فکر و نظر

کیا بی جے پی میں آنے والا زمانہ امت شاہ کا ہے

بی جے پی اس انتخاب میں اچھا مظاہرہ کرے یا خراب، امت شاہ پارٹی کے اندر ایک اہم طاقت ہوں‌گے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بی جے پی صدر امت شاہ (فوٹو : رائٹرس)

وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بی جے پی صدر امت شاہ (فوٹو : رائٹرس)

لوک سبھا انتخاب شروع ہونے سے کچھ روز پہلے 7 اپریل کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی مہم کے لئے ایک گانا ریلیز ہوا-جہاں پارٹی نے اس کے پرانے نعرے کو ہی دوہرایا ہے، ‘پھر ایک بار، مودی سرکار۔ اس گانا کے ساتھ 3 منٹ 24 سیکنڈ کا ایک ویڈیو بھی ہے، جس میں صرف پارٹی کے دو رہنماؤں کے چہرے نظر آتے ہیں-نریندر مودی اور امت شاہ۔نریندر مودی اور امت شاہ ایک پرفیکٹ ٹیم مانے جاتے ہیں۔ مودی بی جے پی کا چہرہ ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے اصل حامیوں-جو ان کے متعلق اتنی وفاداری رکھتے ہیں کہ ان کا نام ہی بھکت پڑ گیا ہے-کو اپیل کرتے ہیں، بلکہ اور بھی کئی لوگ، جن میں شہری پیشہ ور لوگوں سے لےکر پہلی بار کے رائےدہندگان تک شامل ہیں، کو ان کا پیغام متاثر کن لگتا ہے۔

دوسری طرف شاہ ایک حکمت عملی  کے معاملے میں استاد ہیں، جو اتحاد کرتے ہیں، امیدواروں کو چنتے ہیں۔ وہ نہ صرف بڑے فلک کو نہیں دیکھتے ہیں، بلکہ چھوٹی چھوٹی تفصیلات کا بھی خیال رکھتے ہیں۔اپنے رہنما کا داہنا ہاتھ ہونے کے ساتھ-ساتھ اپنی پارٹی کے غیرمتنازعہ رہنما کے طور پر شاہ ایک ایسی رشک کرنے والی کرسی پر ہیں، جہاں ہرکوئی ان کے ماتحت ہے، جو باغیوں کو قابو میں رکھتے ہیں اور صرف ایک مقصد کے لئے کام کرتے ہیں-کہ ان کے سپر باس کی سپرمیسی برقرار رہے۔ یقیناً ان کے لئے پارٹی اہم ہے اور نظریہ بھی، لیکن آخرکار شاہ ‘ صاحب ‘ کی ہی خدمت کرتے ہیں۔

اس نظام  کا اہم پہلو یہ ہے کہ دونوں میں سے ایک آدمی سرخیاں بٹورتا ہے، جبکہ اس کے بغل میں کھڑا دوسرا آدمی خود کو زیادہ آگے نہیں کرتا۔ دونوں ایک جیسی دمک سے چمکنے والا ستارہ نہیں ہو سکتے۔حالانکہ، شاہ اکثر اسٹیج پر مودی کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں، لیکن کشش کا مرکز مودی ہی ہیں؛ ان کی تقریروں کو سننے کے لئے لوگ آتے ہیں، ان کے نام پر ہی ووٹ ملتے ہیں۔ شاہ جیت‌کے مرکزی کردار ہو سکتے ہیں، لیکن ان کا کردار خاص طور پر پردے کے پیچھے رہ‌کر کام کرنے والے کا ہے۔

لیکن اس نظام  میں تبدیلی آتی نظرآ رہی ہے۔ گزشتہ کافی وقت سے شاہ ملک بھر میں ایک جانا-پہچانا نام بن گئے ہیں۔ صرف اتحاد کرنے والے کے طور پر نہیں-جیسا انہوں نے دیگر جگہوں کے علاوہ بہار اور مہاراشٹر میں کیا-بلکہ وہ ملک بھر میں انتخابی تقریر اور انٹرویو بھی دے رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کا قد بڑھ رہا ہے، جہاں وہ کسی کے بغل میں نہیں، اکیلے ہیں۔کسی انتخاب کے لئے پرچہ بھرنا اپنی طاقت دکھانے کا ایک اچھا موقع ہوتا ہے، خاص طور پر ہائی-پروفائل امیدواروں کے لئے۔ پارٹی کے کارکن اور مقامی رہنما امیدوار کے ساتھ حمایت دکھانے کے لئے اور ساتھ میں فوٹو کھنچوانے کے لئے جاتے ہیں۔

