فکر و نظر

رام چندر گہا کا کالم: ایکتا اور بھائی چارے کی’گاندھی والی‘قسم پھر سے کھانے کا وقت  

رولٹ کے سو سال بعد ہمیں اپنے لیڈران پر اس ماحول کو دوبارہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔ اگر سیاستداں اپریل 1919 میں گاندھی کے ذریعے اٹھائی گئی قسم کو دوبارہ اٹھانے کی کوئی مہم چلاتے ہیں تو ہندوستان یقیناً ایک بہت محفوظ و مسرور ملک ہوگا۔

TheRowlattSatyagraha_ElectionTamasha

اس وقت ملک کی بڑی(اور چھوٹی)سیاسی پارٹیوں کے نیتا ووٹ کی تلاش میں پورے ملک کی خاک چھان رہے ہیں۔ ٹھیک ایک سو سال پہلے،1919 کے موسم بہار میں ایک الگ قسم کا قائد ملک کے مختلف حصوں کا دورہ کر رہا تھا۔ تب موہن داس کرم چند گاندھی کو اپنے وطن واپس لوٹے چار سال ہو چکے تھے۔ اس دوران وہ کسانوں کو ساتھ لے کر 1917 میں چمپارن اور 1918 میں کیرا میں انگریز سرکار کے خلاف مظاہروں کا انعقاد کر چکے تھے؛ اسی دورانیے میں انہوں نے احمدآباد میں مل ورکرس کے ستیہ گرہ کی قیادت بھی کی۔ اب وہ ‘رولٹ ایکٹ’ جیسے جابرانہ قانون کے خلاف ملک گیر سطح پر مہم چھیڑنے کے لیے پر تول رہے تھے۔ اس قانون کے ذریعے سرکار اپنے مخالفین اور مخالفین سے تعبیر کیے جانے والوں کو بنا کسی عدالتی کارروائی، ثبوتوں کے مجرم ٹھہرا سکتی تھی۔ اس سے صحافیوں اور عوام کو مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔

8 فروری 1919 کو گاندھی نے اپنے ایک ساتھی کو لکھا کہ رولٹ بلس ‘نیک نیتی میں کھوٹ کا معاملہ’ نہیں تھا بلکہ یہ ‘ظلم و جبر کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ’ تھا؛ اس لیے ‘ایسا لگتا ہے کہ سول نافرمانی ہر اس شخص کا فرض عین بن گئی ہے، جسے نجی اور عوامی آزادی پیاری ہے۔’ اسی دن انہوں نے اپنے ایک افریقی دوست کو لکھا: ‘رولٹ بلس نے مجھے بےحد فعال کر دیا۔ لگتا ہے میں اپنی زندگی کی سب سے بڑی جنگ لڑ لوں گا۔’

فروری 1919 کے آخری ہفتے میں گاندھی نے احمدآباد کے اپنے آشرم میں محب وطن افراد کی ایک میٹنگ بلائی۔ اس میں ایک ‘ستیہ گرہ عرضداشت’ تیار کی گئی، جس پر دستخط کرنے والوں نے عہد کیا کہ رولٹ بلس واپس نہ لیے جانے تک وہ کورٹ اریسٹ میں رہیں گے۔ اسی بیچ گاندھی نے وائسرائے لارڈ چیمس فورڈ کو بھی یہ متنازعہ بلس واپس لینے کے لیے لکھا۔ اس لیے کہ ‘آخر زیادہ تر آمرانہ حکومتوں کو بھی طاقت محکوم لوگوں سے ہی ملتی ہے۔’

وائسرائے نے بل واپس لینے سے انکار کر دیا، تب گاندھی نے ستیہ گرہ عرضداشت لے کر پورے ملک کا دورہ کیا اور لوگوں سے اس پر دستخط کرائے اور مدد مانگی۔ وہ لکھنؤ، الہ آباد، بامبے و مدراس کے ساتھ ہی کئی چھوٹے شہروں میں بھی گئے۔ اس ساری تگ و دو کے ذریعے وہ 6 اپریل 1919 کو ہونے والے ملک گیر مظاہرے کے لیے اپنے پیروکاروں کا ایک بڑا طبقہ تیار کر رہے تھے۔

اس وقت بامبے ہندوستان میں قومی سرگرمیوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ سو گاندھی نے یہاں منعقدہ مظاہرے کی قیادت خود کی۔ چوپاٹی بیچ پر وہ صبح ساڑھے چھہ بجے پہنچ گئے۔ ان کے پیروکار آتے رہے اور سمندر میں ڈبکی لگا کے ان کے آس پاس جمع ہوتے رہے۔ سمندر کے کنارے صبح آٹھ بجے تک تو خاصہ ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا۔ ایک رپورٹر نے اندازہ لگایا کہ کوئی ڈیڑھ لاکھ لوگ ہوں گے—’مسلمان، ہندو، پارسی وغیرہ اور ایک انگلش مین’۔ گاندھی جی نے اپنی تقریر میں حال ہی دہلی میں ستیہ گرہ کرنے والوں پر پولیس فائرنگ کی مذمت کی۔ ساتھ ہی انہوں نے لوگوں سے گزارش کی کہ وہ رولٹ ایکٹ واپس لیے جانے والی عرضداشت پر دستخط کریں۔ وہ عرضداشت جو ‘دہلی میں بہائے گئے معصومین کے لہو سے بھاری ہو گئی ہے۔ ساتھ ہی حکمرانوں کے قلب نرم ہونے تک ہم سول نافرمانی کی تکالیف بھی اٹھاتے رہیں گے۔’

