فکر و نظر

شہری ہونے کا مطلب  صرف زندہ رہنا اور ووٹ ڈالنا بھر رہ گیا ہے

ملک میں انتخاب ہو رہے ہیں اور جمہوری‎ حقوق کو لےکر تشویش بڑھتی جا رہی ہیں۔ لوگ بدحال زندگی جی رہے ہیں، بیماری، بھوک، ظلم، حادثہ اور تشدد آمیز حملوں میں مارے جا رہے ہیں۔ ذلیل کئے جا رہے ہیں۔ ان کے حقوق دن بہ دن کمزور کئے جا رہے ہیں۔

تریپورہ کی راجدھانی اگرتلا کے ایک پولنگ بوتھ پر منگل کو ریانگ آدیواسی کمیونٹی کی خواتین نے تیسرے مرحلے کے ووٹنگ کے لئے اپنے ووٹ ڈالے۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

تریپورہ کی راجدھانی اگرتلا کے ایک پولنگ بوتھ پر منگل کو ریانگ آدیواسی کمیونٹی کی خواتین نے تیسرے مرحلے کے ووٹنگ کے لئے اپنے ووٹ ڈالے۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

ہم ایک انوکھے مقام پر کھڑے ہیں ؛ ملک میں انتخاب ہو رہے ہیں اور جمہوریت کے مستقبل اور عوام کے جمہوری‎ حقوق کو لےکر تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا انتخاب وہ جادوئی قالین نہیں بتائے گئے تھے، جن پر سوار ہو کر جمہوریت ہماری امیدوں کے آسمان میں ایک خوش حال مستقبل کے رنگ بکھیرنے والا تھا؟پھر ایسا کیوں ہے کہ ٹھیک انتخابات کے دوران سماج میں بےچینی اور تشویش کی لکیریں مضبوط ہو رہی ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ ہم خود کو ایک دیوار کے سامنے کھڑے پا رہے ہیں، جس پر لکھی عبارت ہم پڑھ تو پا رہے ہیں لیکن سمجھ نہیں پا رہے ہیں؟

یہ دیوار کیسی ہے؟ یہ بےچینی اتنی گہری کیوں ہے؟ اس عبارت کا مفہوم  کیا ہے؟ہم جو دیکھ پا رہے ہیں وہ یہ ہے ؛ نوجوانوں کے پاس روزگار نہیں ہیں، کسانوں کے لئے کھیتی  مہنگی اور پیداوار سستی ہوتی جا رہی ہے، علاج پر ہونے والا خرچ روزانہ بڑھ رہا ہے جبکہ لوگوں کو حکومت کی طرف سے کوئی خاص مدد نہیں مل رہی، پڑھائی کرنا نہ صرف مہنگا ہوتا جا رہا ہے بلکہ خاص طورپر محروم طبقوں اور خواتین کے لئے مشکل بھی بنایا جا رہا ہے۔

خواتین، محروم طبقوں، اقلیتوں اور آدیواسیوں کے حق، وقاراور زندگی پر خطرے کہیں زیادہ گہرے ہوئے ہیں۔ عدم اتفاق کی آوازیں نہ صرف دبائی جا رہی ہیں، بلکہ جابرانہ مشینری کا استعمال لوگوں کو خاموش کرانے میں کیا جا رہا ہے۔ اور اس کو ریاست کے مضبوط ہونے کی نشانی کے طور میں پیش کیا جا رہا ہے۔ایک کے بعد ایک حکومتیں آتی گئی ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ سب کے ساتھ ہیں اور سب کے حالات بہتر ہوں‌گے۔ لیکن آخر میں ہم نے دیکھا کہ ان کی موجودگی صرف چنندہ لوگوں کی بہتری کی وجہ بنی۔ہم نے پارٹیاں دیکھیں جو نظام میں بدلاؤ لانے کے نعروں کے ساتھ اقتدار میں آئیں اور نظام میں بدل گئیں۔ رہنماؤں نے وعدے کئے، لیکن ان کو پورا کرنے کا دعویٰ نہیں کیا۔ عوام خواب دیکھتی رہی، لیکن سوال پوچھنا جرم بنا دیا گیا۔یہ حالات ایک بحران کا اظہاریہ  ہیں۔ لیکن اتنا ہی یہ اس بحران کا نتیجہ بھی ہیں۔

