عالمی خبریں

چار افریقی ممالک میں سیاسی بحران کا سبب کیا ہے؟

 فوج خود کو عوام کا دوست بتا رہی ہے مگر عوام اس جھانسے میں آنے کو تیار نہیں۔ وہ فوج کو بھی اپنی بدحالی کا ذمہ دار مانتی ہے۔ یہ فوج ہی تھی جس نے ملک کے پہلے آزادانہ انتخابات کو پورا نہیں ہونے دیا تھا۔

فوٹو : رائٹرس

فوٹو : رائٹرس

افریقہ کے چار ممالک ان دنوں سرخیوں میں ہیں۔ سوڈان اور الجزائر اس لئے کہ ان دونوں ملکوں کی عوام نے دو ایسے سربراہوں سے نجات پائی ہے جو اقتدار پر ایک عرصے سے قابض تھے اور زبردست مخالفتوں کے باوجود ہٹنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ تیسرا ملک مصر ہے جہاں کے فوجی ڈکٹیٹر نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے آئین میں تبدیلی لانے کی پہل کی ہے۔ اور چوتھا ملک لیبیا ہے جہاں اقوام متحدہ کی بیساکھی پر قائم حکومت ایک باغی جنرل کے حملوں کی زد میں آکر اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہی ہے۔ راجدھانی تریپولی کے مضافات میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے اور امریکہ اور روس کے بیچ لیبیا کے مسلے پر رسہ کشی شروع ہو چکی ہے۔

ان چاروں ملکوں میں چند قدریں مشترک ہیں جو احتجاج کی وجہ بنے؛ہر جگہ حاکم عوام پر مسلط کے گئے تھے؛ ہر جگہ حکمراں طبقہ وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں لگا تھا اور عوام بدحالی کا شکار تھے؛ ہر جگہ حاکم نے اقتدار پر قبضہ جمانے کے بعد اپنے آپ کو عوام کے ذریعہ منتخب بھی کروایا تھا اور لگاتار غالب اکثریت سے جیت کر اپنے اقتدار کو آئینی تحفظ فراہم کرتا رہا تھا۔سب سے زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ تمام ہی ملکوں میں فوج کی طاقت کا استعمال خارجی دشمنوں کی بجائے داخلی طور پر اپنی عوام کے خلاف ہو رہا تھا، خاص کر دانشوروں اور طلبہ و طالبات کے خلاف جو بدعنوانیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت کر رہے تھے۔

مصر میں یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے جبکہ سوڈان میں صدر عمر البشیر اور الجزائر میں صدرعبدالعزیز بوتفلیکا کا تختہ پلٹا جا چکا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اقتدار کی باگ ڈور عوامی نمائندوں کے ہاتھوں میں آچکی ہے۔ دونوں جگہ فوجی جنرلز حرکت میں آچکے ہیں۔ سوڈان میں فوج نے براہ راست اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لی ہے اور بھڑکی ہوئی عوام کو قابو میں کرنے کی تدبیریں کر رہی ہے۔ الجزائر میں فوج خود کو عوام کا ساتھی بتا کر انھیں جھانسہ دینے کی کوششوں میں لگی ہے۔

فوج کا یہ طریقۂ کار نیا نہیں ہیں۔ عوامی انقلاب کو ہڑپنے کا کامیاب تجربہ فوج نے ابھی6 سال قبل مصر میں کیا تھا۔ حُسنی مبارک کی تیس سالہ ڈکٹیٹرشپ کے بعد منتخب شدہ صدر اور پارلیامنٹ کو مشکل سے سال بھر چلنے دیا گیا۔ فوج نے سازش کر کے صدر محمد مُرسی کا تختہ پلٹ دیا اور مُرسی سمیت بیشتر عوامی نمائندوں کو جیل بھیج دیا۔ امریکہ اور جمہوریت کی علمبردار تمام طاقتیں خاموش تماشائی بنی رہیں بلکہ کچھ نے براہ راست اور کچھ نے بلاواسطہ طور پر فوجی آمر عبدالعزیز السیسی کو مالی امداد اور سیاسی حمایت فراہم کی۔ شاید اس لئے کہ محمد مُرسی فلسطینیوں کی کھُل کر حمایت کر رہے تھے جس سے اسرائیلی اور امریکی مفاد اور خطے کے شاہی خاندانوں کو اپنا وجود خطرے میں پڑنے لگا تھا۔

اس وقت وہی السیسی مصر کے “منتخب شدہ” صدر ہیں۔ اس ہفتے وہ ایک ریفرنڈم کروا رہے ہیں جس کے بعد 2030 تک وہ ملک کے صدر بنے رہ سکیں گے۔ ملک میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگی ہوئی ہے اور زیادہ تر لیڈران جیل میں ہیں۔ جو باہر ہیں وہ مزاحمت کرنے کی حالت میں نہیں۔ سوشل میڈیا پر اس ریفرنڈم کو ناکام بنانے کی اپیلیں ضرور آرہی ہیں جن پر حکومت سخت نظر رکھے ہوئے ہے۔ خبر ہے کہ اب تک 30000 انٹرنیٹ سائٹس بند کئے جا چکے ہیں۔

