول کیا اور بدھ مت پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ بدھ استوپوں، وہاروں کو تاراج کیا گیا۔ بدھ مت کی دانش گاہوں پر شیو مندر بنائے گئے۔ 63 ء میں دوبارہ بدھ مت کو عروج حاصل ہوا۔

راجہ کنشک کے عہد میں بارہمولہ کے کانس پورہ میں چوتھی بدھ کونسل منعقد ہوئی اور بدھ مت کے ایک لبرل مہایانہ فرقہ کی بنیاد ڈالی گئی، جو چین اور کوریا میں فی الوقت رائج ہے۔ساتویں صدی میں چینی سیاح و بھکشو ہیون سانگ جب دورہ پر آیا تو اسکے مطابق سرینگر سے وادی نیلم کے علاقہ میں سو بدھ عبادت گاہیں اور پانچ ہزار بھکشو موجود تھے۔ بد ھ مت کو چیلنج دینے کے لیےآٹھویں صدی میں کیرالا کے ایک ہندو برہمن آدی شنکر نے بیڑا اٹھایا۔ پورے خطہ میں گھوم پھر کر اس نے ہندو ازم کا احیا ء کرایا۔ جہاں اس نے بدھ بھکشو ؤں کے ساتھ مکالمہ کرکے ان کو ہرایا، وہاں اس نے شاردا یعنی علم کی دیوی کے نام پر مندر تعمیر کروائے، جن میں سب سے بڑا مندر کرناٹک میں دریائے تنگ کے کنارے سرنگری میں واقع ہے۔ بدھ مت کے خلاف اپنی مہم کے طور پر اور ہندو سناتن دھرم کے احیاء کے لیےوادی نیلم میں بھی بدھ دانش گاہ کے ساتھ اس نے ایک مندر قائم کروایا۔

 گو کہ اس علاقہ کو ہندو زائرین کے لیے کھولنے اور انہیں اپنے مذہب کے مطابق عباد ت کرنے کا موقعہ فراہم کرنے میں کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ مگر جو لوگ اس کی وکالت کرتے ہیں، انہیں چند منٹ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی ہندوستان  کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ ،کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری کی مذہبی یاترا کو سیاست اور معیشت کے ساتھ جوڑنے کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہئے۔ایک دہائی قبل تک امرناتھ یاترا میں محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ سال بہ سال ان کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔اور اس کی یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو ہندوؤں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی ابھار نا ہے، تاکہ ہندوستان  کے دعویٰ کو مزید مستحکم بناکر جواز پیدا کرایا جاسکے۔ہندوستان  کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال تو کشمیر کو سیاسی مسئلہ کے بجائے تہذیبی جنگ قرار دیتے ہیں اور ان کے مطابق اس مسئلہ کا حل ہی تہذیبی جارحیت اور اس علاقہ میں ہندو ازم کے احیاء میں مضمر ہے۔

ایک باضابطہ منصوبہ کے تحت کشمیر کی پچھلی 647سال کی مسلم تاریخ کو ایک تاریک دور کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کشمیری زبان کے اسکرپٹ کو فارسی سے دوبارہ قدیمی شاردا میں تبدیل کرنے کی تیاریا ں ہو رہی ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے اگر کشمیری کا اسکرپٹ واپس شاردا میں لانا ہے تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا اسکرپٹ بھی تبدیل کرو۔ کشمیر ی کی طرح سنسکرت بھی قد یم زمانے میں شاردا اسکرپٹ میں ہی تحریری کی جاتی تھی۔خیر امرناتھ علاقہ میں 1996ء میں برفانی طوفا ن کی وجہ سے 200 سے زائد ہندو یاتریوں کی موت ہوگئی تھی۔ اس حادثے کی انکوائری کے لئے ہندوستانی حکومت کی وزارت داخلہ کی طرف سے مقرر کردہ‘ ڈاکٹر نتیش سین گپتا کی قیادت والی ‘ ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یاتریوں کو ایک محدود تعداد میں کرنے کی سفارش کی تھی۔اس کمیٹی کی سفارش کی بنیاد پر ریاستی حکومت نے یاتریوں کی تعداد کو ریگولیٹ کرنے کی جب کوشش کی تو بزعم خویش ہندو دھرم کے محافظ بعض ہندو رہنماؤں نے اسے مذہبی رنگ دے کر حکومت کی کوششو ں کو ناکام بنادیا۔