یہ بحران کیا ہے؟

سمجھنے کے لئے اس بحران کو ہم چار نکات  میں رکھ‌کر دیکھیں‌گے۔ اصل میں یہ نکات فرانسیسی فلسفی اور ریاضی داں الاں  بدیوں کے تجزیے پر مبنی ہیں، لیکن ہم ان کو اپنے سماج کی خاصیتوں کے حساب سے سمجھنے کی کوشش کریں‌گے۔پہلی صورت حال  پیداوار اور حکومت کے مسلط ڈھانچے سے متعلق  ہے۔ ملک کی حکومت-سماج پر ایک طاقتور طبقہ ہی قائم رہا ہے۔ تاریخی طور یہ تسلط جنم‌کی بنیاد پر طے ہوتا رہا ہے۔ اسٹیٹ سے حمایت یافتہ سرمایہ دار کے دور میں تمام جگہوں پر اسی طبقے کو خصوصی اختیارات حاصل تھے۔گلوبلائزیشن نافذ ہوا تو اس کو کہیں زیادہ کھل‌کر سامنے آنے کی چھوٹ مل گئی، کیونکہ تب ان کے سامنے کوئی عوامی حدبندی بھی نہیں رہ گئی تھی۔ وہیں دوسری طرف سماج میں خستہ حال ہوتے جا رہے لوگوں کو ملنے والی سرکاری گارنٹی ختم یا بے اثر ہوتی گئی ہیں۔

اس نے لوگوں میں زندگی کو لےکر عدم تحفظ بڑھایا ہے۔ ہمارے پاس نیچے سے، سماجی طورپر اس تسلط کو ایک چیلنج مل رہا ہے۔ لیکن سیاسی طور پر نہ تو برہمن واد کو چیلنج مل پا رہا ہے اور نہ ہی سرمایہ دار کو-جس کو باباصاحب امبیڈکر نے جڑواں دشمن بتایا تھا۔سیاسی چیلنج کی کمی ہی دوسرا پوائنٹ ہے۔ یہ صحیح ہے کہ پہلے کے مقابلے  ملک میں کہیں زیادہ پارٹیاں ہیں اور وہ کہیں زیادہ تعداد میں لوگوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس معاملے میں رنگا رنگی آئی ہے۔ لیکن حکومت اور سیاست کے لحاظ سے کل ملاکر پارٹیوں کے درمیان فرق بےمعنی ہوتا گیا ہے-مستقبل کے نظریات اور اسکیموں کے معاملے میں ان میں بہت فرق نہیں ہے۔اس کو پارٹیوں کے اقتدار میں آنے کے تجربات سے دیکھا جا سکتا ہے۔ لوگوں کی روزمرہ کی حالت میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں آتی۔ ایک حکومت اپنی جس پالیسی کو نافذ نہیں کر پاتی، حزب مخالف پارٹی اقتدار میں آنے پر اس کو نافذ کر دیتی ہے اور اس کا سہرا بھی لیتی ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کو تیسرے مرحلے کے لئے ہوئے ووٹنگ میں احمد آباد کے ایک پولنگ بوتھ پر ووٹ ڈالا۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کو تیسرے مرحلے کے لئے ہوئے ووٹنگ میں احمد آباد کے ایک پولنگ بوتھ پر ووٹ ڈالا۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

بات چھوٹے-موٹے فرق کی نہیں ہے۔ ہم سماج کو چلانے اور بدلنے کے ایک وسیع نظریے کی بات کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام پارٹیاں آپس میں ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ان کی برابری اس معنی میں ہے کہ وہ کوئی بنیادی نیا نظریہ یا سیاسی کارروائی سامنے نہیں لا پا رہی ہیں۔ اس معنی میں ایک سیاسی پارٹی کے طور پر انہوں نے اپنی اہمیت کو بےمعنی بنا دیا ہے۔ا س کے نتیجہ میں لوگوں کی ناامیدی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس صورت حال کا یہ تیسرا پہلو ہے۔ لوگ بدحال زندگیاں جی رہے ہیں، بیماری سے، بھوک سے، ظلم اور تشددبھرے حملوں میں، حادثات میں مارے جا رہے ہیں۔ ذلیل کئے جا رہے ہیں۔

ان کے حق دن بہ دن کمزور کئے جا رہے ہیں۔ ملک کے شہری ہونے کا مطلب صرف زندہ رہنا اور ووٹ ڈالنا بنا دیا گیا ہے۔حالانکہ اب تو اس میں بھی بدلاؤ آیا ہے۔ اب کسی ایک خاص مذہب اور ذات کا ہونا اور ایک خاص پارٹی کی حمایت کرنا اس کی شرط ہے۔ لیکن موٹے طور پر، اس بدحالی میں عوام کے پاس اس کا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ کس پارٹی کے پاس جائے۔ کون سی پارٹی اس کے حالات کو سچ مچ سمجھتی ہے اور اس کو ابار سکتی ہے؟ کوئی نہیں۔

