فکر و نظر

جے پور سینٹرل جیل میں تشدد: کیا مسلمانوں کے معاملے میں کانگریس بی جے پی کی راہ پر ہے؟

جے پور دھماکہ کیس میں  شنوائی اپنے آخری مراحل میں ہے۔ ایسے میں جیل میں ملزموں کے ساتھ تشدد کی خبر شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔کہیں نرم ہندتوا کی سیاست کرنے والی  کانگرس  اکثریتی فرقے کویہ  باور تو نہیں کرانا چاہتی کہ وہ مسلمانوں کے معاملے میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور آرایس ایس سے زیادہ سخت ہے۔

علامتی تصویر/ فوٹو : انڈین ایکسپریس

علامتی تصویر/ فوٹو : انڈین ایکسپریس

جے پور سنٹرل جیل میں زیرسماعت قیدیوں کے ساتھ جیل حکام نے منصوبہ بند طریقے سے تشدد کیا ہے جس کے نتیجے میں کئی قیدی بری طرح زخمی ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اس بہیمانہ واقعے کے بعد سے ان کے اہل خانہ اور رشتہ داروں سے ملاقاتوں پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی، عدالت میں پیش نہیں کیا جا رہا ہے اور انھیں علاج ومعالجہ سے محروم رکھا گیا ہے۔ یوں بھی ہندوستان کی جیلوں میں زیرسماعت قیدیوں کے ساتھ تشدد اور ان کے حقوق کی پامالی کے واقعات عام ہندوستانیوں کوبےچین نہیں کرتے۔ زیرسماعت قیدی پر اگر دہشت گردی کا الزام ہو تو جیل کا عملہ اور دوسرے زیرسماعت قیدی کبھی بھی انھیں تشدد کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔

ایسے کئی واقعات ہیں جب جیل حکام نے خود تشدد کیا ہے یا باقاعدہ دیگر زیرسماعت قیدیوں سے سازباز کرکے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار زیرسماعت قیدیوں کے خلاف تشدد کےلئے اکسایا ہے۔ اس سےزیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ عام طور سے منتخب حکومتوں نے ایسے واقعات کو انجام دینے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے یا خاموش رہنے کو ترجیح دی ہے۔ یرودا (پونے)جیل میں قتیل صدیقی کے قتل کا معاملہ رہا ہو یا دہلی کی تہاڑ جیل میں محمد سلمان پر قاتلانہ حملہ حکومتوں اور عدلیہ نے ضابطے کی کارروائی تک نہیں کی۔ سیکولر گردانی جانے والی ریاستی حکومتوں کے اقتدار میں اس طرح کے واقعات زیادہ پیش آئے ہیں۔ اس معاملے میں کانگرس کے اقتدار والی حکومتوں کا ریکارڈ انتہائی خراب رہا ہے۔

جے پور سنڑل جیل میں 20 فروری کو سزایافتہ پاکستانی قیدی کے قتل کے بعد سے ہی دہشت گردی کے نام پر گرفتارملزمان کوجیل حکام طرح طرح سے اذیتیں دے رہے تھے۔ جے پور کی گرمی میں انھیں 23-23 گھنٹے تک قید رکھا جاتا تھا۔ جب ملزمان نے اپنے قانونی حقوق کا مطالبہ کیا تو انھیں جیل حکام کی طرف سے دھمکیاں دی جانے لگیں۔ زیرسماعت قیدیوں نے ناقابل برداشت حالات کے خلاف 28 مارچ سے احتجاج کے طور پر بھوک ہڑتال شروع کردی۔ جیل حکام کے رویہ میں اور سختی کے مد نظر نوجوانوں نے 29 مارچ کو اسپیشل جج کو جیل کے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے جیل کے اندر شکایت باکس لگوانے اور کسی جج کوجیل کا دورہ کرنے کےلئے عرضی دی۔

