فکر و نظر

رام چندر گہا کا کالم: ’کانگریس کو ووٹ دینا ایک ہزار گایوں کی ہتیا کرنے جیسا…‘

کئی صوبوں میں کانگریس پارٹی گروہ بندی میں پھنسی ہوئی ہے، جہاں لیڈران انفرادی طور پر اپنا اثر و رسوخ جمائے بیٹھے ہیں۔ وہ پارٹی کے بجائے اپنے مفادات حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ وہیں دائیں بازو کی پارٹیاں آج بھی کانگریس اور اس کے لیڈران کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنے میں لگی ہیں۔

علامتی تصویر (فوٹو : رائٹرس)

علامتی تصویر (فوٹو : رائٹرس)

حال ہی میرا جانا نئی دہلی کے ‘آرکائیوز’ میں ہوا۔ جہاں میرے ہاتھ 52-1951 میں ہوئے ملک کے پہلے عام انتخابات  کو لے کر لکھی گئی ایک رپورٹ آ گئی۔ یہ رپورٹ کمل نین بجاج نے تحریر کی ہے، جن کے والد جمنا لال بجاج ایک عظیم محب وطن، انسانیت نواز اور گاندھی جی سے خاصی قربت رکھنے والوں میں شامل تھے۔ کمل نین بجاج خود ایک کامیاب صنعت کار تھے۔ کانگریس سے ان کی ہمدردی تھی۔ پہلے لوک سبھا الیکشن  کے لیے کانگریس نے سیکر (راجستھان) سے انہیں اپنا امیدوار نامزد کیا۔ اس میں انہیں رام راجیہ پریشد کے امیدوار کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس ہار کے بعد انہوں نے پارٹی کے نام 8 صفحات کا ایک نوٹ تیار کیا تھا۔ اس کا عنوان تھا ‘عام چناو کا میرا تجربہ اور راجستھان میں کی جانے والی غلطیاں۔’ آج 67 سال بعد بھی اس نوٹ کی بہت اہمیت ہے اور یہ کئی ایسی باتیں پیش کرتا ہے جو آج بھی کانگریس میں موجود ہیں۔

کمل نین بجاج نے اپنے اس نوٹ کے آغاز میں لکھا ہے ‘کانگریس کے بھیتر ایک دوسرے کے مخالف دو گروپ ہیں۔ ایک گروپ ہیرا لال جی کا ہے، دوسرا ورماجی اور ویاس جی کا ہے۔’ آگے انہوں نے کچھ ناراضگی سے لکھا کہ ‘ان گروپس کے لیڈران پارٹی کارکنان سے کانگریس کے تئیں نہیں بلکہ اپنے لیے ذاتی وفاداری کے خواہش مند رہتے ہیں۔ ان کے لیے پارٹی دوسرے نمبر پر ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پارٹی کے اچھے کارکنان میں سے کچھ پیچھے دھکیل دیے گئے اور ایسے لوگ جن کی شبیہ داغدار تھی، جنہوں نے پارٹی کے لیے کوئی کام نہیں کیا تھا، انہیں موقعہ دے دیا گیا۔ آپسی چپقلش اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر پیدا ہونے والی نااتفاقی دور کرنے میں رہنماؤں کا وقت اور توانائی صرف ہونے لگی۔ اس سے تنظیم کو خاصہ نقصان ہوا اور سرکار و عوام کے بیچ رابطہ نہ رہ پایا۔ یہاں تک کہ سرکار کے ذریعے کرائے گئے فلاحی کاموں کا بھی کچھ خاص اثر نہ ہو پایا۔ کانگریس عوام کو یہ سمجھانے تک میں ناکام رہی کہ الیکشن  میں اس کے نمائندے کو منتخب کرنے سے کیا فائدے ہوں گے۔’

اندرونی طور پر ایک دوسرے سے بر سرپیکار لیڈران کی وجہ سے راجستھان میں کانگریس کو ایک جنگ تو پارٹی کے بھیتر ہی لڑنا پڑ رہی تھی۔ دوسرے اس کا سامنا دائیں بازو کے خیالات سے متاثر رام راجیہ پریشد سے تھا۔ راجستھان کے اعلیٰ طبقات میں پریشد کا خاصہ اثر تھا اور حقیقت میں تو وہاں کا جاگیردار طبقہ ہی اس کی فنڈنگ بھی کرتا تھا۔ کمل نین بجاج کے مطابق رام راجیہ پریشد ‘گمراہ کن اور جھوٹا پروپیگنڈا’ کر رہی تھی۔ اس کے لیڈران ‘کھلے عام کہتے تھے کہ کانگریس کو ووٹ دینا ایک ہزار گایوں کی ہتیا کرنے جیسا ہے، جبکہ رام راجیہ (پریشد) کو ووٹ دینا ایک ہزار گایوں کی سیوا کاریہ کا پنیہ کمانا ہے۔’

اس کے بعد کمل نین بجاج ان حربوں کی جانب آتے ہیں، جو ووٹ ہتھیانے کے لیے آزمائے گئے تھے۔ انہوں نے لکھا ہے، ‘رام راج کے نام پر ووٹ دینے کے لیے، خوب رقم بانٹی گئی۔ برہمنوں تک یہ پیسے خاص طور سے پہنچائے گئے تھے۔ بچوں کو مٹھائی دی جاتی تھی تاکہ وہ رام راج کے نعرے لگاتے رہیں۔ یہاں تک کہ رام راج کے لیے کام کر رہے ورکرس نے ہریجنوں کو بھی ووٹ کے بدلے رقم کا آفر دیا تھا، لیکن کچھ جگہ ہریجنوں نے یہ آفر ٹھکراتے ہوئے کہا کہ ووٹ تو وہ کانگریس کو ہی دیں گے۔’

