فکر و نظر

سادھوی پرگیہ کو امیدوار بنا کر بی جے پی دیکھنا چاہتی ہے کہ ہندوؤں کو کتنا نیچے گھسیٹا جا سکتا ہے

لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس انتخاب میں بی جے پی کا بھروسہ  چھوٹ رہا ہے، اس نے سادھوی کو لاکر برہماستر چلایا ہے۔ یہ امتحان اصل میں بی جے پی کا نہیں ہے، یہ ہندوؤں کا امتحان ہے۔ کیا وہ مذہب کے اس مطلب  کو قبول کرنے کو تیار ہیں؟

2018 میں گجرات کے  سورت میں ایک روڈ شو کے دوران سادھوی پرگیہ  سنگھ ٹھاکر (فوٹو : پی ٹی آئی)

2018 میں گجرات کے  سورت میں ایک روڈ شو کے دوران سادھوی پرگیہ  سنگھ ٹھاکر (فوٹو : پی ٹی آئی)

سادھوی کہلانے والی پرگیہ سنگھ کو بھوپال لوک سبھا انتخابی حلقے سے اپنا امیدوار بناکر بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ قانون پر مبنی سماج کے اصول میں اس کا کوئی یقین نہیں ہے۔پرگیہ سنگھ مالیگاؤں دہشت گرد حملے کی  ملزم ہیں۔ دسمبر 2017 میں ممبئی کی عدالت نے ان کو اس معاملے سے بری کئے جانے کی ان کی عرضی کو خارج کر دیا تھا۔ یہ تب، جب خود این آئی اے نے عدالت کے سامنے پرگیہ سنگھ کی شمولیت پر شک اظہار کیا تھا۔پرگیہ ٹھاکر پر الزام ہے کہ مالیگاؤں دہشت گرد حملے میں ان کی موٹر سائیکل کا استعمال کیا گیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ نہ صرف ان کی موٹر سائیکل کا استعمال بلکہ اس حملے کی سازش میں بھی ان کے شامل ہونے کے ثبوت ہیں۔

یہ سازش تھی ایسی جگہوں پر حملوں کی، جہاں مسلمان زیادہ تعداد میں ہوں۔ عدالت نے کہا تھا کہ اس طرح کی سازش میں کسی کھلے ثبوت کا ملنا ناممکن ہے اور کھلی عدالت میں اس کی پوری تفتیش کی جانی چاہیے۔اس کے پہلے انڈین ایکسپریس کو ایک انٹرویو میں سرکاری وکیل روہنی سالیان بتا چکی تھیں کہ این آئی اے ان پر ملزمین کے خلاف معاملے کو کمزور کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہی تھی۔ وہ اسی وجہ سے اس مقدمہ سے الگ بھی ہو گئیں۔سمجھوتہ ایکسپریس پر دہشت گرد انہ حملے کے معاملے میں ملزمین کو بری کرتے ہوئے جج نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ این آئی اے نے ثبوت قاعدے سے پیش نہیں کئے۔ جج کے تبصرہ سے نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ ایجنسی نے معاملے کو کمزور کیا جس سے ملزم بری ہو جائیں۔

پرگیہ سنگھ، کرنل پروہت وغیرہ کی گرفتاری کے پیچھے پولیس افسر ہیمنت کرکرے کی باریک جانچ اور حوصلہ بھری تفتیش تھی۔ انہوں نے سراغ اکٹھے کئے اور مالیگاؤں حملے میں شامل لوگوں کے درمیان رشتوں کے تار ملاتے ہوئے سازش کی تصویر کھینچی۔ پرگیہ سنگھ اس کا ایک اہم حصہ تھیں۔کرکرے کے خلاف بھی شیوسینا اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی تنظیموں  نے نفرت مہم چلائی۔ یہ کہہ‌کر کہ آخر ہندو کیسے دہشت گرد حملے میں شامل ہو سکتے ہیں؟یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردانہ  تشدد بھی تشدد ہی ہے۔ کیا ہندوؤں میں غنڈہ اور قاتل نہیں؟ دہشت گردی ایک ایسا تشدد ہے جس کو، جتنے لوگ اس وقت تشدد کی زد میں آتے ہیں، ان سے کہیں زیادہ بڑی آبادی کو دہشت میں ڈالنے کے مقصد سے کیا جاتا ہے۔

پھر مالیگاؤں یا سمجھوتہ ایکسپریس کے تشدد کے ملزمین کے لئے بی جے پی کیوں دلیل دے رہی ہے؟ان کے لئے ضمانت مانگتے ہوئے ان کو جسمانی طور پر نااہل اور مریض بتایا گیا تھا۔ ان کی امیدواری کے اعلان پر مالیگاؤں حملے کے شکار لوگوں کے وکیل نے کہا کہ اب وہ کیسے انتخابی تشہیر کے لائق ہو گئی ہیں!کیا ہمیں پرگیہ سنگھ کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے امیدوار چنے جانے پر حیرانی ہے؟ کیا ہمیں اس سے ابکائی آ رہی ہے کہ اب پارلیامنٹ میں ایسے لوگ پہنچ سکتے ہیں؟ کیا یہ تہذیب کے خلاف لگ رہا ہے؟بابری مسجد انہدام کے 27 سال ہو گئے۔ وہ ایک عجب دہشت گرد انہ حملہ تھا جس کا انتظار ملک کی حکومتیں اور عدلیہ بھی کر رہی تھیں۔ اس دہشت گرد کارروائی کی ذمہ داری لینے والے بال ٹھاکرے کو موت کے بعد قومی اعزاز دیا گیا۔

بابری مسجد کو مسمار کرنے والی مہم  کے رہنما کو ہم نے ملک کا نائب ویراعظم بنتے ہوئے دیکھا۔ اور اس کے بعد گجرات قتل عام کے ہیرو کو وزیر اعظم بنتے ہوئے بھی۔ لیکن اس کے بھی پہلے ہندوستان کی سب سے معزز شخصیت گاندھی کے قتل کی سازش میں شامل لیکن سیدھے ثبوت کے فقدان میں چھوٹ نکلنے والے ساورکر کی تصویر پارلیامنٹ میں مؤدبانہ لگائی گئی۔پھر ملک کی  سب سے بڑی ریاست کاوزیراعلیٰ ایک ایسے شخص کو بنایا گیا، جو اپنے مسلمان مخالف ہونے کا اعلان  کھل‌کر  کرتا ہے اور اس کا مزہ بھی لیتا ہے۔ اب تعجب کیوں؟

لوگ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ اس انتخاب میں بی جے پی کا بھروسہ  چھوٹ رہا ہے، اس نے برہماستر چلایا ہے۔ اس سے ہندوؤں کا اپنی طرف پولرائزیشن کر پانے میں وہ کامیاب رہے‌گی، ایسا اس کو یقین ہے۔ پرگیہ سنگھ نے اس انتخاب کو ‘دھرم یدھ’ کہا ہے۔ وہ بھگوا کو سمان  دلانے کا عزم کر رہی ہیں۔یہ امتحان اصل میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا نہیں ہے۔ یہ پارٹی ہندوؤں کی بےعزت‌ کر رہی ہے۔ وہ ان کا امتحان لے رہی ہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ ان کو کتنا نیچے گھسیٹا جا سکتا ہے۔ یہ ہندوؤں کا امتحان ہے۔کیا وہ مذہب کے اس مطلب  کو قبول کرنے کو تیار ہیں؟ اور کیا وہ بی جے پی کے ساتھ نیچے اور نیچے گرتے جانے کو بھی تیار ہیں؟

(مضمون نگار دہلی  یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)