فکر و نظر

الیکشن کمیشن کا نمو ٹی وی کو سیاسی اشتہار بتانا مودی اور شاہ کے خلاف کارروائی کا راستہ کھولتا ہے

الیکشن کمیشن نمو ٹی وی کے مواد کے تصدیق کیے جانے  کی بات تو کر رہا ہے، لیکن عوامی نمائندگی قانون کی خلاف ورزی کے لئے اس کے مالکوں/فائدہ اٹھانے والوں  کے خلاف اب تک کوئی مجرمانہ معاملہ درج نہیں ہوا ہے۔

 (فوٹو : دی وائر)

(فوٹو : دی وائر)

انتخاب سے ٹھیک پہلےانتخابی تشہیر کے لیے ٹی وی چینل کی شروعات کرکےانتخاب اور نشریات کے اصولوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کی کوشش بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھاری پڑ سکتی ہے۔چوں کہ الیکشن کمیشن کے ذریعے نمو ٹی وی کو ‘سیاسی اشتہار’قرار دینے سے اس کے اعلیٰ رہنماؤں پر مقدمہ چلانے کا دروازہ کھل گیا ہے۔انتخاب سے متعلق تشہیر کے لئے ٹیلی ویژن کے استعمال پر دو اصول نافذ ہوتے ہیں؛

2004 میں الیکشن کمیشن نے ایک حکم دےکر امیدواروں یا سیاسی جماعتوں کے تمام اشتہارات کو الکٹرانک میڈیا پر دکھائے جانے سے پہلے ایک نگرانی کمیٹی کے ذریعے ان کو دیکھنے، جانچنے اور تصدیق کو ضروری بنا دیا تھا۔

عوامی نمائندگی قانون، 1951 کے تحت ووٹنگ سے 48 گھنٹے پہلے ٹی وی پر کسی بھی’ انتخابی مواد ‘کی پیشکش  پر مکمل پابندی ہے۔ یہ یقینی بنانے کے لئے’انتخابی مواد ‘ کی پیشکش  کو لےکر کسی طرح کی غلط فہمی نہ رہے، عوامی نمائندگی  قانون اس کو ‘کوئی بھی مواد جس کا مقصد انتخاب کے نتائج  کو متاثر کرنا یا بدلنا ہو ‘کے طور پر واضح کرتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے پاس پارٹیوں کو ایسے اشتہاری مواد کے استعمال سے روکنے کا حق ہے، جس کو کمیشن کے پاس تفتیش کے لئے جمع نہ کیا گیا ہو، لیکن، 48 گھنٹے کی پابندی کی خلاف ورزی زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔ یہ ایک جرم ہے جس کے لئے دو سال تک کی سزا ہوسکتی ہے یا جرمانہ لگایا جا سکتا ہے یا پھر دونوں ہوسکتاہے۔ ‘

31 مارچ کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے پوری طرح سے پارٹی اور نریندر مودی کی انتخابی تشہیر لئے وقف ‘نمو ٹی وی’نامی 24 گھنٹے کا چینل لانچ کیا۔جس دن یہ چینل لانچ کیا گیا، اس دن مودی نے اپنے 4.6 کروڑ ٹوئٹر فالوورس سے اس ٹی وی چینل کو دیکھنے کی اپیل کی۔

مودی نے اپنے سرکاری یو-ٹیوب پیج سے بھی نمو ٹی وی کی تشہیر کی۔انڈین ایکسپریس کو دئے گئے ایک انٹرویو میں بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے صدر امت مالویہ نے کہا، نمو ٹی وی، نمو ایپ کا ایک حصہ ہے، جس کو بی جے پی کی آئی ٹی سیل کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔نمو ایپ کو بھلےہی بی جے پی کی آئی ٹی سیل کے ذریعے چلایا جا رہا ہو ‘ لیکن اس پر اصل میں’نریندر مودی’کی ملکیت ہے۔ پارٹی کے بیان  سے بھی یہ واضح ہے کہ مودی ہی اصل میں نمو ٹی وی کے مالک ہیں، کیونکہ یہ چینل’نمو ایپ’کا ہی حصہ ہے۔نمو ٹی وی کے مسئلے کو کئی دنوں تک ٹالنے کے بعد الیکشن کمیشن نے آخرکار یہ قبول کیا کہ نمو ٹی وی کا مواد’سیاسی اشتہار’اور’سیاسی تشہیری مواد ‘سے معمور ہے۔