کمل نین بجاج نے اس رپورٹ میں الیکشن کو ہنسا کے ذریعے متاثر کرنے کے معاملات کا ذکر یوں کیا ہے: ‘کئی بوتھ کے آس پاس رام راج کارکنان کھلے عام ہاتھوں میں لاٹھیاں یا ننگی تلواریں لیے گھوم رہے تھے۔ وہ ووٹرس سے کہہ رہے تھے کہ اگر رام راج کو ووٹ دوگے تو ہی اندر جانا، ورنہ انہوں نے دیگر ووٹرس کو واپس جانے کا کہہ دیا…ان رام راج کارکنان نے غریب اور کم پڑھے لکھے ووٹرس کو دھمکایا کہ ان کی بات نہ مانی تو وہ ان کا جینا دوبھر کر دیں گے۔ اس کے باوجود عام خیال یہی تھا کہ کانگریس کو فتح نصیب ہوگی اور سرکار اسی کی بننے والی ہے سو اس حلقے میں، یہاں تک کہ جاگیرداروں کے علاقے میں بھی پارٹی کچھ ووٹ پانے میں کامیاب رہی۔’

کمل نین بجاج کے مطابق زمینداروں و بااثر طبقات کے اثر کو دیکھتے ہوئے پولیس بھی بھید بھاو کرتی تھی۔ اس بابت ان کا مشاہدہ تھا کہ، ‘چناو کے دوران مجھے یہ محسوس ہوا کہ اپنے افسران سمیت پولیس کا ایک طبقہ جاگیرداروں کی حمایت یافتہ عناصر کی بالواسطہ مدد کر رہا ہے۔ جس سے وہ لوگ خوف و دہشت کا ماحول بنا لیتے ہیں۔’ اسی طرح انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کا شبہ بھی ظاہر کرتے ہوئے لکھا، ‘مجھے پکا شک ہے کہ بیلیٹ باکسز اور کانگریس کے ووٹس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اور کسان سبھا کے باکسز میں بھی کچھ جوڑتوڑ کیا گیا ہے۔’

یہ سب کمل نین بجاج نے ملک کے پہلے عام چناو کی بابت لکھا ہے، جس میں بالغ عوام نے عالمی معیار پر اپنے حق رائے دہندگی کا پہلی دفعہ استعمال کیا تھا۔ اس وقت ملک میں سترہویں چناو ہو نے والے ہیں۔ اتنا وقت گزر جانے، رائے دہندگان کی تعداد میں بھاری اضافہ ہو جانے نیز بڑے پیمانے پر معاشی و معاشرتی تبدیلیاں آ جانے کے باوجود کمل نین بجاج نے 1952 میں جو تحریر کیا ہے، سنہ 2019 تک آتے آتے بھی وہ بہت کچھ بدلا نہیں ہے۔

کئی صوبوں میں کانگریس پارٹی گروہ بندی میں پھنسی ہوئی ہے، جہاں لیڈران انفرادی طور پر اپنا اثر و رسوخ جمائے بیٹھے ہیں۔ وہ پارٹی کے بجائے اپنے مفادات حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ وہیں دائیں بازو کی پارٹیاں آج بھی کانگریس اور اس کے لیڈران کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنے میں لگی ہیں۔ وہ زور شور سے انہیں ‘ہندو مخالف’ ٹھہراتی ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس طرح کی باتیں منہ در منہ پھیلانے کے بجائے اب وہاٹس ایپ یا سوشل میڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس دوران انتخابات میں پیسے اور پیسے کی طاقت کا استعمال ڈرامائی انداز میں کافی بڑھ گیا ہے۔ دوسری جانب ایک شعبہ ایسا بھی ہے جس میں تنزل آنے کے بجائے ترقی نظر آ رہی ہے۔ وہ ہے ووٹوں کی گنتی کا معاملہ۔ اب الکٹرانک ووٹنگ مشین یعنی ای وی ایم آ گئی ہیں۔ اس لئے ووٹ آسانی سے نہ صرف گنے جاتے ہیں بلکہ اس مشین سے چھیڑ چھاڑ کرنا بھی بہت آسان نہیں ہے۔

فرانسیسی کا ایک مشہور مقولہ ہے، جسے یوں کہا جا سکتا ہے: جتنی زیادہ تبدیلیاں آئیں، اتنے ہی وہ غیر مبدل رہے۔ اسے 1952 کی اس رپورٹ میں دیا گیا کمل نین بجاج کا یہ ریمارک اور مستحکم کرتا ہے، جس پر میں اپنی بات ختم کر رہا ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے: ‘سرکاری حلقوں میں پیر پسار چکی بدعنوانی سے لوک بہت نالاں تھے۔’

پس نوشت: 1957 میں ہوئے اگلے الیکشن  میں کمل نین بجاج کو سیکر کے بجائے وردھا (مہاراشٹر) سے ٹکٹ دیا گیا۔ جہاں وہ الیکشن  جیت گئے۔ تب انہوں نے ہندوستانی انتخابات کے لیے ایک نیا محاورہ گڑھا، محفوظ سیٹ کے لیے کسی کمزور امیدوار کی تلاش۔

(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)