فکر و نظر

چوروں کے ساتھ جو گھوم رہے ہیں، ان میں کتنے چور ہیں، کتنے چوکیدار؟

’میں بھی چوکیدار‘-اور’چوکیدار ہی چور ہے‘-کے شور میں کئی دوسرے مدعے حاشیے پر چلے گئے ہیں۔

فوٹو بہ شکریہ : یوٹیوب/بھارتیہ جنتا پارٹی

فوٹو بہ شکریہ : یوٹیوب/بھارتیہ جنتا پارٹی

میں بھی چوکیداراورچوکیدار ہی چور ہےسے جڑی  ہوئی بحث، فی الحال، اس لوک سبھا انتخاب کے سینے  پر ایسے سوار ہے کہ کئی دوسرے مدعےحاشیے پر چلے گئے ہیں۔اس چکر میں اور تو اور کئی دانشوروں کو بھی، جو جانتے ہیں کہ اس ملک میں چوکیداروں کا چور ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے، سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ان کی گلیوں میں چوروں کے ساتھ کتنے چوکیدار گھوم رہے ہیں یا جو گھوم رہے ہیں، ان میں کتنے چور ہیں اور کتنے چوکیدار؟کئی دانشور تو تاریخ میں غوطہ لگاکر چوکیداروں کے ذریعے قدیم زمانہ سے ہی کی جاتی رہی چوریوں کے کئی ایسے قصے(پڑھیے واقعہ)نکال لائے ہیں کہ ایک خاص چوکیدار کے ‘کردار’ کو لےکر فکرمند جماعتیں خاصی پریشانی میں پڑ گئی ہیں۔

ویسے بھی کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے یہ کہہ‌کر اس کی غریب پرور امیج کا انکشاف کردیا ہے کہ چوکیدار تو امیروں کے ہوا کرتے ہیں، غریب کی اتنی حیثیت کہاں کہ وہ کسی چوکیدار کا بوجھ اٹھا سکے۔بہر حال، سنسکرت کے جید عالم ڈاکٹر رادھاولبھ ترپاٹھی سے ہی شروع کریں، تو ان کو اس قدیم زبان کے ادب کو جدیدیت کا سنسکار دینے کے لئے جانا جاتا ہے۔ 15 جنوری، 1949 کو مدھیہ پردیش کے راج گڑھ میں پیدا ہوئے ترپاٹھی 1994 میں اپنی نظم کےمجموعہ’ سندھانم ‘کے لئے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازے جا چکے ہیں۔ادھرغزل کے چاہنے والوں میں ان کی کئی سنسکرت غزلیں موضوع  بحث بنے ہوئےہیں، جن میں ایک خاص طور پر چوکیداروں پر ہی مرکوز ہے۔ اس کے ایک شعر میں وہ (سنسکرت میں)کہتے ہیں؛

کوئی ایک چوکیدار نہیں ہے، نہ چور ہی ایک ہے۔ چوروں کے ساتھ گلی گلی میں چوکیدار گھوم رہے ہیں۔

اگلے شعر میں ان کا زور اس بات پر ہے کہ کتنے چور ہیں اور کتنے چوکیدار اس بات کو نہ تو یہ ولبھ جانتا ہے، نہ یہ دانشور لوگ

ایک دوسرےشعر میں ان کا ماننا ہے کہ چوکیدار شاید خود چوری نہیں کرتے۔ وہ تو بلا روک ٹوک چوروں کو موقع دیتے ہیں؛

جس پر مصیبت یہ ہے کہ  بحران کے اس زمانے  میں کبھی کبھی پہچان کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا کہ یہ چوکیدار ہیں اور یہ چور؛

چوکیدار ہیں کہ ادھر تو لوگوں کو بھروسہ دلاتے رہتے ہیں، اور ادھر چوروں کو اشارہ کرکے کھسک لیتے ہیں؛