لیکن اس نتیجے پر پہنچنے کے باوجود الیکشن کمیشن نے خود کو ‘چیف الیکشن افسر (سی ای او) این سی ٹی، دہلی کو یہ ہدایت دینے تک محدود رکھا کہ وہ اس مواد کےپری سرٹیفیکیشن کی شرط پر سختی سے عمل کرنے  کو یقینی بنائیں ۔دلچسپ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اس کی تفتیش میں ملے اس سے زیادہ سنگین مضمرات پر پوری طرح سے خاموش ہے؛چونکہ نمو ٹی وی نے 11 اپریل کو پہلے مرحلے کی ووٹنگ سے پہلے کی 48 گھنٹے پہلے کی مدت کے دوران سیاسی تشہیر-جس کو عوامی نمائندگی قانون کے تحت انتخابی مواد کے طور پر واضح کیا گیا ہے-کی نشریات کو جاری رکھا، اس لئے بی جے پی قانون توڑنے کی قصوروار ہے۔

عوامی نمائندگی قانون کا آرٹیکل 126 کہتا ہے :

  1. ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے 48 گھنٹے کے دوران سے لےکر ووٹنگ کے اختتام کے لئے طے وقت تک عوامی جلسہ پر پابندی-(1) کوئی بھی آدمی-

الف-نہ انتخاب سے متعلق کوئی عوامی جلسہ منعقد کرے‌گا، نہ اس میں شرکت  کرے‌گا، کسی عوامی جلسہ کو خطاب نہیں کرے‌گا یا کسی جلوس میں کسی طور پر حصہ نہیں لے‌گا ؛ یا

ب- سنیماٹوگراف، ٹیلی ویژن یا اس طرح کے دوسرے ذرائع سےعوام کے سامنے کسی انتخابی مواد کو پیش  نہیں کرے‌گا، یا

ج- لوگوں کو متوجہ کرنے کے مقصد سے کسی موسیقی یا ڈرامے کی پیشکش یا کسی دیگر تفریح یا تماشے کے انعقاد یا ا س کے انعقاد کا انتظام کرکے ووٹنگ حلقے میں ووٹنگ سے پہلے کے 48 گھنٹے سے لےکر ووٹنگ ختم ہونے کے طے وقت تک کسی بھی انتخابی مواد کی تشہیر نہیں کرے‌گا۔

(2) ذیلی دفعہ (1) کے اہتماموں کی خلاف ورزی کرنے والا کوئی بھی آدمی دو سال تک کی قید کی سزا، یا جرمانے یا دونوں کا حقدار ہوگا۔

(3) اس دفعہ میں مذکور’انتخابی مواد ‘سے مطلب ایسے کسی بھی مواد سے ہے، جس کا مقصد انتخابی نتائج  کو متاثر کرنا یا اس کو بدلنا ہے۔

اس دفعہ کے اہتماموں کے حساب سے نمو ٹی وی کو 9 اپریل کو 5 بجے سے اگلے 48 گھنٹے تک آف ایئر ہو جانا چاہیے تھا، لیکن اس نے تشہیر نہ کرنے کی اس ضروری مدت کے دوران بھی مودی اور بی جے پی کےانتخابی مواد کی نشریات جاری رکھی اور91 سیٹوں کے ان ناظرین تک پہنچتا رہا جہاں 11 اپریل کو ووٹ ڈالے گئے۔اصل میں، 12 اپریل کی صبح تک نگرانی کمیٹی کے ذریعے پہلے سے تصدیق  شدہ  نہ ہونے کے باوجود نمو ٹی وی ہندوستان بھر‌کے ٹیلی ویژن سیٹوں پر دستیاب تھا۔

11 اپریل کی صبح دہلی کے سی ای او نے یہ کہا کہ چونکہ نمو ٹی وی مودی کے ان تقریروں اور انٹرویو کو دکھا رہا ہے، جو پہلے ہی پبلک ڈومین میں یعنی عوامی طور پر دستیاب ہیں، اس لئے یہ اشتہارات کے زمرہ میں نہیں آتے ہیں، اس لئے ان کو تصدیق کی ضرورت  نہیں ہے۔ ایسا اس سچائی  کے باوجود ہے کہ بی جے پی واضح طور پر ڈی ٹی ایچ آپریٹروں کو اس چینل کو چلانے کے لئے ادائیگی کر رہی ہے۔

حالانکہ، الیکشن کمیشن نے دہلی کے سی ای او کے فیصلے کو پلٹ دیا ہے اور پہلے سے تصدیق کیے جانے کی درخواست کی ہے، لیکن اس نے نمو ٹی وی اور اس کے مالک /فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف عوامی نمائندگی قانون کی خلاف ورزی کے لئے کوئی مجرمانہ معاملہ درج نہیں کیا ہے۔اگر الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریوں کے تئیں سنجیدہ ہے، تو قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مجرمانہ جرم ضرور طے کیا جانا چاہیے۔کمیشن مودی یا بی جے پی صدر امت شاہ یا کسی دیگر آدمی کے خلاف کارروائی کرتا ہے یا نہیں، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔ الیکشن کمیشن، تین الیکشن کمشنر اور مکمل انتخابی کارروائی سوالوں کے دائرے میں ہے۔