عمر البشیر کی گرفتاری

سوڈان میں عمر البشیر کو گرفتار کرنے کے بعد صدر کی کرسی پر ملک کے وزیر دفاع اور فوجی سربراہ لفٹننٹ جنرل احمد عواد ابن عوف بیٹھ گئے اور اعلان کیا کہ انہوں نے عارضی حکومت قائم کی ہے جو چار سالوں میں اقتدار کی باگ ڈور عوامی نمائندوں کے سونپ دے گی۔ احتجاج کر رہی عوام کا ایسا دباؤ تھا کہ محض چوبیس گھنٹے میں انھیں استعفیٰ دینا پر مگر جاتے جاتے انہوں نے ایک دوسرے جنرل عبدالفتاح البرہان کو کرسی پر بیٹھا دیا جس نے چار سال کی بجائے دو سال کی مہلت مانگی ہے۔

سوڈان پروفیشنل ایسوسی ایشن، جو کہ ڈاکٹرز،انجینئرز، اساتذہ اور وکیلوں وغیرہ کی ایک نسبتاً نئی تنظیم ہے اور جس کے بینر تلے یہ عوامی احتجاج جاری ہے کچھ بھی سننے کو تیار نہیں۔ اس کی مانگ ہے کہ البشیر کا جانا کافی نہیں۔ اُن کے ساتھ کے تمام لوگ بشمول فوجی افسران استعفیٰ دیں اور ایک سویلین حکومت قائم ہو جس کا کام ملک میں آزادانہ انتخابات کرانا ہو تاکہ حقیقی معنوں میں جمہوریت بحال ہو سکے۔ فوج کے ذریعہ بنائی گی ملٹری کونسل کو احتجاجیوں نے رد کر دیا ہے اور سویلین کونسل کے قیام کی مانگ زور پکڑتی جا رہی ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سوڈان پروفیشنل ایسوسی ایشن کے کارکن آرمی ہیڈ قارٹرس  کے باہر دھرنے پر بیٹھے ہیں اور ملک میں جگہ جگہ احتجاجی جلسے ہو رہے ہیں۔

ملٹری کونسل نے عمر البشیر کے خلاف مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ان کے گھر سے ساڑھے تین لاکھ امریکی ڈالر اور ساٹھ لاکھ یورو ملے ہیں۔ فوج کی کوشش ہے کہ عوامی  غصے کو البشیر کی طرف موڑ دیا جائے جبکہ فوج البشیر کی تمام تر بدعنوانیوں اور بے جا حرکتوں میں برابر کی حصہ دار رہی ہے۔ ان کی ساری طاقت کا سرچشمہ فوج ہی تھی۔ البشیر کے خلاف احتجاج کا سلسلہ چار مہینے پہلے شروع ہوا تھا۔ ابتدا مہنگائی کے خلاف ریلیوں سے ہوئی جو جلد ہی سیاسی تبدیلی کی مانگ میں بدل گئی۔ بے روزگاری اور بدعنوانی سے تنگ آئی دبی کچلی عوام سڑکوں پر نکل آئی اور درجنوں لوگوں نے اپنی جان کی قربانی دی۔

75 سالہ عمر البشیر فوج میں کرنل تھے جو 1989 میں منتخب شدہ وزیراعظم صادق المہدی کا تختہ پلٹ کر اقتدار میں آئے تھے۔ پھر حسن الترابی، جو کہ ایک اسلامی پارٹی کے لیڈر تھے اور پارلیمنٹ کے سپیکر بھی، کے ساتھ مل کر پارلیامنٹ کو تحلیل کیا، سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگائی اور اور اپنی مرضی کا قانون بنایا۔ آگے چل کر الترابی سے ان کے اختلافات ہو گئے اور انھیں جیل بھیج دیا۔2003 میں البشیر پر سوڈان کے دارفُر علاقے میں غیر عرب باشندوں پر نسل کشی کا الزام لگا جس میں دو سے چار لاکھ لوگوں کے مارے جانے اور 27 لاکھ لوگوں کے بے گھر ہونے کا اندازہ ہے۔ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے ان پر وار کرائم اور کرائم اگینسٹ ہیومنیٹی کا مقدمہ چلا کر ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا۔ یہ دنیا کے پہلے صدر تھے جن کے خلاف اقتدار میں رہتے ہوئے گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوا۔ فوج نے ان کی گرفتاری کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ کسی سوڈانی کو انٹرنیشنل کورٹ کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔

فوٹو : رائٹرس

فوٹو : رائٹرس

بوتفلیکا کا استعفیٰ

الجزائر کے صدر عبدالعزیز بوتفلیکا، جنہوں نے 2 اپریل کو مسلسل دو ماہ کے مظاہروں کے بعد استعفیٰ دیا، کو کوئی ‘زندہ لاش’ تو کوئی ‘فریم’ بلاتا ہے کیونکہ 2013 میں فالج کا دورو پڑنے کے بعد وہ معذور ہو چکے تھے اور عوامی اجتماعات میں حصہ لینا بند کر دیا تھا۔ ان اجتماعات میں اُن کی جگہ ان کی فریم کی ہوئی تصویر استعمال ہوتی تھی۔ ملک کی اصل باگ ڈور اعلیٰ فوجی قیادت اور غیر منتخب کاروباری افراد کے ہاتھوں میں تھی جن پر الزام تھا کہ ان لوگوں نے ملکی وسائل پر قبضہ کر رکھا تھا۔ عوام بوتفلیکا کے استعفیٰ سے خوش تو ہے مگر مطمئن نہیں۔ اس کی مانگ ہے کے اُن کی پوری ٹیم بشمول فوج مستعفی ہو۔ فروری میں جو احتجاج شروع ہوا تھا وہ اب بھی جاری ہے۔ لوگ سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں اور ہر دن ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ادھر فوج خود کو عوام کا دوست بتا رہی ہے مگر عوام اس جھانسے میں آنے کو تیار نہیں۔ وہ فوج کو بھی اپنی بدحالی کا ذمہ دار مانتی ہے۔ یہ فوج ہی تھی جس نے ملک کے پہلے آزادانہ انتخابات کو پورا نہیں ہونے دیا تھا۔ پہلے راؤنڈ میں اسلام پسند اسلامک سیلویشن فرنٹ جیت کے قریب تھی مگر فوج نے الیکشن رد کرکے سیلویشن فرنٹ کے لیڈروں کو جیل میں ڈال دیا تھا جس کے بعد پورے ملک میں خانہ جنگی پھیل گئی۔ دس سال تک ملک میں انتشار پھیلا رہا۔ 2000میں بوتفلیکا اسی نام پر الیکشن جیت کر آئے تھے کہ ملک میں امن بحال کریں گے اور خوشحالی لائیں گے۔ مگر انہوں نے وہی کیا جو تیسری دنیا کے رہنما عام طور پر کرتے ہیں۔ انہوں نے بڑے کاروباریوں کے ہاتھوں ملک کو بچ دیا۔ یہاں تک کہ 2013میں جب ان پر فالج کا دورہ پڑا اور وہ کسی لائق نہیں رہے اس کے باوجود اُن کے حواریوں نے انھیں الیکشن میں اتارا اور ان کے نام پر بندر بانٹ کرتے رہے۔ فوج بھی اس بندر بانٹ کا حصہ رہی۔ وہ لوگ اب بھی اُنہیں الیکشن لڑوانا چاہتے تھے مگر عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اس لئے مجبوراً استعفیٰ دلوایا گیا۔ 18 اپریل کو جو الیکشن ہونا تھا وہ اب 2جولائی کو ہونا طئے پایا ہے۔ یہ الیکشن کون کروائے گا یا الیکشن ہو بھی سکے گا کہ نہیں یہ تو وقت ہی بتائےگا۔

لیبیا کا انتشار

لیبیا میں گزشتہ دو ہفتوں سے خانہ جنگی جاری ہے۔ آثار بتا رہے ہیں کہ یہ دوسرا شام بننے جا رہا ہے۔ روس اور امریکہ ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں۔ اقوام متحدہ کی حمایت سے لیبیا میں ایک حکومت قائم ہے۔ باغی جنرل خلیفہ حفتر، جسے مشرقی علاقے کے قبائلیوں کی حمایت حاصل ہے، نے اس حکومت کو چیلنج کر دیا ہے۔ اس کی فوج راجدھانی تریپولی کے قریب پہنچ چکی ہے۔ عالمی ریلیف ایجنسیز کے مطابق دو سو لوگ مارے جا چکے ہیں، ایک ہزار زخمی ہو چکے ہیں اور 25 ہزار لوگ بے گھر۔

2011 میں ناٹو فورسز کے ذریعہ کرنل معمر قذافی کے خاتمے کے بعد سے لیبیا آج تک مستحکم نہیں ہو سکا ہے۔ قبائلی جھگڑے اپنے عروج پر ہیں۔ تیل کی دولت سے مالا مال ملک پر دنیا کی بڑی طاقتوں کی نظریں بھی گڑی ہیں۔ سلامتی کونسل میں لیبیا کی جنگ بندی کا جو ریزولوشن برطانیہ نے پیش کیا امریکہ اور روس دونوں نے اس کی حمایت سے انکار کر دیا ہے۔ ایک ہفتہ پہلے تک امریکی حکّام جنرل حفتر کے خلاف بیان دے رہے تھے۔ اب اچانک صدر ٹرمپ نے اس باغی جنرل سے فون پر بات کی ہے اور اس کے حق میں بیان دیا ہے۔ یعنی امریکہ کی لیبیا پالیسی بدل چکی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