صاف ہے کہ ان کی نگاہ میں چوکیداروں کی امیج ویسے ہی صاف نہیں ہے جیسے عوام میں پولیس کی۔ ویسے بھی چوکیدار، سب سے چھوٹا ہی صحیح، پولیس کا ہرکارہ ہی ہوتا ہے۔ لیکن چوکیداروں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے وہ کوئی اکیلے ادیب نہیں ہیں۔کوئی سو سال پہلے امریکن شاعرہ مریم ویڈر(1894-1983)نے ‘چوکیدار’عنوان سے ایک نظم لکھی تھی، جس کو کولکاتہ کے انگریزی روزنامہ ٹیلی گراف نے گزشتہ دنوں پہلے صفحہ پر شائع کیا تھا۔ بعد میں ہندی اخبار ‘دیش بندھو’ نے اس  کا ترجمہ شائع کیا۔نظم کہتی ہے کہ چوکیداروں کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ لوگ کیسی بھی مصیبت میں ہوں اور کیسے بھی حالات میں رات کاٹ رہے ہوں، چوکیدار’سب کچھ ٹھیک ہے ‘ کی تکرار لگاتے، چیختے اور کڑوی سچائی سے منھ چھپاتے رہتے ہیں؛

تنگ گلیوں سے گزرتے / دھیمے اور آہستہ قدموں سے / چوکیدار نے لہرائی تھی اپنی لالٹین / اور کہا تھا-سب کچھ ٹھیک ہے

بند جالی کے پیچھے بیٹھی تھی ایک عورت / جس کے پاس اب بچا کچھ بھی نہ تھا بیچنے کے لئے

چوکیدار ٹھٹکا تھا اس کے دروازے پر /اور چیخا تھا اونچی آواز میں-سب کچھ ٹھیک ہے

گھپ اندھیرے میں ٹھٹھر رہا تھا ایک بوڑھا / جس کے پاس نہیں تھا کھانے کو ایک بھی دانہ / چوکیدار کے چلانے پر / وہ ہونٹوں ہی ہونٹوں میں بدبدایا-سب کچھ ٹھیک ہے

سنسان سڑک ناپتے ہوئے گزر رہا تھا چوکیدار/خاموشی میں ڈوبے ایک گھر کے سامنے سے / جہاں ایک بچےکی موت ہوئی تھی

کھڑکی کے کانچ کے پیچھے/جھلملا رہی تھی ایک پگھلتی موم بتی/اور چوکیدار نے چیخ‌کر کہا تھا-سب کچھ ٹھیک ہے

چوکیدار نے گزاری اپنی رات/اسی طرح / دھیمے اور آہستہ قدموں سے چلتے ہوئے / تنگ گلیوں کو سناتے ہوئے / سب کچھ ٹھیک ہے! / سب کچھ ٹھیک ہے!

سینئر صحافی مرنال پانڈے نے وزیر اعظم نریندر مودی کے انتخابی حلقہ وارانسی واقع کاشی کے چوکیداروں کے ذریعے رشوت لےکر قصورواروں کو چھوڑنے کے کئی قصّہ لکھے ہیں۔ان کے مطابق،7ویں-8ویں صدی تک کاشی ایک ثروت مند شہر بن گیا تھا۔ شہر کا کوتوال،چور-ڈاکوؤں کی گرفتاری اور امیروں کی چوکیداری کرتا تھا۔ وارانسی کی طوائفوں کی بھی بڑی شہرت تھی۔ ان میں سے ساما نامی طوائف نے کوتوال کو 1000 کارشاپن کی رشوت  دےکر اپنے ایک ڈاکو عاشق کو چھڑوایا۔ ‘

وہ لکھتی ہیں، اس نگری کے پرانے چوکیدار… یکچھ ہوا کرتے تھے نشچل آنکھوں والے۔ نڈر، کرور اور طبعیتا گھمکڑ جیو… لباس بدلنے میں ماہر اور اکثر پیچھے سے گھات لگاکر حملہ کرنے کی وجہ سے ان کا ایک نام گہئک بھی تھا۔ عوام ان سے خوف کھاتے تھے۔ جین گرنتھ اترادھیئن ایک گنڈی تیڈونگ نام کے یکچھ چوکیدار کی بات بتاتا ہے رشی ماتنگ کے آشرم کا چوکیدار تھا اور مشتبہ سیرت والی خواتین کی پکڑ دھکڑ کرتا رہتا تھا۔ بدلہ لینا اس کی فطرت میں تھا، یہاں تک کہ کئی بار وہ ناراض ہو گیا تو جین یتیوں کو رات میں کھانا کھلاکر ان کا روزہ تڑوا دیتا تھا۔ ‘