پچھلے ہفتہ لوک سبھا انتخابات کے لئے پہلی بار پرچہ بھرتے وقت لگے ہجوم میں شاہ کے ساتھ صرف ان کی ہی پارٹی کے بڑے نام-راجناتھ سنگھ، نتن گڈکری اور ارون جیٹلی-نہیں تھے، بلکہ رام ولاس پاسوان، پرکاش سنگھ بادل اور سب سے اہم ادھو ٹھاکرے بھی تھے، جو کچھ دن پہلے تک بی جے پی کے شدیدناقد بنے ہوئے تھے۔پرچہ نامزدگی کے دفتر تک جانے کے لئے شاہ نے 4 کلومیٹر لمبا روڈ شو کیا۔ ان کے ساتھ کھلی کار میں راجناتھ سنگھ اور پیوش گوئل سوار تھے۔

مرکزی وزیر راجناتھ سنگھ اور پیوش گوئل کے ساتھ گاندھی نگر میں پر چہ نامزد گی داخل کرنے جاتے امت شاہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

مرکزی وزیر راجناتھ سنگھ اور پیوش گوئل کے ساتھ گاندھی نگر میں پر چہ نامزد گی داخل کرنے جاتے امت شاہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

اس منظر کے پیغام پر دھیان دیا جانا چاہیے۔ شاہ صرف اپنی پارٹی اور اتحادیوں کے درمیان ہی اپنی گرفت کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے، بلکہ اس طاقت کےمظاہرہ کے ذریعے وہ یہ پیغام بھی دینا چاہتے تھے کہ اب وہ اس گاندھی نگر سے پارٹی کے امیدوار ہیں جس کی نمائندگی لمبے وقت تک لال کرشن اڈوانی نے کی، جو 1990 کی دہائی میں جو اٹل بہاری واجپائی کے بعد پارٹی کے دوسرے سب سے بڑے رہنما تھے اور جن کی قیادت میں پارٹی نے 2009 کا انتخاب لڑا تھا۔ حالانکہ وہ ہار گئے، لیکن اگر بی جے پی جیتتی، تو و ہی وزیر اعظم بنتے۔

انہی اڈوانی کو شاہ نے باہر کا راستہ دکھایا اور اس طرح سے ایک ایسے آدمی کے سیاسی کیریئر اور امیدوں کا خاتمہ کر دیا، جو 1980 کی دہائی میں بی جے پی کے بانیوں میں سے رہے اور جن کو بی جے پی کو ایک سیاسی طاقت کے طور پر قائم کرنے کا سہرا دیا جاتا ہے۔یہ اڈوانی ہی تھے، جنہوں نے اس وقت مودی کی حفاظت کی تھی، جب دوسرے لوگ ان کے خلاف تھے۔ آج انہی اڈوانی کو مودی کے سب سے قریبی کے ہاتھوں بے عزتی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کی علامتی اہمیت بالکل صاف ہے۔

شاہ نے میڈیا میں بھی اپنا قد کافی بڑا کر لیا ہے۔ گزشتہ دنوں شاہ انڈیا ٹی وی کے آپ کی عدالت پروگرام میں تھے، جہاں ان کو مودی حکومت کی کامیابیوں پر بات کرنے کے لئے اور کانگریس اور نہرو-گاندھی فیملی کی تنقید کرنے کے لئے ایک گھنٹے کا وقت ملا۔تب سے انہوں نے نیٹ ورک 18 کو ایک اور انٹرویو دیا، جو مکیش امبانی کی ملکیت والی کمپنی ہے، جس کے تحت انگریزی اور ہندی چینل کے ساتھ ساتھ کئی علاقائی چینل بھی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے ایسے اور کئی انٹرویو آنے والے ہیں۔بی جے پی کے کسی اور رہنما کو اتنی توجہ نہیں مل رہی ہے۔ ارون جیٹلی جن کو 2014 کے بعدکی بی جے پی کی جیت کا تیسرا اہم ستون مانا جاتا تھا، وہ اخباروں کو انٹرویو دے رہے ہیں، بلاگ لکھ رہے ہیں، لیکن وہ مورچے پر نہیں دکھ رہے ہیں۔

