خبریں

چیف جسٹس پر سپریم کورٹ کی سابق جونیئر کورٹ اسسٹنٹ نے لگائے جنسی استحصال اور ذہنی تشدد کے الزام

سپریم کورٹ کے 22 ججوں کو بھیجے گئے حلف نامہ میں سپریم کورٹ کی سابق جونیئر کورٹ اسسٹنٹ نے الزام لگایا ہے کہ اکتوبر 2018 میں سی جے آئی جسٹس رنجن گگوئی نے اپنے گھر پر بنے آفس میں اس کے ساتھ بد سلوکی کی تھی، جس کی مخالفت کرنے کے بعد ان کو اور ان کی فیملی کو ٹارچر کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے سکریٹری جنرل نے کیا  الزامات سے انکار۔

جسٹس رنجن گگوئی/فوٹو: پی ٹی آئی

جسٹس رنجن گگوئی/فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: سپریم کورٹ کی ایک سابق ملازم نے جمعہ کو سپریم کورٹ  کے 22 ججوں کو خط لکھ‌کر الزام لگایا ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی)جسٹس رنجن گگوئی نے اکتوبر 2018 میں ان کا جنسی استحصال کیا تھا۔35 سالہ یہ خاتون عدالت میں جونیئر کورٹ اسسٹنٹ کے عہدے پر کام کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے ذریعے ان کے ساتھ کئے ‘ قابل اعتراض سلوک ‘ کی مخالفت کرنے کے بعد سے ہی ان کو، ان کے شوہر اور فیملی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔

سی جے آئی پر لگے ان الزامات پر سپریم کورٹ کو بھیجے گئے صحافیوں کے سوال پر سپریم کورٹ  کے سکریٹری جنرل کی طرف سے بھیجے گئے ای میل میں ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ پوری طرح سے جھوٹے اور توہین آمیز ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ‘ بہت ممکن ہے کہ ادارے کو بدنام کرنے کے ارادے سے ان سب کے پیچھے شاطر طاقتوں کا ہاتھ ہو۔ ‘

خاتون کے مبینہ استحصال کا یہ واقعہ 11 اکتوبر 2018 کا ہے، جب وہ سی جے آئی کے گھر پر بنے ان کے دفتر میں تھیں۔ انہوں نے لکھا ہے، ‘ انہوں نے مجھے کمر کے دونوں جانب سے پکڑ‌کر گلے لگایا اور اپنے بازوؤں سے مجھے پورے جسم پر چھوا، اور اپنے کو مجھ پر لاد‌کر مجھے جکڑسا لیا۔ پھر انہوں نے کہا ‘ مجھے پکڑو۔ ‘ میری ان کی جکڑ سے نکلنے کی کوششوں اور بت-جیسے ہو جانے کے باوجود انہوں نے مجھے جانے نہیں دیا۔ ‘

خاتون نے اپنے حلف نامہ میں لکھا ہے کہ ان کے ایسا کرنے کے بعد ان کا مختلف محکمہ جات میں تین بار تبادلہ ہوا اور دو مہینے بعد دسمبر 2018 میں ان کو برخاست کر دیا گیا۔ انکوائری رپورٹ میں اس کی تین وجہ دی  گئی، جن میں سے ایک ان کا ایک سنیچر کو بنا اجازت کے کیزول لیو لینا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ استحصال ان کی برخاستگی پر ہی نہیں رکا، بلکہ ان کی پوری فیملی کو اس کا شکار ہونا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر اور شوہر کا بھائی، دونوں دہلی پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل ہیں، کو 28 دسمبر 2018 کو سال 2012 میں ہوئے ایک کالونی کے جھگڑے کے لئے درج ہوئے معاملے کی  وجہ سے برخاست  کر دیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں سمجھوتہ ہو چکا تھا۔ ان کے شوہر کے ایک اور بھائی، جو معذور  [differently able] ہیں، کو 9 اکتوبر 2018 کو سی جے آئی نے اپنے خصوصی اختیارات سے سپریم کورٹ میں نوکری دلوائی تھی، ان کو بھی جنوری 2019 میں نوکری سے نکال دیا گیا۔ اس کے لئے کوئی وجہ نہیں دی گئی۔سی جے آئی کے دفتر کو کال کرنے کے لئے ان کے شوہر کے خلاف بھی شکایت درج کروائی گئی ہے۔