‘ متسیہ پُران ‘ میں ذکر ہے کہ ہری کیش نام کے ایک یکچھ کی بھگتی سے خوش شیو نے اس کو کاشی علاقے کا چوکیدار بنا دیا تھا۔ ہرسو برم نام سے آج بھی بھوت یا شیطان سے بچنے کے لئےعوام اس کی پوجا کرتے ہیں۔ شیو مندروں کے باہر اب ہاتھ میں مگدر لئے (مدگرپانی) چوکیداروں کی مورتیاں بھی لگائی جانے لگی ہیں۔

مرنال پانڈے لکھتی ہیں،

18ویں صدی میں کاشی میں…راجا چیت سنگھ کی ایسٹ انڈیا کمپنی سے ٹھنی ہوئی تھی اور غنڈوں، پنڈوں، چوروں، بٹماروں، اچکوں کی بن آئی تھی۔ جب گاؤوں سے لوگ منتقل ہونے لگے تو 1781 میں کمپنی افسر وارین ہیسٹنگس نے دیوانی اور فوجداری معاملات کے دو محکمہ بنوائے اور ریجیڈنٹ کی معرفت ہر گاؤں میں چوکی بٹھاکر وہاں کمپنی کے’اپنے ‘ چوکیدار بٹھوائے تھے۔ کوتوال مرزا بانکے بیگ خاں کو حکم ملا کہ وارنسی میں پانچ چبوترہ بنوائیں۔ ہر چبوترہ پر کچھ ہتھیاربند جاں نشین، کچھ چپراسی اور ایک بھونپے والا ہو۔ ہر رات صدر مسدی میں سارے مسدی چوکیدار جمع ہوکر پھر الگ الگ گلیوں میں گشت کو نکلیں۔ ان مسدیوں کا کام تھا کہ وہ مجرموں کی گرفتاری کے علاوہ سرائے مالکان سے شہر میں آنے-جانے والوں کی بابت سرکار حضور کے لئے جانکاریاں اکٹھی کریں۔ دن میں جوا اور شراب کے اڈوں پر چھاپے ماریں اور علاقے میں پیدائش اورموت کا حساب رکھیں۔ ‘

بات اتنی-سی ہی ہوتی توبھی غنیمت تھی۔ لیکن، لگتا ہے یہ انتظام بھی شہر کے امیر طبقے کے لئے کافی نہیں تھا۔ لہذا اسی بیچ ان کے لئے کرایہ پر حفاظت اور مارپیٹ کی خدمات دینے کو دستیاب ہتھیاربند بانکوں کے چوکیدار جماعتوں کا آغاز ہوا، جو ضرورت ہوئی تو زمین داروں راجواڑوں کے لئے لوٹ پاٹ بھی کر دیتے تھے۔ ان میں ہر ذات کے نوجوان تھے جو سجیلی پوشاکیں پہنے اکڑ‌کر چلتے تھے اور خون خرابے کو مستعد رہتے تھے۔ شہر کا ساہوکار ان کے نشانے پر رہتے تھے جن کو ڈرا-دھمکاکر وہ وصولی کرتے تھے۔ ‘

اس حوالہ سے، 1974 میں’چوکیدار’نام کی ایک فلم آئی تھی-سنجیو کمار، یوگتا بالی، اوم پرکاش اور ونود کھنہ کی اداکاری سے سجی۔ ادھر پون سنگھ اور کاجل راگھوانی کی اداکاری سے سجی بھوجپوری فلم ‘میں ہوں چوکیدار’بھی اپنے جلوے بکھیر رہی ہے۔ لیکن چوکیدار کی’ ایمانداری’کے رکھوالوں کی مشکل یہ کہ ان دونوں میں سے کسی کو بھی دیکھ‌کر چوکیداروں کے متعلق کوئی خاص ہمدردی نہیں پیدا ہوتی۔اس سلسلے میں مزے کی بات یہ ہے کہ بی جے پی کے فیم سبرامنیم سوامی نے جہاں یہ کہہ‌کر چوکیدار یا کہ چو کیداری کے کام کو خراب بتا ڈالا ہے کہ میں تو برہمن ہوں، میں چوکیدار کیسے ہو سکتا ہوں۔

اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بجھے دل سے چوکیدار ہونا قبول‌کرلیا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ‘میں چوکیدار ہوں’مہم میں شامل ہونے پر مجھے فخر ہے۔ ‘ ساتھ ہی ایک نظم بھی شیئر کی-اتر پردیش ہے سنکلپت اور میں تیار ہوں،/جو پریرنا سے ہے بہی، وکاس کی بیار ہوں،/ ہاں، میں بھی چوکیدار ہوںلیکن ان کے ‘سنکلپت ‘اور اتر پردیش کے ‘تیار’ہونے کا سچ یہ ہے کہ ان کی شکل میں ایک اور چوکیدار اپنی خود غرضی کی تکمیل کے لئے ہوا کے ساتھ بہنے کا لالچ بند نہیں کر پایا ہے ورنہ ابھی گزشتہ سال کی جنوری تک ان کو ‘چوکیدار’نام اتنا ناپسند تھا کہ انہوں نے ریاست کے سارے چوکیداروں کے عہدے کا نام بدل‌کر گرام-پرہری کر ڈالا تھا۔

6 جنوری، 2018 کو انہوں نے وارانسی میں کہا تھا، ‘گرام پرہری سرکار کی آنکھ-کان ہیں اور لاء اینڈ آرڈر کی پہلی ذمہ داری ان کی ہے۔ وہ بنیاد کے پتھر ہیں۔ ریاست میں 60 ہزار سے زیادہ گرام پنچایت ہیں۔ ہرایک گرام میں اگر ایک گرام پرہری روزانہ یا ہفتے میں تھانیدار کو رپورٹ دیتا ہے اور تھانیدار اس کو سنجیدگی سے لیتا ہے تو یقین مانیے، لاء اینڈ آرڈر کبھی بگڑے‌گا نہیں۔ ‘

تب کئی حلقوں  میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ نئے ‘گرام پرہری’نام کے لئے تھانیدار سے لےکر حولدار اور دفعدار سے ہوتے ہوئے چوکیدار تک جانے والے مشہورعہدے کےنام کی سیریز کو توڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ پیچھےکی طرف لوٹنے کی اتنی ہی خواہش تھی تو ‘ گرام پرہری’پر ہی کیوں رک گئے، ابھی حال تک بی جے پی کی راجستھان حکومت سے ‘سبق ‘ لےکر ‘پرتہاری’ تک کیوں نہیں چلے گئے؟کیا ان کو معلوم نہیں کہ مدھیہ پردیش میں سانچی کے استوپوں میں ایک پرتہاری مندر بھی ہے؟ ان سے بھلی تو کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں، جو اپنے دربانوں یا کہ گیٹ کیپروں کو ‘ ڈور ایگزیکٹو’ کا عہدہ دےکر وقت سے پیچھے نہیں آگے لے جا رہی ہیں۔

لیکن تب ‘ہندو ایجنڈے’کے خمار میں ان سوالوں کا جواب دینا معقول نہیں سمجھا گیا۔ اور اب چوکیداری کا بخار ایسا تپا رہا ہے کہ کئی لوگ اپنے اس سوال کے جواب سے بھی محروم ہو گئے ہیں کہ کوئی چنا ہوا وزیر اعظم من مانے طور پر خود کو چوکیدار میں بدل لے اور ‘میں بھی چوکیدار’کی رٹ لگانے لگے تو اس کا کیا کیا جائے؟بہر حال، آپ کی جانکاری کے لئے، چانکیہ بہت پہلے نصیحت کر گئے ہیں کہ کوئی چوکیدار سوتا ملے تو اس کو جگا دینا چاہیے۔ آپ چاہیں تو اس کسوٹی کو چوکیدار بنے وزیر اعظم پر بھی نافذ کر سکتے ہیں۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)