حقیقت میں تو رولٹ ستیہ گرہ انگریز حکمرانوں کے خلاف ملک گیر سطح کا پہلا احتجاج تھا (اس سے پہلے 1857 کی بغاوت کا ملک کے کئی حصوں میں کوئی اثر نہیں تھا)۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس احتجاج کا پیمانہ، اثر اور شکل ملک کے مختلف حصوں میں جداگانہ رہی، لیکن اس میں ایک بات بہت واضح رہی: ہندو مسلم اتحاد کا مظاہرہ۔ ستیہ گرہ کو ایک ‘شاندار کامیابی’ سے تعبیر کرتے ہوئے بامبے سے شائع ہونے والے ایک اردو ہفت روزہ نے اس کا خصوصی ذکر کیا کہ سرکار نے اس بل کو منظور کر کے ‘ہندو و مسلمانوں کو شکر اور پانی کی طرح ایک کر دیا ہے۔ یہ دونوں طبقات ایک بار پھر اپنے آپسی اختلافات کو بھلا کر ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔’

انہیں ایام میں کراچی کے ایک اخبار نے پایا کہ ساحلی شہر نے اپنی ‘دکانیں اور تجارتی مراکز پوری طرح بند کر لیے تھے۔ اس طرح کا تعجب خیز عمل اس شہر کی تاریخ میں پہلے کب ہوا تھا؟’ اخبار نے آگے لکھا: ‘کل کے فنکشن کی ایک روح پرور بات سے ہر کوئی متاثر تھا—وہ تھی فرقہ وارانہ، علاقائی یا گروہ بند سوچ کی عدم موجودگی۔ وہ “ہندو”، “مسلمان”، “پارسی”، “خوجے”، “جینی” تھے، لیکن کل؛ سب کو یہ احساس تھا کہ وہ سب ایک ہی قوم کے ہیں اور وہ ہے ہندوستانی؛ وہ محسوس کر رہے تھے کہ سارے مذہبوں میں ایک ہی مذہب ہے، خودداری کا مذہب، ہندوستان کے حقوق کی حفاظت کا مذہب اور انسانیت کی خدمت کا مذہب۔

ہندوستانی قوم پرستی کے مؤرخین اور مہاتما گاندھی کے سوانح نگاروں کے لیے رولٹ ستیہ گرہ کا مطالعہ کافی دلچسپی کے سامان رکھتا ہے۔(اس بابت مطالعہ کرنے کے شوقین رویندر کمار کی مرتب کردہ کتاب ایسے ان گاندھین پولیٹکس دیکھ سکتے ہیں جس میں  ہندوستان کے مختلف حصوں کے واقعات جمع کر دیے گئے ہیں۔) مزید بر آں، رولٹ ستیہ گرہ کی اس دور میں بھی اہمیت ہے۔ جیسے اس میں موجود آپسی بھائی چارے کی باتیں، جن کا بیان کیا جانا –اور اسے بحال کیا جانا—ہمارے اس منقسم ہوتے جا رہے سماج کی ضرورت ہے۔

رولٹ ستیہ گرہ کے دوران ہندوستانیوں نے اپنے مذہبی عقائد، مسالک و طبقات کے تفرقوں کو کس طرح ایک طرف رکھ دیا تھا، اسے واضح کرنے کے لیے راقم نے اخبار کی رپورٹس پیش کی ہیں۔ اب میں اس بابت تحریک کے قائد کی چند باتیں پیش کرتا ہوں۔ اس تحریک کے دوران گاندھی نے ہندوستانی باشندوں سے کہا، وہ قسم کھائیں: ‘خدا کو حاضر و ناظر جان کر ہم ہندو و مسلمان یہ عہد کرتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی والدین کی اولاد کی طرح  پیش آئیں گے، یہ کہ ہمارے بیچ کوئی فرق نہیں ہے، یہ کہ کسی ایک کا دکھ درد سب کا دکھ درد ہوگا اور اسے دور کرنے میں سب مدد کریں گے۔ ہم ایک دوسرے کے مذاہب اور مذہبی جذبات کا احترام کریں گے اور مذہبی عوامل پورا کرنے میں کسی کی مخالفت نہیں کریں گے۔ ہم مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ تشدد کرنے سے سدا دور رہیں گے۔’

آپسی ایکتا کا ایسا جذبہ، جو رولٹ ستیہ گرہ میں جاری و ساری تھا، گاندھی کے ذریعے چلائی گئی بعد کی تحریکات میں کم دکھائی دیا۔ یہ ایسی حقیقت ہے، جسے بعد میں انہوں نے سمجھا اور اس پر متاسف رہے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں اس اتفاق و اتحاد کو دوبارہ قایم کرنے کے لیے انہوں نے خود کو وقف کر دیا۔ اب، رولٹ کے سو سال بعد ہمیں اپنے لیڈران پر اس ماحول کو دوبارہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔ اگر سیاستداں اپریل 1919 میں گاندھی کے ذریعے اٹھائی گئی قسم کو دوبارہ اٹھانے کی کوئی مہم چلاتے ہیں تو ہندوستان یقیناً ایک بہت محفوظ و مسرور ملک ہوگا۔

(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)