فکر و نظر

کیا اڈوانی نے موجودہ بی جے پی کا موازنہ ایمرجنسی والی کانگریس سے کیا ہے؟

بی جے پی کے بانی نے مخالفین کو اینٹی نیشنل کہنے پر اعتراض کیا ہے، جو مودی-شاہ کی حکمت عملی اور مہم کا اہم حصہ  رہا ہے۔ ایسا ہی کچھ لال کرشن اڈوانی نے 1970 کی دہائی کے وسط میں ایمرجنسی کے وقت جیل میں بند ہونے کے دوران بھی لکھا تھا۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ لال کرشن اڈوانی(فوٹو : پی ٹی آئی)

وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ لال کرشن اڈوانی(فوٹو : پی ٹی آئی)

بلاگ پوسٹ اب شاید ہی کبھی خبر بنتی ہیں، لیکن 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بننے کے بعد لکھی گئی لال کرشن اڈوانی کی پہلی بلاگ پوسٹ مقتدر جماعت کے دورحکومت کی کہانی میں ایک میل کا پتھر ثابت ہو سکتی ہے۔اس پوسٹ کے توسط سے  پارٹی کے بانیوں میں سے ایک ،جو ایمرجنسی میں جیل گئے تھے-بی جے پی کو دبی  آواز میں اس سیاسی پارٹی کی طرح بنتے  جانے پر خبردار کر رہے ہیں، جس کے خلاف کبھی انہوں نے جد و جہد کی تھی ۔اڈوانی کی پوسٹ مختصر ہے، لیکن واضح ہے۔ یہ 6 اپریل، جس دن پارٹی کی یوم تاسیس ہے، کو ذہن  میں رکھ‌کر لکھی گئی ہے، جس میں  انہوں نے کہا-یہ ہم سبھی کے لئے پیچھے، آگے  اور اپنے اندر دیکھنے کے لئے ایک اہم موقع ہے۔

اس کے بعد انہوں نے اپنی پوسٹ میں دو باتوں کو اہمیت دی ہے۔ سب سے پہلے، سیاست کی زبان کے بارے میں انہوں نے لکھا؛

اپنے قیام  کے بعد سے ہی بی جے پی نے ان لوگوں کواپنا ‘دشمن ‘نہیں مانا، جو سیاسی طور پر ہم سے غیرمتفق ہیں، بلکہ ان کوصرف اپنے ‘مخالف ‘کے طور پر دیکھا۔ اسی طرح، راشٹرواد  کے  ہمارے  نظریے سے  بھی جو لوگ سیاسی طور پرعدم اتفاق رکھتے تھے، ان کو کبھی اینٹی نیشنل نہیں مانا گیا۔

اس کے بعد، اداروں کی سالمیت کے بارے میں وہ لکھتے ہیں؛

ملک اور پارٹی کے دونوں کے اندر، جمہوریت اور جمہوری‎ روایتوں کی حفاظت، بی جے پی کے لئے فخر کی بات رہی ہے۔ اس لئے، بی جے پی ہمیشہ میڈیا سمیت ہمارے تمام جمہوری‎ اداروں کی آزادی، سالمیت، غیر جانبداری  اور مضبوطی کی مانگ کرنے میں سب سے آگے رہی ہے۔

یہ دونوں ہی باتیں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اور مکالمہ کے انداز پر بلاواسطہ حملہ ہیں۔ملک میں چل رہا ‘اینٹی نیشنل’لفظ مودی-شاہ کی حکمت عملی اور فی الحال چل رہی انتخابی مہم کا اہم حصہ  رہا ہے۔اڈوانی کی پوسٹ سے ٹھیک ایک دن پہلے 3 اپریل کو، مودی نے کانگریس کےانتخابی  منشور اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی، دونوں کو ‘اینٹی نیشنل’ کہا تھا۔زیادہ تر لوگ  یہ بھول گئے ہوں‌گے، لیکن اڈوانی کو وہ دور یاد ہوگا، جب ایک دوسری  حکومت کے ذریعے اپنے سیاسی حریف کے خلاف اسی لفظ کا استعمال کیا جاتا تھا-یہ تھا اندرا گاندھی کا دور حکومت۔ ایمرجنسی کے دوران، اندرا حکومت نے حزب مخالف کےکارکنان کو ‘ہندوستان مخالف ‘اور ‘ملک مخالف ‘ قرار دیا تھا۔

