خبریں

بہار: جیل میں خاتون قیدیوں کے جنسی استحصال کے الزام کے بعد جانچ کمیٹی کی تشکیل

بہار کے مظفر پور کے سینٹرل جیل میں سزا کاٹ چکی ایک خاتون نے گزشتہ دنوں وزیر اعظم کو لکھے خط میں کہا کہ جیل میں خاتون قیدیوں کو جسمانی تعلقات قائم کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور ایسا نہ کرنے پر ان کی بے رحمی سے پٹائی کی جاتی ہے۔

علامتی فوٹو: رائٹرس

علامتی فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی : بہار کے مظفرپور ضلع میں ایک خاتون قیدی نے جیل میں  جنسی استحصال کو لے کر وزیر اعظم کو خط لکھا ہے ۔ اس معاملے کے بعد حلقہ کے ضلع مجسٹریٹ آلوک رنجن گھوش نے 5 رکنی کمیٹی بنائی ہے۔ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، پی ایم او کی ہدایت کے بعد ضلع مجسٹریٹ نے اس کمیٹی کی تشکیل کی ہے۔واضح ہوکہ مظفرپور کی شہید خودی رام بوس سینٹرل جیل میں بند رہی خاتون نے ضلع انتظامیہ کے ذریعے اپنے اور اپنی بیٹی کے جنسی استحصال کو لے کر وزیر اعظم نریند رمودی کو خط لکھا تھا۔ضلع مجسٹریٹ نے کہا کہ ، جانچ کمیٹی کو ایک ہفتے کے اندر اپنی رپورٹ جمع کرنے کو کہا گیا ہے ۔ اس کمیٹی میں آئی سی ڈی سی کی ڈی پی او للیتا کماری ، مشہری کی سی ڈی پی او منجو کماری ، وومین ڈیولپمنٹ کارپوریشن  کے ڈی پی ایم محمد غوث علی حیدر، وومین ہیلپ لائن کی صلاح کار پورنیما کماری اور ادارہ کے سینئر اے ڈی ایم پرتبھا سنہا شامل ہیں ۔

جانچ کیے جانے سے متعلق خط(فوٹو بہ شکریہ : اے این آئی)

جانچ کیے جانے سے متعلق خط(فوٹو بہ شکریہ : اے این آئی)

غور طلب ہے کہ شکایت کرنے والی خاتون ، اس کی بیٹی اور شوہر کو مظفر پور پولیس نے 27 ستمبر 2018 کو مبینہ طور پر جسم فروشی کے معاملے میں گرفتار کیا تھا ۔ تینوں اس سال  26 مارچ کو ہی ضمانت پر رہا ہوئے ہیں ۔رہائی کے فوراً بعد خاتون نے 28 مارچ کو وزیر اعظم کو خط لکھا ، جس میں خاتون نے الزام لگایا تھا کہ جیل سپریٹنڈنٹ  عام طور پر خاتون قیدیوں کا جنسی استحصال کرتا تھا ۔ خاتون نے اپنے خط کی ایک کاپی ریاست کے وومین کمیشن ، وزیر اعلیٰ دفتر اور آئی جی (جیل) کو بھی بھیجی ہے۔دینک بھاسکر کی رپورٹ کے مطابق، وزیر اعظم مودی کو لکھے خط میں خاتون قیدی نے کہا کہ جیل میں خاتون قیدیوں کو جسمانی تعلقات قائم کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے ۔ افسروں اور رائٹر(وہ بندی ، جو جیل انتظامیہ کے آفس میں لکھا –پڑھی کا کام کرتا ہے ) سے رشتہ نہیں بنانے پر پیٹا جاتا تھا، جو اپنے آپ کو حوالے کردیتی ہیں ان کو موبائل سے بات کرنے سمیت دوسری سہولیات دی جاتی ہیں۔

تمام قیدیوں کو شام 6 بجے اندر کر دیا جاتا ہے لیکن رائٹر کو دیر رات باہر رہنے کی چھوٹ ہے ۔ وہ دیر رات خاتون سیل میں آتے ہیں ۔ ان کے ساتھ خاتون قیدی کو دیر رات باہر بھیجا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کا جسمانی استحصال کیا جاتا ہے۔بیٹی کے ساتھ جیل میں بند اس خاتون قیدی کے مطابق افسروں اور رائٹر کے ساتھ رشتہ  نہیں بنانے پر کھانا نہیں دیا جاتا ہے۔انہوں نے اس خط میں کہا ہے کہ ، جیل کے رائٹر مجھے جیل انتظامیہ کے کہے کے مطابق  کام کرنے کو کہتے تھے ۔ انہوں نے میری بیٹی کو جیل افسروں کے پاس بھیجنے کے لیے مجھ پر دباؤ بنایا ۔ جب بھی میں نے انکار کیا وہ بانس کی چھڑی سے ہماری پٹائی کرتے تھے ۔ اس کام میں تین خاتون کانسٹبل بھی تھیں۔

خاتون نے الزام لگایا کہ وہ اس سال 4 مارچ کو پٹائی کے بعدبیہوش ہوگئی تھی کیوں کہ جیل سپریٹنڈنٹ کے پاس اپنی بیٹی کو نہ بھیجنے کو لے کر ایک کانسٹبل نے ان کو بے رحمی سے مارا تھا۔جیل سپریٹنڈنٹ  راجیو کمار سنگھ نے سبھی الزامات سے انکارکیا ہے ۔ آئی جی (جیل ) متھلیش مشرا نے کہا کہ انہوں نے مظفرپور کے ضلع مجسٹریٹ کو اس معاملے کی جانچ کے لیے کہا ہے۔دینک بھاسکر کے مطابق، اس معاملے پر بہار وومین کمیشن نے جانکاری لیتے ہوئے جیل میں جاکر جانچ کرنے اور قصور واروں کے خلاف سخت کارروائی کی بات کہی ہے۔