سشما سوراج نے اپنی مرضی سے خود کو انتخابی سیاست سے دور کر لیا ہے اور نتن گڈکری جب عوامی طور پر دکھائی دیتے ہیں، تب مودی کے متعلق اپنی مکمل وفاداری کا اعلان کرتے ہیں۔ان کی بی جے پی کو مکمل اکثریت نہ ملنے کی صورت میں مودی کے ‘قابل قبول ‘نعم البدل ہونے کے لمحاتی نظریہ کو کب کا بھلا دیا گیا ہے۔ایک وقت تو ‘یوگی’آدتیہ ناتھ کو بھی مودی کے ممکنہ قائم مقام کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ ایسا مانا جاتا تھا کہ اپنی نفرت سے بھری ہوئی تقریروں اور فرقہ وارانہ سیاست کی وجہ سے وہ یونین کے پیروکاروں اور قیادت کو کافی اپیل کرتے ہیں، لیکن یوگی کی یہ اڑان اوندھے منھ زمین پر آ گری۔

اس میں نہ صرف ان کی واضح اقلیت مخالف پالیسیوں کا ہاتھ رہا ہے، بلکہ ایڈمنسٹریشن کے معاملے میں ان کی زبردست نااہلی بھی اس کے لئے جواب دہ ہے۔شاہ اب تک مودی کے نعم البدل نہیں ہیں-بلکہ ایسا ہونے سے وہ بہت دور ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ شاہ مودی کا بنایا ہوا شاہکار ہیں، کیونکہ انہوں نے ہی وزیر اعظم بننے کے محض ایک مہینے کے بعد جولائی، 2014 میں ان کو بی جے پی کا صدر منتخب کیا تھا۔اس کے ساتھ ہی شاہ پارٹی میں سب سے طاقتور آدمی بن گئے۔ ایک ایسے آدمی کے لئے جو کبھی قتل، اغوا، جبراً وصولی کا ملزم تھا اور جس کو 2010 میں، جب وہ ضمانت پر چل رہے تھے، گجرات سے تڑی پار کر دیا گیا تھا، یہ سفر حیران کرنے والا ہے۔

آسام کے ناگاؤں میں ایک انتخابی ریلی کے دوران  امت شاہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

آسام کے ناگاؤں میں ایک انتخابی ریلی کے دوران  امت شاہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

شاہ کو ملا عہدہ ہی نہیں، بلکہ ان کا سیاسی وجود بھی نریندر مودی کی وجہ سے ہے۔ شاہ اپنے اردگرد اس طرح سے پیروکاروں کا کوئی فرقہ بھی کھڑا نہیں کر سکتے ہیں،جس طرح سے مودی نے کیا ہے-جن کی نہ تصویر حکومت کے ہر اشتہار، مصنوعات اور فلائٹ ٹکٹ پر ہے، بلکہ ان کے نام سے ایک ٹی وی چینل بھی چل رہا ہے۔لیکن، شاہ اس کو اپنے راستے میں نہیں آنے دے رہے ہیں-ان کی اسکیمیں دوررس ہیں۔ سالوں تک پردے کے پیچھے رہنے کے بعد شاہ اب منچ پر قدم رکھ رہے ہیں۔ انتخاب میں جیت کے ساتھ وہ لوک سبھا کی اگلی قطار میں ہوں‌گے۔ ان کو وزیر کاعہدہ بھی مل سکتا ہے۔

پرانے رکن پارلیامان کو باہر کا راستہ دکھاکر نئے چہروں کو انتخاب کے میدان میں اتارنے کی ان کی حکمت عملی ان کے وفا دار حامیوں کی ایک فوج تیار کرے‌گی، جو اپنے سیاسی کیریئر کے لئے ان کے متعلق احسان مند ہوں‌گے۔ آگے بڑھ‌کر اتحاد یوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا مددگاروں کے ایک بڑے نیٹ ورک کو تیار کرے‌گا۔ وہ ایک بےحد طاقت ور آدمی بن جائیں‌گے۔بی جے پی اس انتخاب میں اچھا مظاہرہ کرے یا خراب، شاہ پارٹی کے اندر ایک اہم طاقت ہوں‌گے۔ اگر پارٹی اپنے دم پر اکثریت حاصل کر لیتی ہے، تو اتحاد بنانے کی وجہ سے اس کا سہرا ان کو بھی دیا جائے‌گا۔اگر ایسا نہیں ہوتا، تو نئے مددگاروں کو تلاش کرنے کی ذمہ داری ان پر ہی آئے‌گی۔کشتی پار لگانے کے لئے مودی ان پر انحصار کریں‌گے۔ پارٹی کے دوسرے چہروں کے ڈوبنے اور کسی دیگر قابل اعتماد اور سینئر رہنما کی غیر-موجودگی میں پارٹی میں مودی کے بعد صرف شاہ کا ہی سکہ چلے‌گا۔