اس کے بعد 9 مارچ 2019 کو جب یہ خاتون راجستھان میں اپنے شوہر کے گاؤں میں تھیں، تب دہلی  پولیس دھوکہ دھڑی کے ایک معاملے میں پوچھ تاچھ کرنے کے لئے ان کو لینے پہنچی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے 2017 میں شکایت گزار سے سپریم کورٹ میں نوکری دلانے کے عوض میں 50 ہزار روپے کی رشوت لی تھی، لیکن نوکری نہیں ملی۔

انہوں نے حلف نامہ میں بتایا ہے کہ اگلے دن نہ صرف ان کو اور ان کے شوہر کو، بلکہ ان کے شوہر کے بھائی، ان کی بیوی اور ایک دوسرے مرد رشتہ دار کو تلک مارگ تھانے میں حراست میں لیا گیا۔انہوں نے الزام لگایا ہے کہ تھانے میں نہ صرف ان کے ساتھ گالی-گلوج اور مارپیٹ ہوئی، بلکہ ان کے ہاتھ اور پیروں میں ہتھکڑی لگائی گئی اور تقریباً 24 گھنٹوں تک بھوکاپیاسا رکھا گیا۔ اس کے بعد خاتون کو ایک دن کے لئے تہاڑ جیل بھی بھیجا گیا تھا۔

12 مارچ 2019 کو ان کو ضمانت ملی۔ انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں اس معاملے کو کرائم برانچ کو سونپا گیا ہے اور انہوں نے پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں ان کی ضمانت خارج کرنے کی عرضی دی ہے۔ معاملے میں اگلی سماعت 24 اپریل 2019 کو ہونی تھی۔خاتون کا الزام ہے کہ رشوت کے معاملے میں ان کے شوہر پر بھی الزام طے کئے گئے ہیں، لیکن اس میں مبینہ رشوت دینے والے شکایت گزار کا نام نہیں ہے۔

خاتون کے ذریعے ایک حلف نامہ میں ان کی آپ بیتی بتانے کے ساتھ کئی دستاویز بھی دئے گئے ہیں۔ ان میں دئے گئے ویڈیو فوٹیج میں دکھتا ہے کہ پولیس تھانے میں بیٹھے خاتون کے شوہر کے ہاتھ میں ہتھکڑی لگی ہے۔ساتھ ہی کئی سرکاری دستاویزوں کی کاپی اور فوٹوگراف بھی ہیں، جن کو سپریم کورٹ کے تقریباً دو درجن ججوں کے پاس بھیجا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس بارے میں مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اور دہلی پولیس کے کمشنر امولیہ پٹنایک کو بھی جانکاری دی گئی تھی۔

سپریم کورٹ کا رد عمل

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

ان الزامات کے بارے میں کئی میڈیا اداروں کے ذریعے سی جے آئی کو سوال بھیجے گئے تھے، جن کا جواب سنیچر کی صبح تقریباً3:30 بجے ایک کامن ای میل کے ذریعے دیا گیا۔اس ای میل میں سپریم کورٹ کے سکریٹری جنرل کے ذریعے ان الزامات کو فرضی بتاتے ہوئے ان کی تردید کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘اس خاتون کو ‘اصول کے مطابق ہی ان کی خدمات سے برخاست کیا گیا ہے۔ ‘ای میل میں کہا گیا ہے کہ ‘سی جے آئی کےسکریٹریٹ کے ذریعے سکریٹری جنرل کو خاتون کے غیر مناسب سلوک کے بارے میں شکایت بھیجی گئی تھی، جس کی وجہ سے ان کا تبادلہ کیا گیا۔ اس غیر مناسب سلوک کی رسمی شکایت کے علاوہ سکریٹریٹ کے ذریعے خاتون کے کئی اور غلط سلوک کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ ‘

