فکر و نظر

عام انتخابات 2019 میں بی جے پی کی بڑی جیت کا دعویٰ کھوکھلا ہے

2014 لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کی زبردست جیت کا اعادہ 2019 میں نہیں ہوگا کیونکہ اس وقت کے مقابلے اتر پردیش، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، جھارکھنڈ، بہار اور دہلی جیسی ریاستوں میں بی جے پی اپنی بنیاد کھوتی نظر آ رہی ہے۔

فوٹو : رائٹرس

فوٹو : رائٹرس

موجودہ لوک سبھا انتخاب میں ایک چیز تیزی سے واضح ہوتی جا رہی ہے کہ یہ انتخاب ریاستی انتخابات کا گٹھ جوڑ بنتا جا رہا ہے، جہاں مقامی مدعے مؤثر ہیں۔ کسی طرح کا قومی مدعا اہم رول میں نہیں ہے۔ انتخاب میں ایسی کوئی لہر یا مدعا نہیں ہے جو تمام 29 ریاستوں اور سات یونین ٹیریٹری ریاستوں میں مؤثر ہو۔2014 میں بڑی تعداد میں ریاستوں میں مودی کی حمایت  اور کانگریس مخالف لہر دیکھی گئی تھی، جس وجہ سے بی جے پی نے لوک سبھا کی اوسطاً تقریباً 90 فیصدی سیٹیں جیتی تھی۔ ان ریاستوں میں اتر پردیش، بہار، راجستھان، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، ہریانہ، ہماچل پردیش، دہلی، اتراکھنڈ اور گجرات ہیں۔ بی جے پی نے اکیلے ان 11 ریاستوں میں 216 سیٹیں جیتی تھی۔

لیکن بی جے پی کی اس  زبردست جیت کا اعادہ  2019 میں نہیں ہوگا کیونکہ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، جھارکھنڈ، بہار اور دہلی جیسی ریاستوں میں بی جے پی اپنی بنیاد کھو چکی ہے۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ بی جے پی ان گیارہ ریاستوں میں اوسطاً 50 سے 60 فیصدی سیٹیں بچانے میں کامیاب رہے‌گی تو پارٹی کو پھر بھی تقریباً 90 سے 100 سیٹوں کا نقصان ہوگا۔اکثر opinion pollsمیں کہا گیا ہے کہ بی جے پی ان زیادہ ریاستوں میں تقریباً 40 سے 50 فیصدی سیٹیں ہار سکتی ہے۔اقتصادی عوامل اور اتر پردیش میں زمینی سطح پر اپوزیشن  کی مضبوطی کی وجہ سے اینٹی–ان کمبنسی سے نیا سیاسی فارمولہ  بنا ہے۔ اتر پردیش میں ہر طرح کے اشارے ہیں کہ کانگریس 16 سے 18 سیٹوں پر سنجیدگی سے لڑے‌گی۔

باقی بچی سیٹوں پر سماجوادی پارٹی –بہوجن سماھ پارٹی اتحاد کو کانگریس کے امیدواروں سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ مودی قومی سلامتی اور پاکستان سے متعلق دہشت گردی کی بات کر کے اینٹی –ان کمبنسی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، لیکن زمینی سطح پر  اس کااثر نظر نہیں آرہا ہے۔بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ اس کو 2014 کے مقابلے زیادہ بڑی اکثریت ملے‌گی لیکن ان کا یہ دعویٰ کھوکھلا لگتا ہے، جب آپ یہ دیکھیں‌گے کہ امت شاہ کس طرح نشاد پارٹی جیسی چھوٹی  جماعتوں سے اتحاد کی کوشش کر رہے ہیں اور ملائم سنگھ یادو کے بھائی شیوپال یادو کی  نئی  پارٹی پرگتی شیل سماجوادی پارٹی (لوہیا) جیسے گروپ  سے رابطہ میں ہیں۔

