خبریں

فلمسازوں اور سائنس دانوں کے بعد 600 سے زیادہ تھیٹر فنکاروں نے کی بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کی اپیل

ایک مشترکہ بیان میں ان فنکاروں نے کہا کہ بی جے پی وکاس کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی لیکن ہندوتوا کے غنڈوں کو نفرت اور تشدد کی سیاست کی کھلی چھوٹ دے دی۔ سوال اٹھانے، جھوٹ اجاگر کرنے اور سچ بولنے کو ملک مخالف قرار دیا جاتا ہے۔ ان اداروں کا گلا گھونٹ دیا گیا، جہاں عدم اتفاق پر بات ہو سکتی تھی۔

(فوٹو بشکریہ : آرٹسٹ یونائٹ انڈیا)

(فوٹو بشکریہ : آرٹسٹ یونائٹ انڈیا)

نئی دہلی: تھیٹر کے 600 سے زیادہ فنکاروں نے جمعرات کو ایک مشترکہ بیان جاری کر شہریوں سے نفرت اور شدت پسندی  کے خلاف ووٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔اسکرال ڈاٹ ان کی رپورٹ کے مطابق، ان فنکاروں میں امول پالیکر، انوراگ کشیپ، ڈالی ٹھاکور، للیٹ دوبے، نصیرالدین شاہ، ابھیشیک مجمدار، انامکا ہاکسر، نوتیج جوہر، ایم کے رینا، مہیش دتانی، کونکنا سین شرما، رتنا پاٹھک شاہ اور سنجنا کپور شامل ہیں۔

آرٹسٹ یونائٹ انڈیا ویب سائٹ پر جاری بیان میں لوگوں سے بی جے پی اور اس کی معاون جماعتوں کے خلاف ووٹنگ کرنے اور سیکولر، جمہوری‎ اور تکثیری ہندوستان کے لئے ووٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔بیان میں کہا گیا کہ کمزور لوگوں کو مضبوط کرنے، آزادی کی حفاظت، ماحولیات تحفظ اور سائنسی سوچ کو بڑھاوا دینے کے لئے ووٹ کریں۔ یہ بیان 12 زبانوں-انگریزی، ہندی، تمل، بنگالی، مراٹھی، ملیالم، کنڑ، آسامی، تیلگو، پنجابی، کونکنی اور اردو میں جاری کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا  ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخاب آزاد ہندوستان کی تاریخ کے لئے بہت اہم ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی وکاس کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی لیکن ہندوتوا کے غنڈوں کو نفرت اور تشدد کی سیاست کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔بیان میں کہا گیا، وہ شخص جس کو پانچ سال پہلے ملک کے مسیحا کا نام دیا گیا، اس نے اپنی پالیسیوں سے کروڑوں لوگوں کے ذریعہ معاش کا خاتمہ کر دیا۔

فنکاروں کا کہنا ہے کہ آج آئیڈیا آف انڈیا کا نظریہ  خطرے میں ہے۔ آج گانے، ناچ، ہنسی سب خطرے میں ہے۔ آج ہمارا آئین بھی خطرے میں ہے۔ ان اداروں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے جن کا کام بحث و مباحثے اور عدم اتفاق کو پہچان دینا ہے۔ سوال اٹھانے، جھوٹ کو اجاگر کرنے اور سچ بولنے کو ملک مخالف قرار دیا جاتا ہے۔فنکاروں نے لوگوں سے آئین اور ملک کے سیکولرزم کی حفاظت کرنے اور وحشیانہ طاقتوں کو ہرانے کے لئے ووٹ کرنے کو کہا ہے۔

اس سے پہلے 100 سے زیادہ فلم سازوں اور 200 سے زیادہ قلمکاروں نے بھی ملک میں نفرت کی سیاست کے خلاف ووٹ کرنے کی اپیل کی تھی۔ہندوستانی مصنفین کی تنظیم انڈین رائٹرس فورم کی طرف سے جاری اس اپیل میں قلمکاروں نے لوگوں سے مساوی اور متنوع ہندوستان کے لئے ووٹ کرنے کی اپیل کی۔ان قلمکاروں میں گریش کرناڈ، ارندھتی رائے، امیتاو گھوش، بام ، نین تارا سہگل، ٹی ایم کرشنا، وویک شانبھاگ، جیت تھیل، کے سچدانندن اور رومیلا تھاپر ہیں۔انہوں نے الزام لگایا، ‘ قلمکار ، فنکار، فلم ساز، موسیقار اور دیگر ثقافتی فنکاروں کو دھمکایا جاتا ہے، ان پر حملہ کیا جاتا ہے اور ان پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ جو بھی اقتدار سے سوال کرتا ہے، یا تو اس کو پریشان کیا جاتا ہے یا جھوٹے اور فرضی الزامات میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ‘

ان  کا کہنا ہے کہ نفرت کے خلاف ووٹ کرنا پہلا اہم قدم ہے۔انہوں نے کہا، ‘ لوگوں کو بانٹنے کی سیاست کے خلاف ووٹ کریں، عدم مساوات کے خلاف ووٹ کریں، تشدد، ظلم وستم اور سینسرشپ کے خلاف ووٹ کریں۔ یہی ایک راستہ ہے، جس کے تحت ہم اس ہندوستان کے لئے ووٹ کر سکتے ہیں، جو ہمارے آئین کے ذریعے کئے گئے وعدے کو پورا کر سکتا ہے۔ ‘

ہندوستان کے 100 سے زیادہ فلمساز نے لوک تنتر بچاؤ منچ کے تحت متحد ہوتے ہوئے لوگوں سے بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کی اپیل کی ہے۔ان میں آنند پٹوردھن ، ایس ایس ششی دھرن، سودیون، دیپا دھنراج ، گروندر سنگھ، پشپندر سنگھ، کبیر سنگھ چودھری ، انجلی مونٹیرو، پروین مورچھلے دیواشیش مکھیجا اور اتسوکے ہدایت کار اور مدیر بینا پاپ جیسے مشہور فلمساز بھی شامل ہیں۔انہوں نے اپنا یہ بیان جمعہ کو آرٹسٹ یونائٹ انڈیا ڈاٹ کام ویب سائٹ پر ڈالا گیا ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کے دور حکومت میں پولرائزیشن اور نفرت کی سیاست میں اضافہ ہوا ہے۔ دلتوں، مسلمانوں اور کسانوں کو حاشیے پر دھکیل دیا گیا ہے۔ ثقافتی اور سائنسی اداروں کو لگاتار کمزور کیا جا رہا ہے اور سینسرشپ میں اضافہ ہوا ہے۔ساتھ ہی انہوں نے الزام لگایا ہے کہ 2014 میں بی جے پی اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک کا مذہبی طور پر پولرائزیشن کیا جا رہا ہے اور حکومت اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں پوری طرح سے ناکام رہی ہے۔

 اس کے علاوہ ملک کے 150 سے زیادہ سائنس دانوں نے ماب لنچنگ  سے جڑے لوگوں کو ووٹ نہ دینے کی اپیل کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدم مساوات، امتیازی سلوک  اور ڈر‌کے ماحول کے خلاف ووٹ دینے کی درخواست کی ہے۔ان میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (آئی آئی ایس ای آر)، انڈین اسٹٹیکل انسٹی ٹیوٹ (آئی ایس آئی)، اشوکا یونیورسٹی اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) کے سائنس داں شامل ہیں۔