فکر و نظر

این اے پی ایس : 20 لاکھ نوجوانوں کو کرنا تھا روزگار کے لئے تیار، ہوئے صرف 2.90 لاکھ

مودی حکومت کے دعوے اور ان کی زمینی حقیقت پر اسپیشل سریز: 2016 میں مرکزی حکومت کے ذریعے شروع کی گئی اس اسکیم کا مقصد روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور نوجوانوں کو تربیت دے کر ان کو روزگار دینا تھا۔ آر ٹی آئی سے ملی جانکاری کے مطابق 31 مارچ 2018 تک 20 لاکھ ٹرینی کو تیار کرنے کا ہدف تھا، جس میں سے صرف 2.90 لاکھ ٹرینی تیار ہوئے۔ ان میں سے بھی محض 17493 کو اس اسکیم کا فائدہ ملا۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی : ہندوستان واقعی دنیا کا ایک عجوبہ  ملک ہے۔ یہاں بےروزگاری بھی ایک بہت بڑا روزگار ہے۔ خاص طور پر سیاست اور نوکرشاہی کے لئے۔ بےروزگاری نہ ہوتی تو ہزاروں کروڑ روپے کا منریگا نہ ہوتا اور منریگا کے نام پر مچی لوٹ نہ ہوتی۔ایک ایسی لوٹ، جس نے پنچایت کی سطح پر بد عنوانی کو ادارہ کی شکل دے دیا۔ بےروزگاری نہ ہوتی تو دو کروڑ نوکری ہرسال دینے کا وعدہ نہ ہوتا اور یہ وعدہ نہ ہوتا تو شاید نریندر مودی کی اکثریت والی حکومت نہ ہوتی۔چونکہ، ملک میں بےروزگاری کی روایت مسلسل جاری ہے۔ اس لئے، مودی حکومت نے پھر سے ایک اسکیم بنا دی۔ لیکن، اس اسکیم کا حشر کیا ہوا؟ آیئے، اس کی تفتیش کرتے ہیں۔

حکومت ہند نے 19 اگست 2016 کو 10000 کروڑ روپے کے ساتھ ایک اسکیم شروع کی۔اس اسکیم کا نام تھاNational Apprenticeship Promotion Scheme(این اے پی ایس)۔ اس اسکیم کا خاص مقصد روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور نوجوان طبقے کو تربیت دے کر ان کو روزگار فراہم  کرنا ہے۔اس اسکیم کے تحت، ماہوار تنخواہ پر ٹرینی کو رکھنے والی کمپنیوں کو اسٹائپینڈ کا 25 فیصد (جو زیادہ سے زیادہ 1500 روپے فی ماہ فی اپرینٹس) مرکزی حکومت کے ذریعے ادا کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، 500 گھنٹے تک کی ٹریننگ دینے والے بنیادی ٹریننگ پرووائیڈرس کو حکومت 25 فیصد بھرپائی [Reimbursement] دے‌گی، جو زیادہ سے زیادہ 7500 روپے ہوگا۔

wada faramoshi

مودی حکومت نے یہ ہدف رکھا کہ 2016سے2017 کے مالی سال کے دوران پانچ لاکھ ٹرینی کو تربیت دی جائے اور 2017سے18 میں 10 لاکھ اور 2018سے2019 میں 15 لاکھ ٹرینی کو تربیت دی جائے اور اسی طرح سالانہ  ٹرینی کی تعداد میں اضافہ کی جائے۔2020 تک 50 لاکھ ٹرینی کو تیار کئے جانے کا ہدف رکھا گیا۔ غور طلب ہے کہ سال 2015سے16 تک صرف 2.1 لاکھ ٹرینی کو ہی تیار کیا گیا تھا۔اس ہدف کو پانے کے لئے حکومت نے چار ریاستوں میں کام کرنے والی مرکزی حکومت کےپی ایس یواور بڑے پرائیویٹ بزنس کے ذریعے اپرینٹسشپ کرانے کے لئے ریجنل ڈائریکٹریٹ آف اپرینٹسشپ ٹریننگ (آر ڈی اے ٹی) کا استعمال کیا۔

اس کے علاوہ اسٹیٹ اپرینٹسشپ ایڈوائزرس کو بھی اپنی-اپنی ریاستوں میں اس اسکیم کو نافذ کرنے کا کام دے دیا گیا۔ یہ بات غور کرنے والی ہے کہ اس ملک میں 21 لاکھ مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائیزز (ایم ایس ایم ای) موجود ہیں۔ہر ایسے ادارہ میں کم سے کم 6 لوگ کام کر رہے ہیں۔ اگر ہرایک ادارہ ایک ٹرینی کو بھی کام پر رکھ‌کر روزگار فراہم کرتا، تو ملک کے تربیت یافتہ کام کرنے والوں  کی تعداد میں 21 لاکھ لوگ اور جڑ جاتے۔ اب آئیے این اے پی ایس کی اصلیت پر ذرا غور کرتے ہیں۔13 جون 2018 کو ایک آر ٹی آئی کے ذریعے ڈائریکٹریٹ جنرل آف ٹریننگ، Ministry of Skill Development and Entrepreneurship سے پتہ لگا کہ دو سال میں صرف 47358 کمپنیاں این اے پی ایس میں رجسٹرڈہوئیں۔

