خبریں

گزشتہ سال پوری دنیا میں 11.3 کروڑ لوگوں نے کیا شدید بھوک مری کا سامنا

اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آب وہوا سے جڑی آفات اور اقتصادی اتار چڑھاؤ جیسی وجہوں سے پیدا ہوئے اشیائےخوردنی کےبحران کی وجہ سے 53 ممالک میں یہ لوگ شدید بھوک مری کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کو فوراً اشیائےخوردنی ، مقوی غذا اور ذریعہ معاش کی ضرورت ہے۔

علامتی تصویر (فوٹو : رائٹرس)

علامتی تصویر (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے ذریعے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال پوری دنیا میں 11.3 کروڑ لوگوں کو بھوک مری کا سامنا کرنا پڑا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ، آب وہوا سے جڑی آفات اور اقتصادی اتار چڑھاؤ جیسی وجہوں سے پیدا ہوئے اشیائےخوردنی  کے بحران کی وجہ سے دنیا کے 53 ممالک کے 11 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو گزشتہ سال شدید بھوک مری جیسی حالت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

فوڈ اینڈ اگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او)، ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیوایف پی) اور یورپی یونین کی ‘ گلوبل  رپورٹ آن فوڈ کرائسس 2019 ‘ میں بتایا گیا ہے کہ ایک کروڑ سے زیادہ لوگ پچھلے تین سال سے لگاتار بھوک مری کا سامنا کر رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق، بھوک مری کا سامنا کر رہے ان 11.3 کروڑ لوگوں کو فوراً اشیائےخوردنی ، مقوی  غذا اور ذریعہ معاش کی ضرورت ہے۔

اشیائےخوردنی کے سب سے خوفناک بحران کا سامنا یمن، ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو، افغانستان، ایتھوپیا، سیریا، سوڈان، جنوبی سوڈان اور شمالی نائیجیریا جیسے ملک کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں کل سات کروڑ 20 لاکھ لوگ اشیائےخوردنی کے بحران کا سامناکر رہے ہیں۔یو این نیوز کے مطابق، دنیا کے 53 ممالک میں گزشتہ سال 11 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو مناسب کھانا نہیں مل پایا۔ 2017 میں ایسے لوگوں کی تعداد تقریباً 12 کروڑ تھی۔

بروسیلس میں رپورٹ پر غور کے لئے بلائے گئے دو روزہ اجلاس میں خوراک اور زراعتی تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل ہوسے گرازیانو دا سلوا نے کہا، ‘ اس رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ 2018 میں ایسے لوگوں کی تعداد میں معمولی کمی آئی ہے جن کو کھانا نہیں مل پاتا، لیکن یہ ابھی بھی بہت زیادہ ہے۔ ‘سلوا نے کہا، ‘ ہمیں بڑے پیمانے پر انسانی-ترقی-امن کے محور پر کوشش کرنی ہوگی تاکہ متاثرہ اور نازک حالات میں رہنے کے لیے مجبور کمیونٹی کو مضبوط بنایا جا سکے۔ زندگی بچانے کے لئے ہمیں ذریعہ معاش بچانا بھی ضروری ہے۔ ‘

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال آب وہوا اور قدرتی آفات نے 2.9 کروڑ لوگوں کو فوڈ ان سکیورٹی کی سمت میں دھکیل دیا۔ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیزلی نے کہا، ‘ زندگی بچانا اور انسانی تکلیف  پر مرہم لگانا ضروری ہے لیکن اس سے اشیائےخوردنی کے بحران کی اصل وجہوں کو دور نہیں کیا جا سکتا۔ ‘

ڈیوڈ نے کہا، ‘ بھوک مری کو ختم کرنے کے لئے ہمیں اس کی اصل وجہوں-جدو جہد، عدم استحکام، آب وہوا کے غلط اثرات پر چوٹ کرنی ہوگی ‘انہوں نے بھوک مری کو ختم کرنے کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے بچوں کو اچھی صحت مند غذا دستیاب کرانے اور تعلیم یافتہ بنانے کے ساتھ ہی خواتین کو مضبوط بنانے اور دیہی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

اس کے علاوہ رپورٹ میں جدو جہد کے استحکام اور امن کو پائیدار بنانے کی اہمیت کو بتایا گیا ہے جس سے ذریعہ معاش بچانے، انفراسٹرکچر سے متعلق  کمزوریوں کو کم کرنے اور بھوک مری کی اصل وجہوں کو دور کرنے میں مدد مل سکے۔یہ رپورٹ ہرسال عالمی انسانی راحت اور ترقی سے جڑی  ساجھے دار تنظیموں کے نیٹ ورک ‘ گلوبل نیٹ ورک اگینسٹ فوڈ کرائسس ‘ کے ذریعے تیار کیا  جاتا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)