اس لئے اس میں سخت  ناامیدی ہے۔ اور جو ناامید نہیں ہیں، وہ غیر محفوظ محسوس‌کر رہے ہیں۔ اس حد تک غیر محفوظ ہیں کہ وہ دیوانگی کی حد تک جاکر اپنی زندگی کی موجودہ سطح کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔شہری اور قصبائی مڈل کلاس کی دیوانگی اور تشدد کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک سمت کی کمی اور حالات کے بہتر ہونے کے بھروسے کی کمی نے اس سماج میں ایک بھاری اتھل-پتھل پیدا کی ہے۔اگر لوگ سڑکوں پر تشدد اور ہنگامے کرنے کے لئے اتر جا رہے ہیں، تو صرف اس لئے نہیں کہ ایک پارٹی یا تنظیم ان کو اس کے لئے اکسا رہی ہے۔ وہ ایک ایسی کھوکھلی زمین پر کھڑے ہیں جہاں چیزیں تیزی سے برباد ہو رہی ہیں۔ اور وہ بےچینی محسوس‌کر رہے ہیں۔

ایسا اس لئے ہوا ہے کہ سیاست نے حالات کو جیسے کا تیسے قبول‌کر لیا ہے۔ یہ قبول‌کر لیا ہے کہ چیزیں جیسی ہیں، ویسی ہی رہتی آئی ہیں۔80-90 کی دہائی میں چلائے گئے اس محاورے کو اپنا فلسفہ بنا لیا گیا ہے کہ اب کوئی اختیار نہیں بچا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگ اختیار ات کے بارے میں سوچ نہیں رہے ہیں، یا کسی کے پاس بھی کوئی نظریہ نہیں ہے، یا تمام لوگوں نے اختیارات کے نہیں ہونے کو قبول‌کر لیا ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں کہیں اختیار کا یہ نظریہ موجود بھی ہے یا جنم لے رہا ہے، اس میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ اس کو ایک اختیار کے طور پر پیش کر سکے۔

لوگوں کے پاس جانے، ان کو ایک نیا اختیار دینے، ان کی صف بندی  کرنے، ان کی مدد کرنے اور ان سے مدد لینے، ان کو منظم کرنے کا کوئی بھی کارگر اور نیا نظریہ ہمارے سماج میں نہیں ہے۔صحیح ہے کہ یہ تصویر بہت ناامیدی بھری لگے‌گی۔ لیکن یہ ناامیدی ہی ہمارے وقت کی سچائی ہے۔ جس کو ہم بےلگام یا فسطائی سیاست کہہ رہے ہیں، وہ ایک سچ مچ کی سماجی صورت حال پر کھڑی ہوتی ہے۔اس کی بنیاد، ایک پختہ بنیاد ہوتی ہے۔ اگر کسی سماج میں جملے کام کر جا رہے ہوں اور لوگ ان پر دوبارہ بھروسہ کرنے کو تیار ہوں تو یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس سماج میں زندگی اور سمجھ‌کی سطح کو کتنی نچلی سطح پر گرا دیا گیا ہے۔

ہم یہاں کیسے پہنچے؟

سب سے پہلے تو ہم نے نئی سیاست کا تصور کرنا اور نئے خیالات پر سوچنا بند کر دیا۔ سیاست بس پہلے سے طے کئے گئے صندوق میں ہی کرتب اور پینترےبازی کرنے کی کارروائی بن‌کر رہ گئی۔

(فوٹو بہ شکریہ:ٹوئٹر)

(فوٹو بہ شکریہ:ٹوئٹر)

یہ سمجھ ختم کر دی گئی کہ سیاست کا کام سماج کو آگے لے جانے کا ایک نظریہ دینا ہے۔ یہ بات ہم کبھی سمجھ نہیں پائے کہ سیاست کوئی وعدہ نہیں، اصل میں انصاف پر عمل کرنے کا دوسرا نام ہے۔تاریخ کا کوئی بھی دور رہا ہو، ایک سماج تبھی آگے بڑھ پاتا ہے جب اس کے پاس اپنے مستقبل کو لےکر ایک اختیاری نظریہ ہو۔ حکمراں نظریے کے مقابلے بنیادی طور پر الگ ایک دوسرا نظریہ۔دنیا کی تاریخ میں اور ملک کی تاریخ میں بھی، یہ حالت ہمیشہ سے رہی ہے۔ بدھ نے یہی کیا تھا۔ ہندی پٹی کی عام یادوں میں کبیر کی موجودگی اسی اختیاری نظریے سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ صرف کچھ ایک مثالیں ہیں۔