اس اسکیم میں تربیت کے لئے 4.09 لاکھ طالب علموں نے اپلائی کیا تھا۔ لیکن، حکومت کا جواب آیا کہ ان میں سے صرف 2.90 لاکھ ہی اس تاریخ تک کام میں لگائے جا سکیں۔ اس کا مطلب جو ہدف رکھا گیا تھا، اس کا تقریباً 15 فیصد ہی پورا کیا جا سکا۔

اسکیم میں کتنے پیسے لگائے گئے اور اس کا کیا اور کتنا استعمال ہوا؟

13 جون 2018 کو ملے آر ٹی آئی جواب سے یہ پتہ لگا کہ حکومت نے اس کام کے لئے 25 ریاستوں اور یونین ٹیریٹری ریاستوں میں 69.50 کروڑ روپے لگائے۔ خاص بات ہے یہ ہے کہ مغربی بنگال، راجستھان اور تریپورہ کو چھوڑ‌کر باقی نارتھ ایسٹ  ریاستوں کو اس اسکیم میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔11 ریاست، جن میں جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ اور کرناٹک شامل ہیں اور جن کو اس اسکیم کے تحت پیسہ مل چکا تھا، 13 جون 2018 تک اس پیسے کو خرچ نہیں کر پائے تھے۔باقی کے جن ریاستوں نے اس اسکیم کے تحت ملے فنڈ کو خرچ کیا، وہاں بھی ہمیں کچھ چونکانے والی حقائق نظر آئے۔

ہریانہ کو اس اسکیم کے تحت 33.26 کروڑ روپے ملے تھے، لیکن آر ٹی آئی کے تحت جواب ملنے کی تاریخ تک ہریانہ نے 32 اداروں میں کام کر رہے 241 ٹرینی پر 59.84 لاکھ روپے خرچ کئے۔یعنی، ایک ٹرینی پر 24831 روپے خرچ کئے گئے۔ مہاراشٹر نے 2812 ٹرینی پر 1.79 کروڑ روپے خرچ کئے۔ یعنی، ایک ٹرینی پر 6385 روپے خرچ ہوئے۔غور طلب ہے کہ مہاراشٹر کو اس اسکیم کے تحت 19.76 کروڑ روپے ملے ہیں، جو اس اسکیم کے تحت ملنے والی دوسری سب سے بڑی رقم ہے۔ سب سے زیادہ رقم گجرات کو ملی ہے، 20.91 کروڑ روپے۔ گجرات میں بھی ایک ٹرینی پر اوسطاً 7866 روپے کا خرچ آیا۔

اس کا مطلب ہے کہ اس اسکیم کے تحت مختص کل 70 کروڑ روپے کا صرف 20 فیصد رقم ہی خرچ ہو ا ہے۔ 2017سے18 میں مرکزی حکومت نے اس رقم کو پانچ ریاستوں کے لئے گھٹاکر صرف 18 کروڑ کر دیا۔اس بار راجستھان کو بھی آندھر پردیش، ہریانہ، تمل ناڈو اور کیرل کے ساتھ شامل کیا گیا۔ اس کے علاوہ، حیدر آباد، کانپور، ممبئی، کولکاتہ، فریدآباد اور چنئی میں واقع ریجنل ڈائریکٹوریٹس آف اپرینٹسشپ ٹریننگ کو اس اسکیم کے لئے 20.28 کروڑ دئے گئے۔

لیکن، اس پیسے کے استعمال کو لےکر کوئی اطلاع موجود نہیں ہے۔آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اسکیم پوری طرح سے فلاپ ثابت ہوئی۔ 10000 کروڑ روپے کے کل مختص میں سے صرف 108 کروڑ روپے اب تک تقسیم ہوئے۔31 مارچ 2018 تک 20 لاکھ ٹرینی کو تیار کرنے کا ہدف تھا، لیکن اس میں سے صرف 2.90 لاکھ ٹرینی ہی تیار ہوئے اور ان میں سے بھی 2018 تک صرف 17، 493 کو اس اسکیم کے تحت فائدہ ملا۔

تو سوال ہے کہ کہاں گیا ہدف؟ کہاں گیا پیسہ؟ کہاں گیا وژن؟ اس سب کا جواب بس اتناہی ہو سکتا ہے کہ اس ملک میں کچھ بچے نہ بچے، بےروزگاری بچی رہنی چاہیے۔ کیونکہ، بےروزگاری ہی اس ملک کی سیاست کے لئے آکسیجن ہے، ایندھن ہے۔ بےروزگاری نہ ہوگی تو سمجھیے کہ سیاست بھی نہ ہوگی۔

(مودی حکومت کی اہم اسکیموں کا تجزیہ  کرتی کتاب وعدہ-فراموشی کے اقتباسات خصوصی اجازت کے ساتھ شائع کیے جا رہے ہیں ۔ آرٹی آئی سے ملی جانکاری کے مطابق یہ کتاب سنجے باسو ، نیرج کمار اور ششی شیکھر نے مل کر لکھی ہے۔)