چالیس سال بعد، ان میں سے کئی کارکن (جیسے سبرامنیم سوامی) جب اقتدار میں آئے، تب انہوں نے طالبعلموں، سول سوسائٹی اور حزب مخالف کے  رہنماؤں کے خلاف اسی لفظ کو اپنا ہتھیار بنایا۔اڈوانی نے خود ایمرجنسی کی مدت بنگلور کی جیل میں گزاری تھی۔ وہ وہاں 19 مہینے رہے اور بعد میں اپنی کئی کتابوں میں اقتدار کے بارے میں ان کی سوچ اور جمہوریت کے خطروں کے بارے میں لکھا۔جس طرح ایمرجنسی کی بیان بازی موجودہ بی جے پی کے بیانات سے میل کھاتی ہیں، اسی طرح مودی حکومت میں لکھے گئے  اس نئے  بلاگ پوسٹ میں ان کے 1970 کی دہائی میں لکھے گئے بغاوتی مضامین کی جھلک ملتی ہے۔

A Tale of Two Emergencies  کےعنوان سے  ایک مضمون میں انہوں نے حکمرانوں کی تنقید کرنے کے اختیار کا بچاؤ کیا تھا؛

Advani-Essay-1

پریس کے بارے میں انہوں نے لکھا تھا کہ کہ پریس تنقید کی صحت مند تہذیب کے لئے اہم ہوتی ہے۔

Advani-Essay-2

انہوں نے مکھیا کے تئیں ‘وفاداری کے مظاہرے ‘ کی خواہش رکھنے والی سیاسی تہذیب کا مذاق اڑایا تھا۔

Advani-Essay-3

دسمبر 1975 میں انہوں نے چنڈی گڑھ میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے نمائندوں کو ایک کھلا خط لکھا، جس کا عنوان تھا،When Disobedience to Law is a Duty اس میں اڈوانی نے ‘ شہریوں کی  آزادی پر حملہ ‘ کو لےکر جواہرلال نہرو کے لفظوں  کو نقل کیا تھا۔

Advani-Essay-4

ساتھ ہی انہوں نے حکومت کی تشہیر اور مذمت کے لئے پریس پر قبضہ کر لینے کی مذمت کی تھی۔

Advani-Essay-5

ایک تیسرا پرچہ، Anatomy of Fascism، جو اپریل 1976 میں ایمرجنسی کی انتہا پر لکھا گیا تھا، میں اڈوانی نے ایک بولڈ حزب مخالف کی ضرورت کو بےحد ضروری بتایا۔

Advani-Essay-6

اور آخر میں وہ لفظ، جن کو 2019 میں ہر ٹیلی ویژن پر دکھایا جانا چاہیے، انہوں نے ہندوستانی عوام کو ایڈولف ہٹلر کے ‘ کھیل‌کے اصولوں ‘ کی یاد دلائی۔

Advani-Essay-7

ایسا نہیں ہے کہ اڈوانی کی یہ بلاگ پوسٹ پوری طرح سے اصول پر مبنی ہے-جس طرح کی بیان بازی اور حکومت کے انداز کے بارے میں وہ خبردار کر رہے ہیں، وہ گزشتہ  پانچ سالوں سے جاری ہے۔ ہاں، ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کے پیچھے ان کی دو ہفتہ پہلے ہوئی وہ بے عزتی ہو-جب 1998 کے بعد سے لگاتار ان کے ذریعے جیتی جا رہی گاندھی نگر لوک سبھا سیٹ پر امت شاہ کو ٹکٹ دیا گیا۔شاید ان کے کیریئر کے اس تختہ پلٹ نے ہی ان کے نظریہ کو صاف کیا اور ان کی یادداشت کو جھٹکا دیا، ساتھ ہی، کچھ سال بعد ہی صحیح لیکن  ان کو قلم اٹھانے کے لئے مجبور کر دیا۔