جج موصوف نے جیل حکام کو نوٹس جاری کر دیا۔ جب وہ لوگ سماعت کے بعد عدالت سے واپس پہنچے تو جیلرکملیش شرما نے عرضی کی کاربن کاپی چھین کر پھاڑ دی اور دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ جیل میں صرف ان کا حکم چلتا ہے اور وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ رات کی ڈیوٹی پر مامور سنتری رمیش چندر مینا نے جیلر کی دھمکی کی وضاحت کرتے ہوئے ان نوجوانوں سے کہا کہ وہ جب چاہے دو تین لاشیں گراسکتا ہے اور اس کے لئے اسے بہت زحمت نہیں کرنی ہوگی اور محض دوتین صفحات ہی کالے کرنے پڑیں گے۔ خطرے کو محسوس کرتے ہوئے 30 مارچ کو عدالت میں سماعت کے دوران ملزمان نے گزشتہ واقعات بیان کرتے ہوئے اسپیشل کورٹ کو پھر سے عرضی دی۔ فاضل جج نے جیل حکام کو پھر سے نوٹس جاری کر دیا۔ سماعت کے بعد جب ملزمان جیل پہنچے تو ایک بار پھر عدالت کے واقعات کی جانکاری جیل حکام کو ہو چکی تھی۔ وہاں عرضی گزار شہباز، محمد سیف، محمد سلمان، محمد سرور اور سیف الرحمان کو انتہائی بے رحمی سے پیٹا گیا۔ ان میں سے آخری چار ملزمان کا تعلق اعظم گڑھ سے ہے جبکہ شہباز بھدوہی کا رہنے والا ہے۔

محمد سرور کے چچا ابو عاصم 30 مارچ کو اپنے بھتیجے سے ملنے پہنچے۔ انھیں واقعات کا علم نہیں تھا۔ جیل حکام نے انھیں پورے دن بٹھائے رکھا اور اس درمیان سادے کپڑوں میں ایجنسیوں کے اہلکار خوف کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ شام کو بغیر کوئی عذر بتائے انھیں واپس کر دیا۔ کافی کوششوں کے بعد 2 مارچ کو وکلاء اور سماجی کارکنان کے ایک وفد نے جیل میں زخمی ملزمان سے ملاقات کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ شہباز وہیل چیئر پر تھا، سیف کو سہارا دیکر لایا گیا تھا۔ سلمان کے ہاتھ اور چہرے پر شدید چوٹ تھی اور وہ بول نہیں پا رہا تھا۔ شہباز کی حالت تشویشناک ہے۔ سلمان کے ہاتھ اور سیف کے پاؤں میں فریکچر کا اندیشہ ہے۔ تمام قیدیوں کے جسم کا کوئی حصہ بچا نہیں تھا جہاں چوٹ کے نشان نہ رہے ہوں۔ ظلم کی انتہا یہ تھی کہ چار دن گزر چکے تھے، انھیں تڑپتا ہوا چھوڑ دیا گیا تھا اور علاج کے نام پر ایک گولی بھی فراہم نہیں کی گئی تھی۔ اس کے بر خلاف جیل حکام نے خود زیر سماعت قیدیوں پر جیل اہلکاروں بشمول جیلر پر حملے کا الزام لگاتے ہوئے مقدمہ بھی قائم کروایا ہے۔

جے پور دھماکہ کیس میں تیزی سے شنوائی چل رہی ہے اور مقدمہ اپنے آخری مراحل میں ہے۔ ایسے میں جیل میں اس طرح واقعات کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔ اسے جیل میں قتل کی سازش یا فیصلے سے قبل عدالت کو متاثر کرنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس معاملے سے سماجی تنظیموں کے رضاکاروں نے وزیراعلیٰ گہلوت کو بھی واقف کرایا ہے لیکن اب تک ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے جو اطمینان کا باعث ہو۔ ایسے میں نرم ہندتوا کی طرف مائل کانگرس کے تئیں یہ شبہ پیدا ہوتا کہ کہیں وہ اکثریتی فرقے کو باور تو نہیں کرانا چاہتی کہ وہ مسلمانوں کے معاملے میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور آرایس ایس سے زیادہ سخت ہے۔

(مضمون نگار حقوق انسانی کی تنظیم رہائی منچ کے رکن ہیں۔)