خبریں

42 فیصدی ہندوستان قحط کی زد میں

ماہرین کا کہنا ہے کہ  2015 سے ہی ہندوستان مسلسل قحط کے حالات سے گزر رہا ہے۔مارچ سے مئی کے بیچ ہونے والی بارش میں بھی کافی کمی نظر آئی ہے۔بارش کم ہونے کی وجہ سے زمین کے اندر پانی کی سطح بھی کم ہو گئی ہے۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: ملک کا 42 فیصدی حصہ ابھی سے قحط کی زد میں ہے۔ ان میں سے 6 فیصدی حصہ کئی سالوں سے قحط کی مار جھیل رہا ہے۔ قحط کی جانکاری دینے والے ادارے ڈی ای ڈبلیو ایس (Drought early warning system)نے 26 مارچ تک کے اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق، مستقبل میں یہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ انتخابی تشہیر میں کسان پر باتیں ہو رہی ہیں مگر ان کے مسائل کو دور کرنے کے لیے فوری طور پر کوئی قدم نہیں اٹھائے جا رہے ۔قحط سے سب سے زیادہ متاثر آندھر پردیش، بہار،گجرات، جھارکھنڈ،کرناٹک، مہاراشٹر،راجستھان،تمل ناڈو،تلنگانہ اور نارتھ ایسٹ کی کچھ ریاستیں ہیں۔

غور طلب ہے کہ ان ریاستوں میں ملک کی تقریباً 40 فیصدی آبادی رہتی ہے۔حالانکہ مرکزی حکومت نے ابھی تک کسی بھی علاقے کو قحط زدہ قرار نہیں دیا ہے۔جبکہ گجرات، کرناٹک،مہاراشٹر، اڑیسہ، راجستھان اور آندھر پردیش کی حکومتوں نے اپنے یہاں کئی ضلعوں کے قحط سے متاثر ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔اس بارے میں ماہرین آنے والے دنوں کو مزید چیلنچ سے بھرا ہوا بتا رہے ہیں۔

فوٹو بہ شکریہ، ڈی ای ڈبلیو ایس

فوٹو بہ شکریہ، ڈی ای ڈبلیو ایس

انڈیا اسپینڈ کے مطابق؛مانسون کے پہلے ابھی 4-3 مہینوں تک حالات کافی خراب رہنے والے ہیں۔مانسون  کی بارش میں کمی کی وجہ سے سب سے زیادہ دقتیں پیش آ رہی ہیں۔پوسٹ مانسون(اکتوبر-دسمبر)میں بھی ہندوستان میں 10 سے 20 فیصدی بارش ہو جاتی ہے۔لیکن 2018 میں اس میں بھی 44 فیصدی کی کمی دیکھی گئی۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ 2017 کو چھوڑ کر 2015 سے ہی ہندوستان مسلسل قحط کے حالات سے گزر رہا ہے۔مارچ سے مئی کے بیچ ہونے والی بارش میں بھی کافی کمی نظر آئی ہے۔بارش کم ہونے کی وجہ سے زمین کے اندر پانی کی سطح بھی کم ہو گئی ہے ساتھ ہی پانی کا لیول کم ہونے کی وجہ سے آب پاشی کے دوسرے ذرائع بھی ٹھیک سے کام نہیں کر پا رہے ہیں۔

اس سے قبل خبر آئی تھی کہ ملک کی آدھی آبادی قحط جیسی حالت کی گرفت  میں ہے۔ ڈاؤن ٹو ارتھ کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس آبادی کی 16 فیصد آبادی  شدید قحط سے پریشان حال ہے۔رپورٹ کے مطابق،یہ جانکاری انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی(آئی آئی ٹی)گاندھی نگر نے ساؤتھ ایشیا ڈراؤٹ مانیٹرنگ سسٹم کے توسط حاصل کی ہے۔اس بارے میں آئی آئی ٹی گاندھی نگر کے پروفیسر ومل مشرا نے ڈاؤن ٹو ارتھ کو بتایا کہ آئندہ موسم سرما میں لوگوں کو پینے کے پانی کو لے کر پریشانی کا سامنا کر نا  پڑ سکتا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ملک میں قحط کی صورت حال کے مدنظرریئل ٹائم کی درست نگرانی کے سسٹم کو چلانے والی آئی آئی ٹی  کی ٹیم نےمحکمہ موسمیات(آئی ایم ڈی)سے موسم اور بارش سے متعلق اعداد و شمار کو جمع کیا اور پھر مٹی کی نمی اور سوکھے سےمتعلق اعداد و شمار کے ساتھ اس کا تفصیلی مطالعہ کیا۔

مشرا نے بتایا کہ،ملک کی آبادی’غیر معمولی’قحط سے پریشان حال ہے۔اس کی جانکاری ہمیں اپنے ریئل ٹائم کی  نگرانی کرنے والے سسٹم سے ملی ہے،جس کو ہمارے ملک میں ہی تیار کیا کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس سال اروناچل پردیش میں اچھی بارش نہیں ہوئی اور جھارکھنڈ، جنوبی آندھر پردیش، گجرات اور تمل ناڈو کے شمالی حصے قحط کی گرفت میں ہیں۔

انہوں نے وارننگ دی کہ اگر ان ریاستوں میں مانسون کی شروعات سے پہلے بہت تیز گرمی کا احساس  ہوتا ہے، تو اس سے بحران اورگہرا سکتا ہے۔ ان کے مطابق، اس قحط سے ملک کے پہلے سے ہی گھٹ رہے آبی سطح  کے وسائل پر اور زیادہ بوجھ پڑے‌گا، کیونکہ ہم زمین میں پانی  کے ذرائع کو بڑھا نہیں رہے ہیں، وہیں دوسری طرف ہم ان ذرائع سے ہی زیادہ سے زیادہ پانی نکال رہے ہیں۔انہوں نے کہا، آنے والے سالوں میں گلوبل وارمنگ اور آب وہواکی تبدیلی سے قحط  کے امکان اضافے کی امید ہے۔ اس لئے، حکومت کو زمین کے اندر پانی اور آبی تحفظ کے متعلق  سخت فیصلہ لینے کی ضرورت ہے۔

 مشرا نے کہا کہ اگر ہمارے پاس پہلے سے ہی زمین میں پانی کم ہے تو آپ مناسب فصلوں کا انتخاب کرکے  پانی کے بہاؤ کو کم کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا ،ہمیں ان فصلوں کو اگانے پر زور دینا چاہیے، جس میں پانی کا استعمال کم ہوتا ہو۔ بے شک، تحفظ کی  ہر سطح پرحوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، کیونکہ کل تازہ پانی کا 80 فیصد رہائشی مقامات کے بجائے زرعی مقامات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ حالانکہ، قحط جیسی حالت پیدا ہونے کی امید نہیں ہے، لیکن اس سوکھے سے معیشت پر غلط اثر پڑ سکتا ہے۔