حالانکہ ان کے خلاف ہوئی انکوائری کا یکطرفہ [Ex-Parte] ہونے کے بارے میں انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی جوڑا کہ سپریم کورٹ میں کام کر رہے ان کے شوہر کے بھائی کو ان کی’کارکردگی اور سلوک ‘سے غیر مطمئن ہونے کی وجہ سے کام سے ہٹایا گیا۔یہ پوچھنے پر کہ فون کال کی وجہ سے خاتون کے شوہر کے خلاف شکایت کیوں درج کروائی گئی، ان کا کہنا تھا کہ ‘کوئی بھی سی جے آئی کے دفتر میں نام نہاد کال وغیرہ نہیں کر سکتا، خاص طور پر کسی ایسے ملازم کا شوہر، جس کو برخاست کر دیا گیا ہو اور جس کا سلوک غلط رہا ہو۔ ‘انہوں نے کہا کہ ان جھوٹے اور توہین آمیز الزامات کے پیچھے کا مقصد نقصان پہنچانے کا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ الزام ‘سوچی-سمجھی حکمت عملی’کے تحت لگائے گئے ہیں کیونکہ برخاستگی سے پہلے خاتون کی ایسی کوئی شکایت نہیں تھی۔

انہوں نے کہا،’ایسا لگتا ہے کہ ان جھوٹے الزامات کو، کسی بھی طرح سے ان مختلف قانونی کارروائیوں سے باہر نکلنے کے لئے دباؤ کی حکمت عملی کے طو رپر استعمال کیا جا رہا ہے، جو ان کے اور ان کی فیملی کے غلط کاموں کے خلاف ہوئی ہیں۔ ‘انہوں نے آگے کہا کہ ‘بہت ممکن ہے کہ اس کے پیچھے کوئی شاطر طاقتیں ہوں، جن کا مقصد ادارہ کو بدنام کرنا ہو۔ ‘

سپریم کورٹ  نے کی سماعت، کہا-عدلیہ کی آزادی’خطرے ‘میں

خاتون کے ذریعے لگائے گئے جنسی استحصال کے الزامات کو لےکر سنیچر کو سپریم کورٹ نے خصوصی سماعت کی۔ 22 ججوں کو بھیجے خاتون کے حلف نامہ کے عام ہونے کے بعد چیف جسٹس گگوئی کی قیادت میں تین ججوں کی بنچ کی تشکیل کی گئی۔ سی جے آئی کی عدالت نمبر ایک میں سماعت کے دوران الزامات سے آزردہ سی جے آئی نے کہا، ‘ الزام بھروسے کے لائق نہیں ہیں۔ ‘انہوں نے کہا،’یہ ناقابل یقین ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ان الزامات کی تردید کرنے کے لئے مجھے اتنا نیچے اترنا چاہیے۔ جج کے طور پر 20 سال کی بےلوث خدمات کے بعد میرا بینک بیلنس 6.80 لاکھ روپے ہے۔ کوئی مجھے پیسوں کے معاملے میں نہیں پکڑ سکتا، لوگ کچھ ڈھونڈنا چاہتے ہیں اور ان کو یہ ملا۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘اس کے پیچھے کوئی بڑی طاقت ہوگی، وہ سی جے آئی کے دفتر کو غیر فعال کرنا چاہتے ہیں لیکن میں اس کرسی پر بیٹھوں‌گا اور بنا کسی ڈر کے عدلیہ سے جڑے اپنا فرض پورا کرتا رہوں‌گا۔ ‘سی جے آئی نے کہا، ‘میں نے آج عدالت میں بیٹھنے کا  غیر معمولی قدم اٹھایا ہے کیونکہ چیزیں بہت آگے بڑھ چکی ہیں۔ عدلیہ کو قربانی کا بکرا نہیں بنایا جا سکتا۔ ‘

اس بنچ میں جسٹس ارون مشرا اور جسٹس سنجیو کھنہ شامل تھے۔ عدالت  کے جنرل سکریٹری سنجیو سدھاکر کلگانوکر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کئی ججوں کو ایک خاتون کے خط حاصل ہوئے ہیں۔ساتھ ہی کہا کہ خاتون کے ذریعے لگائے گئے تمام الزامات  بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بری نیت سے لگائے گئے  الزامات ہیں۔ ‘

عدالت نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی ‘بےحد خطرے ‘ میں ہے۔ ساتھ ہی کہا کہ وہ اس بات کو میڈیا کے صواب دید پر چھوڑتی ہے کہ سی جے آئی کے خلاف جنسی استحصال کے الزامات کے متعلق ذمہ دار طریقے سے پیش آنا ہے۔غور طلب ہے کہ اس بنچ کی تشکیل اس وقت کی گئی جب سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے جسٹس گگوئی کے خلاف جنسی استحصال کے الزام لگنے کے متعلق افسروں کو بتایا۔ خصوصی سماعت سنیچر کی صبح شروع ہوئی تھی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا سے ان پٹ کے ساتھ)

پوری رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