حدتو اس وقت ہوگئی جب 2005 ء میں کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید نے اپنے دور میں گورنر جنرل (ر)ایس کے سنہا کی طرف سے یاترا کی مدت میں اضافہ کی تجویز پر اعتراض کیا ،تو ان کی کابینہ کے تمام ہندو وزیروں نے استعفیٰ پیش کر دیا۔ دوسری طرف ہندو شدت پسند لیڈروں نے بھی پورے ملک میں مہم شروع کرکے بڑے پیمانے پر ہندووں کو امرناتھ کی یاترا کے لئے راغب کرنا شروع کردیا۔اتراکھنڈ کے چار دھام کی طرح امر ناتھ کو بھی سیا حت اور ہندوستان کی شدت پسند قومی سیاست کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ تاکہ ماحولیات کے لحاظ سے اس نازک خطے میں لاکھوں یاتریوں کی یاترا کو ممکن بنانے کے لئے سڑکیں اور دیگر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ حتیٰ کہ ہندوستان کی سپریم کورٹ نے بھی اس علاقہ میں یاتریوں کے لیے ایک ٹریک بنانے کا حکم دیا۔ یہی عدالت دیگر کیسوں میں ماحولیات کو بچانے کے لیے سخت موقف اختیار کرتی ہے۔

سابق گورنر آنجہانی سنہا تو ہر تقریب میں برملا اعتراف کرتے تھے کہ وہ اس علاقہ میں ہندوؤں کے لیےمخصوص ‘شاردایونیورسٹی‘ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور اسی لیے انہوں نے جنگل والی زمین کا ایک وسیع قطعہ امرناتھ شرائن بورڈ کے سپرد کیا تھا۔ ان کے اس فیصلہ نے 2008ء میں کشمیر کے طول وعرض میں آگ لگادی۔ امرناتھ مندر بورڈ کے خلاف وادی کے عوام کا جو غصہ پھوٹا اس کا تعلق ہندومسلم مسئلے سے قطعی نہیں تھا۔ 1860ء سے ہی جب امرناتھ کی یاترا کا آغاز ہوا ‘ مسلمان اس کے نظم و نسق اور اسے حسن و خوبی کے ساتھ تکمیل تک پہنچانے میں اہم رول ادا کرتے رہے ہیں۔لیکن گورنر سنہا نے امرناتھ مندر بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلاکام بٹ گنڈ گاؤں کے مسلمان چرواہوں کے پیٹ پر لات مارنے کا کیا۔ حالانکہ پچھلے تقریباََ ڈیڑھ سو سال سے یہی چرواہے ہندوؤں کے اس انتہائی مقدس مقام کی نگرانی کرتے آرہے تھے۔جنرل سنہا کے پرنسپل سکریٹری اور شری امرناتھ شرائن بورڈ کے چیف ایگزیکٹو ارون کمار نے خچر والوں اورچھوٹی چھوٹی دکانیں لگا کر اپنی روزی کمانے والوں سے ان کا یہ حق بھی چھین لیا۔

جس زمین کے وہ بے چارے مالک تھے انہیں سے ”جزیہ‘‘ وصول کرنا شروع کردیا۔انتہا تو یہ ہوگئی کہ باہر کے ” لنگروالوں‘‘ کو بلایا گیا۔اس علاقے کی مقامی آبادی کا امرناتھ مندر سے کتنا گہرا تعلق ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1995ء میں جب حرکت الانصارنامی تنظیم نے امرناتھ یاترا کے نظم و نسق میں مسلمانوں کی شمولیت پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تو مسلمانوں نے ہی بڑے پیمانے پر اس کی مخالفت کی اور اسے 12دن کے اندر ہی اپنا حکم واپس لینا پڑا۔ اب تو مقامی مسلمانوں اور تاجروں کو اس یاترا کے انتظام سے پوری طرح بے دخل کردیا گیا ہے۔