شیوپال حال ہی میں کہہ چکے ہیں، ہم ان انتخابات میں کنگ میکر کے طور پر ابھریں‌گے۔ تضاد یہ ہے کہ بی جے پی اپنی اتحادی پارٹیوں جیسے جنتادل (یو) اور شیو سینا کو سیٹ دینے کے معاملے میں پہلے زیادہ فیاض ہوگئی ہے۔اس میں  بی جے پی قیادت کی زیادہ بےچینی دکھتی ہے کہ 2019 کا انتخاب 2014 کی طرح نہیں ہے۔بی جے پی کی سب سے بڑی فکر بی ایس پی  اورایس پی  کے درمیان اتحاد کی ہے، جو اپوزیشن  کی یکجہتی میں اضافہ کرتا ہے  اور اتر پردیش جیسی  اہم ریاست میں بی جے پی مخالف ووٹ کو کم کرے‌گا۔ بی جے پی کو 2014 میں مغربی اتر پردیش میں جس طرح کی جیت ملی تھی اس کو اس بار اس طرح کی جیت کی امید نہیں ہے۔بی جے پی کے لئے تشویش کی ایک اور وجہ پرینکا گاندھی بھی ہے، جو مشرقی اتر پردیش میں اشرافیہ  ووٹرس کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

یہ مشکل میڈیا کی ان رپورٹس سے اور بڑھی ہے ، جن میں کہا گیا ہے کہ بانی ممبر اورسینئر رہنما مرلی منوہر جوشی نے اس بار انتخاب نہیں لڑنے دینے کو لے کر اپنی مایوسی کا اظہار کیا تھا اور اس سے کچھ اثر تو پڑ ہی سکتا ہے ۔ برہمن جزوی طور پر کانگریس کا رخ کر سکتے ہیں ، جس سے بی جے پی کو نقصان ہوسکتا ہے۔بی جے پی کو امید ہے کہ کانگریس ، ایس پی –بی ایس پی اتحاد کو زیادہ نقصان ہوسکتا ہے ۔کانگریس نے اتر پردیش کی سبھی سیٹوں پر امیدوار اتارے ہیں ۔ یہ اس پر منحصر کرتا ہے کہ ان سیٹوں پر کانگریس کے امیدوار کتنے مؤثر ہیں۔یاد رکھیں کہ کانگریس گورکھپور اور پھول پور کے ضمنی انتخاب میں اپنی ضمانت تک ضبط کرا چکی ہے، جہاں ایس پی-بی ایس پی اتحاد نے اچھا کام کیا۔ اگر ایسا دوبارہ ہوتا ہے تو کانگریس جن سیٹوں پر لڑ رہی ہے، وہاں کم ہی نقصان ہوگا۔ کانگریس کا دوسروں کو نقصان پہنچانے کی بات صرف وارننگ  بھی ہو سکتی ہے۔

2014 میں ہندی بیلٹ والی  ریاستوں میں مودی لہر اب واضح طور پر اتر پردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ اور دہلی  میں ختم ہو گئی ہے۔ ان ریاستوں میں بی جے پی کو 2014 کے مقابلے  کئی سیٹوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ دہلی میں، جہاں کانگریس اور عام آدمی کا اتحاد قریب قریب ہو چکا ہے، بی جے پی زیادہ تر سیٹیں ہار سکتی ہے۔ہندی بولنے والے علاقوں سے باہر کی ریاستوں میں بی جے پی کا زیادہ اثر نہیں ہے۔ جنوبی ریاستوں کے اپنے  علاقائی فارمولے  ہیں پھر چاہے وہ تمل ناڈو، تلنگانہ، آندھر پردیش اور کیرل ہو۔ کرناٹک میں بی جے پی کا اثر ہے لیکن کانگریس-جنتا دل (ایس) اتحاد وہاں بی جے پی کے اثر کو ختم کر دے‌گا۔

بی جے پی نے نارتھ ایسٹ کی  آٹھ ریاستوں میں کئی مقامی اتحاد کئے ہیں اور کچھ مہینے پہلے تک پارٹی کو 25 میں سے 22 سیٹوں پر لوٹنے کی امید تھی لیکن مودی حکومت کے متنازعہ شہریت ترمیم بل 2019 کے بعد یہ منصوبہ گڑبڑا گیا۔ حکومت کے اس بل سے لوگوں میں غصہ ہے۔آخری تجزیے میں بی جے پی دس ہندی بولنے والی ریاستوں، گجرات اور مہاراشٹر میں اپنی زیادہ تر لوک سبھا سیٹوں کو بچائے رکھنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ سال 2014 میں بھاری مودی لہر تھی، جو تمام ریاستوں میں یکساں طورپر پھیلی ہوئی تھی لیکن یہ 2019 میں غائب ہے۔ یہ نریندر مودی اور بی جے پی کے لئے تشویش کی اہم کی وجہ بنی ہوئی ہے۔