فکر و نظر

آدیواسی اور جنگل میں رہنے والوں کو  جنگل سے بے دخل کرنا ان کو قتل کرنے جیسا ہے

جنگل کے حقوق سے متلق قانون – Forest Rights Act 2006کے تحت خارج دعوے کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے آدیواسیوں کو جنگل سے بے دخل کرنے کا حکم دیا تھا، جس پر بعد میں روک لگا دی گئی۔لیکن دعویٰ خارج کیوں ہوا؟ مرکزی حکومت نے عدالت سے کہا کہ دعوے سے متعلق فارم  صحیح سے پرنہیں کیےگئے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومتوں کی ملی بھگت سے ان کو خارج کیا گیا ہے تاکہ جنگلات میں معدنیاتی جائیداد کے استحصال کے لئے لیز پردینے میں کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔

جنگل سے آدیواسیوں کو بے دخل کرنے کے مدعے پر نئی دہلی میں مختلف آدیواسی تنظیموں کا مظاہرہ (فوٹو : سنتوشی مرکام / دی وائر)

جنگل سے آدیواسیوں کو بے دخل کرنے کے مدعے پر نئی دہلی میں مختلف آدیواسی تنظیموں کا مظاہرہ (فوٹو : سنتوشی مرکام / دی وائر)

جنگل کے حقوق سے متعلق قانون – Forest Rights Act 2006 کے تحت خارج دعوے کی روشنی میں 13 فروری 2019 کو سپریم کورٹ نے جنگل اور جنگل کی زمین سے بے دخلی کا حکم جاری کیا تھا۔ لوک سبھا انتخاب کے مدنظرمرکزی حکومت کے درخواست پر سپریم کورٹ نے 28 فروری 2019 کو اپنے حکم پر روک لگا دی۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم پر روک لگاتے وقت ریاستی حکومتوں کو حلف نامہ دائر کرنے کا بھی حکم دیا ہے، جس پر آئندہ 24 جولائی 2019 کو سماعت ہوگی، جس کے بعد آگے کی کارروائی شروع کی جائے‌گی۔

اس سے واضح ہے کہ جنگل کی زمین پر کھیتی  کرنے اور جنگلوں  کے اندر رہائش اختیار کرنے والے آدیواسی اور دوسرےروایتی باشندوں پر بے دخلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اگر اگلی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریاستی حکومتوں کی نہیں سنی تو لاکھوں لوگ ایک جھٹکے میں بے گھر ہو جائیں‌گے۔میڈیا کی خبروں میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم سے تقریباً 10 لاکھ آدیواسی اور 1 لاکھ دوسرے روایتی باشندےیعنی تقریباً 11 لاکھ لوگ جنگل کی زمین اور جنگلات سے بےدخل ہو جائیں‌گے۔ لیکن یہ اعداد و شمار تقریباً 20 لاکھ تک پہنچ سکتا ہے۔

قبائلی معاملے کی وزارت کے ذریعے 30 نومبر 2018 کو جاری Forest Rights Act 2006 کی عمل آوری رپورٹ کے مطابق اب تک 1939231 دعوے کو خارج کیا جا چکا ہے۔وزارت کے ذریعے جاری اعداد و شمار کے مطابق Forest Rights Act 2006 کے تحت 1 جنوری 2018 سے 30 نومبر 2018 تک ملک بھر میں 4224951 دعویٰ بھرا گیا تھا، جس میں 4076606 ذاتی اور 148345 کمیونٹی دعویٰ شامل ہے۔ ان میں سے 1894225 لوگوں کو پٹہ جاری کیا جا چکا ہے، جس میں 1822161 ذاتی اور 72064 کمیونٹی پٹہ شامل ہے۔

اب تک کل 1939231 دعویٰ کو خارج کیا گیا ہے اور 391495 دعوی زیر التوا ہے۔ اگر جھارکھنڈ کا دیکھیں تو ریاست میں 109030 دعوے بھرے گئے تھے، جس میں 105363 ذاتی اور 3667 کمیونٹی دعویٰ شامل ہے۔ان میں سے 60143 جنگل پٹہ جاری کئے جا چکے ہیں، جس میں 58053 ذاتی اور 2090 کمیونٹی پٹہ شامل ہے۔ ریاست میں 39521 معاملے خارج کئے گئے ہیں اور 19366 معاملے زیر التوا ہیں۔اس سے واضح ہے اگر سپریم کورٹ کی بے دخلی حکم پھر سے جاری ہوتا ہے تو ملک بھر میں 1939231 فیملی کو جنگل کی زمین اور جنگلات سے بےدخل کیا جائے‌گا، جس میں جھارکھنڈ کی 29521 فیملی شامل ہیں۔

یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ اتنے لوگ کہاں جائیں‌گے؟ ہندوستانی آئین کاآرٹیکل 21 سبھی کو زندگی جینے کا بنیادی حق دیتا ہے، جس کی حفاظت کرنا اسٹیٹ یعنی قانون ساز، مجلس عاملہ اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ایسی حالت میں مرکز اور ریاستی حکومتیں ان قبائلی اور دیگر روایتی جنگلی باشندوں کو جنگل کی زمین اور جنگلوں سے بےدخل کر کےکس طرح کے ذریعہ معاش کے وسائل مہیا کرائیں‌گے؟ کیا ان کو جنگل کی زمین اور جنگلات سے بےدخل کرنا ان کے بنیادی حق کی سنگین خلاف ورزی نہیں ہے؟

یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ دعوے خارج کیوں کئے گئے؟ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ یہ لوگ غریب اور غیرتعلیم یافتہ ہیں اس لئے صحیح سے اپنا دعویٰ  نہیں بھرسکے۔لیکن حکومت کا دعویٰ بالکل غلط ہے۔ Forest Rights Act 2006 کے تحت جو لوگ 13 دسمبر 2005 تک جنگل کی زمین پر قابض ہیں اور جنگلات میں گھر بناکر رہتے ہیں ان کو اس پر حق دینا ہے۔حکومت کا کام گرام سبھاؤں کے ذریعے دستیاب کرائے گئے دستاویزوں کی بنیاد پر دعوے  کی تصدیق کرنا ہے، لیکن گرام سبھا کے اختیارات کو نہ مانتے ہوئے لاکھوں دعوے کو خارج کیا گیا ہے۔

اتناہی نہیں جہاں گرام سبھاؤں کے ذریعے 8 سے 10 ایکڑ زمین کی منظوری دی گئی تھی وہاں 7 سے 14 ڈسمل زمین کا پٹہ دیا گیا ہے۔ اگر 7 سے 14 ڈسمل کو صحیح مانا گیا تو پھر 8 سے 10 ایکڑ کا پٹہ کیوں نہیں دیا گیا؟ ایسی حالت میں دعوے کے خارج ہونے کا ذمہ دار دعوے دار کو کیسے مانا جا سکتا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ مرکز اور ریاستی حکومتوں کی ملی بھگت سے دعوے کو خارج کیا گیا ہے تاکہ جنگلات میں معدنیات کی جائیداد  کے لئے کان کنی سے متعلق  کمپنیوں کو لیز دینے میں کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔

سپریم کورٹ کے حکم کے بعد مرکزی حکومت نے 7 مارچ 2019 کو ریاستی حکومتوں کو ایک خط جاری کرتے ہوئے جنگل قانون 1927 میں  ترمیم کرتے ہوئے Forest Rights Act 2006کا مجوزہ خاکہ بھیجا ہے، جو کافی خوفناک ہے۔اس قانون کے تحت ریاستی حکومت کسی بھی جنگل کو کبھی بھی ریزرو اور محفوظ جنگل قرار دے کر لوگوں کے استعمال اور جانوروں کی چراگاہ پر پابندی لگا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کلہاڑی اور دیگر روایتی ہتھیاروں کے ساتھ جنگل جانے والے لوگوں پر جنگل کے محافظ کو گولی چلانے کا حق دینے کی تجویز ہے۔اس کے علاوہ بےقصور لوگوں کا قتل کرنے والے جنگل محافظ پر حکومت کی اجازت کے  بغیرکوئی مقدمہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔

(علامتی تصویر: رائٹرس)

(علامتی تصویر: رائٹرس)

حکومت کے اس طرح کے رویے سے واضح ہے کہ حکومت قبائلی اور دیگر روایتی جنگلی باشندوں سے جنگل اور جنگل کی زمین سے بےدخل کرکے اس کو جلد سے جلد سرمایہ داروں کو سونپنا چاہتی ہے۔ایسا قدم نہ صرف Forest Rights Act 2006 کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ قبائلی اور دیگر روایتی جنگلی باشندوں پر ہوئے تاریخی ناانصافی کو جاری رکھنا بھی ہے، اس لئے قانون ساز، مجلس عاملہ اور عدلیہ کو سوچ سمجھ کر قدم بڑھانا چاہیے۔

قبائلی اور دیگر روایتی جنگلی باشندوں کو جنگل کی زمین اور جنگلات سے بےدخل کرنے کا مطلب  ان کے قتل عام جیسا ہے۔ ہمیں جنگلات کو تباہ ہونے سے بچانا چاہیے کیونکہ ہندوستان کا آئین سبھی کو سماجی، اقتصادی اور سیاسی انصاف دینے کی گارنٹی دیتا ہے، جس کی حفاظت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

(مضمون نگار سماجی کارکن ہیں۔)