یہ عمل تب اہم ہو گیا جب حکومت چلانے کے لئے پیدائش، فوجی طاقت اور زمین کے ٹکڑے پر قبضہ ہونے سے زیادہ اہم ہو گئی  عوام کی رائے اور حمایت۔ جب سچ مچ میں اس چیز کی شروعات ہوئی جس کو ہم سیاست کہتے ہیں۔نوآبادیاتی دور میں ہم اس سوال کو بہت صاف طور پر ابھرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ تب نہ صرف یہی سوال اہمیت کے ساتھ  اٹھایا جاتا ہے کہ سماج کو آگے لے جانے کا نظریہ کیا ہوگا اور سیاست کیا ہوگی، بلکہ  ایک مضبوط چیلنج پیش کیا جاتا ہے کہ ان مدعوں پر سوچنے کے اہم پوائنٹ کیا ہوں‌گے۔ بحث کا محور کیا ہوگا۔

اس معنی میں پہلی بار جنوب کی غیربرہمن تحریک، مغرب میں ساوتری بائی پھولے اور جیوتبا پھولے کا انقلاب اور پھر امبیڈکر کا آنا ایک صاف اور نئی لکیر کھینچتا ہے۔ اس میں کمیونسٹ تنظیموں، بھگت سنگھ اور برسا منڈا کا نام بھی جوڑا جا سکتا ہے۔انہوں نے سیاست کے لئے ایک ایسے مفروضہ کا امکان پیش کیا جو اب تک اس ملک کے لئے نیا تھا۔ ان کی موجودگی نے نوآبادیاتی اقتدار اور اس کی مخالفت کر رہی سیاست کی بنیادی کمیوں کو نشان زد کیا۔آزادی کے بعد بھی، اس اختیاری نظریے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ عوام کے حقوق کو لےکر وقت وقت پر چلنے والی  چھوٹی -بڑی تحریک اس کی گواہ ہیں۔ لیکن اسی بیچ آہستہ آہستہ یہ عمل کمزور پڑتا گیا۔ اختیار تھا بھی تو وہ اختیار کے طور پر سامنے آنا بند ہو گیا۔

آج یہ بحران اسی لئے ہمارے سامنے ہے کیونکہ اس بات کو قبول‌کر لیا گیا کہ سرمایہ اور ذات کا بنیادی فارمولہ  وہی بنے رہیں‌گے، جو پہلے سے ہیں۔ اس کو بدلنا ممکن نہیں ہے۔اگر ہمیں ایسے میں اختیار کی بات سوچنی ہے تو وہ یہی ہو سکتی ہے کہ ہم ایک بالکل ہی نئی دنیا کا تصور لےکر آئیں۔ یہ تصور شروعات میں آدھا-ادھورا لگ سکتا ہے، اس میں خامیاں ہو سکتی ہیں، لیکن اس تصور کو بنیادی طور پر ان دلیلوں اور محاوروں سے باہر آنا ہوگا، جس میں موجودہ سیاست چل رہی ہے۔اس کو اپنی دلیلیں قائم کرنی ہوں‌گی۔ موجودہ دنیا کی حدود سے آگے جاکر ایک نئی دنیا کا تصور پیش کرنا ہوگا۔

اس کے بیج بھی ہمارے دور کی سیاست میں ہی ہیں۔ ان گنت تحریکات اسی دور میں چل رہی ہیں۔ ان تحریکوں سے سیاست کے نئے رجحان اور شخصیتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ ان اختیاری دھاراؤں کے درمیان اختلاف ہیں۔سیاست کے لئے یہ ایک اچھا اشارہ ہے۔ کیونکہ جیسا کہ بدیوں کہتے ہیں، جب کسی بھی دائرے میں صرف ایک سیاسی نظریہ بچتا ہے تو وہاں سیاست آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ نظریات اصل میں سیاست کو بدل پائیں، اس کے لئے ان کو ابھی بہت آگے جانا ہوگا۔ان کی منزل اس دیوار کے پار ہے، جس سے آج ہم روبرو ہیں۔ اور ان کے پاس اصل میں کوئی جادوئی قالین نہیں ہے۔