بہر حال ہر سال لاکھوں یاتریوں کے امرناتھ آنے کی وجہ سے ماحولیات پر بھی خاصا بْر اثر پڑ رہا ہے۔2005ء میں مشہور ماہر ماحولیات پروفیسر ایم این کول کی قیادت میں ملک کے چوٹی کے ماہرین ماحولیات نے اپنی ایک رپورٹ پیش کی جس میں کہا کہ اگر بال تل کے راستے امر ناتھ کے مقدس گپھا تک ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو ماحولیات اور گلیشیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجائے ہندوستانی حکومت زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی امرناتھ بھیج رہی ہے۔ ہندوستانی حکومت نے حالانکہ ملک کے بیشتردریاؤں اورندیوں کے منبع یعنی گنگا کے گلیشیرو ں کی حفاظت کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں لیکن وادی کشمیر اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے سند ھ طاس گلیشیر کی تباہی پر وہ ذرا بھی فکر مند نہیں نظر آتی ہے۔ 2008ء میں ہی اتراکھنڈ صوبہ میں ماحولیات کے تحفط کے لیے وہاں کی اس وقت کی ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا، جس کی رو سے ہر روز صرف 250سیاح اور زائرین دریائے گنگا کے منبع گومکھ گلیشیر جا سکتے ہیں۔

اس کا موازنہ اگر آپ سندھ طاس کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر کے کولہائی گلیشیر کے ساتھ کریں، تو وہاں ہر روز اوسطً20ہزار افراد مئی اور اگست کے درمیان اسے روندتے ہوئے نظر آئیں گے۔نتیش سین گپتا کمیٹی نے 1996ء میں اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا تھا کہ امرناتھ کی ایک مہینے کی یاترا کے دوران صرف ایک لاکھ یاتریوں کو جانے کی اجازت دی جائے لیکن حکومت نے پہلے تو یاترا کی مدت ایک ماہ سے بڑھا کر دو ماہ کردی ‘اس کے بعد یاتریوں کی تعداد کو محدود کرنے سے انکار کردیا۔پچھلے سال تقریباََساڑھے چھ لاکھ یاتریوں نے امرناتھ کی یاترا کی تھی۔ آئندہ برسوں میں یہ تعداد دس لاکھ تک پہنچ جانے کا اندازہ ہے۔گپتا کا کہنا تھا کہ یاترا کے دوران ایک وقت میں ایک جگہ صرف تین ہزاریاتریوں کو ٹھہرانے کی اجازت ہونی چاہئے۔ مگر آج حالت یہ ہے کہ پہل گام جیسی چھوٹی سی جگہ پر ، جو یاترا کا ایک بیس کیمپ بھی ہے، 20ہزار سے 50ہزار تک یاتری جمع ہوجاتے ہیں۔

ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب کہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایک نئی آفت سے دوچار ہونے والی ہے اور اس مصیبت کو ٹالنے کے لئے دنیا کے بیشتر ممالک پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی آمد کو بھی ریگولیٹ کررہے ہیں۔ حکومت ہند کو بھی چاہئے تھا کہ کشمیر کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے امرناتھ میں یاتریوں کی تعدادکو ریگولیٹ کرنے کی تجویز پر مذہبی نقطہ نگاہ کے بجائے سائنسی نقطہ نگاہ سے غور کرے۔ کچھ یہی مشورہ آزاد کشمیر اور پاکستان میں مقیم ان دانشوروں اور زعما ء سے بھی ہے، جو شاردا پیٹھ کو زائرین کے لیے کھولنے کی وکالت کرتے ہیں۔ بیشک ہندوؤں کو وہاں عبادت کرنے کا حق حاصل ہے‘ مگر کہیں اٹھ مقام اور دودنیال کی سرسبز چراگاہیں‘ دوسرا پہل گام اور بال تل نہ بن جائیں اور حریص طاقتیں ان کو سیاست ومعیشت کے ساتھ جوڑ کرکسی سانحہ کا سامان پیدا نہ کریں۔روشن خیالی تو ٹھیک ہے، مگر اس کے ساتھ اگر بے ضمیری شامل ہے تو یہ زہر ہلاہل ہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اوران کا کالم بدھ کے روز شائع ہوتا ہے۔ پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)