خبریں

5 لوگوں کے قتل کے معاملے میں بی جے پی ایم ایل اے کو عمر قید

سزا کا اعلان ہوتے ہی بی جے پی ایم ایل اے اشوک سنگھ چندیل کورٹ سے فرار ہو گئے ۔ہائی کورٹ نے ایم ایل اے اور دیگر ملزمین کو پولیس کسٹڈی میں لینے کا حکم دیا ہے۔

فوٹو: اشوک چندیل فیس بک

فوٹو: اشوک چندیل فیس بک

نئی دہلی: اتر پردیش کے ہمیر پور سے بی جے پی کے ایم ایل اے اشوک سنگھ چندیل کو الہ آباد ہائی کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔دراصل ہائی کورٹ 22 سال پرانے قتل معاملے کی شنوائی کر رہا تھا اور اس معاملے میں اشوک سنگھ چندیل کو مجرم قرار دیتے ہوئے یہ سزا سنائی گئی ہے۔غور طلب ہے کہ اشوک سنگھ چندیل پر 26 جنوری 1997 کو دن دہاڑے5 لوگوں کے قتل کا الزام تھا۔اس معاملے میں ہائی کورٹ نے بی جے پی ایم ایل اے سمیت 10 دوسرے لوگوں کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزا کا اعلان کیا۔

چندیل کے علاوہ رگھوویر سنگھ، آشوتوش سنگھ عرف ڈبو، صاحب سنگھ،بھان سنگھ،پردیپ سنگھ،اتم سنگھ،شیام سنگھ وغیرہ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔جسٹس رمیش سنہا اور جسٹس ڈی کے سنگھ کی بنچ نے اس معاملے میں سزا سنائی۔ عدالت نے سبھی مجرموں کو فوراً حراست میں لیے جانے کا حکم بھی دیا ہے۔

این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق؛اس معاملے میں متاثرہ راجیو شکلا نے بتایا کہ’26 جنوری 1997 میں میری فیملی کے 3 ممبروں سمیت 5 لوگوں کا قتل ہوا تھا۔اس میں میرے بڑے بھائی راجیش شکلا،راکیش شکلا،راکیش کے بیٹےگنیش کے علاوہ وید پرکاش نایک اور شری کانت پانڈے شامل تھے۔ وید پرکاش اور شری کانت ہمارے نجی سکیورٹی اہلکار تھے۔’

انھوں نے بتایا،’نچلی عدالت کے ججوں نے پیسے لے کر معاملے میں سبھی کو بری کر دیا تھا۔بعد میں جانچ ہونے پر دو ججوں کو برخاست کر دیا گیا تھا۔’انھوں نے اسے نہ انصافی کے خلاف جیت بتایا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں مجرم کو پھانسی ہونی چاہیے تھی۔

غور طلب ہے کہ اس معاملے میں ایم ایل اے اشوک سنگھ سمیت 12 نامزد مجرموں کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا۔مقدمے میں ایم ایل اے سمیت11لوگوں کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے ذریعے بری کرنے کے بعد راجیو شکلا نے معاملے کی اپیل الہ آباد ہائی کورٹ میں کی تھی۔ اس معاملے میں سیشن کورٹ نے ایک ملزم رکو کو عم قید کی سزا سنائی تھی۔

دینک جاگرن کی ایک خبر کے مطابق؛سزا کا اعلان ہوتے ہی ایم ایل اے اشوک سنگھ چندیل کورٹ سے فرار ہو گئے ہیں۔ہائی کورٹ نے ایم ایل اے اور دیگر ملزمین کو پولیس کسٹڈی میں لینے کا حکم دیا ہے۔ اس معاملے میں شنوائی پوری ہونے کے بعد کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