خبریں

سی جے آئی جنسی استحصال معاملہ: شکایت گزار  نے کہا، جانچ  سے پہلے ہی میرے کردار پر انگلیاں اٹھائی جانے لگیں

سی جے آئی رنجن گگوئی کے خلاف جنسی استحصال کے الزامات کی جانچ‌کر رہی کمیٹی کو لکھے خط میں شکایت گزار نے کہا کہ مجھے صرف تبھی انصاف مل سکتا ہے جب غیرجانبدارانہ اور شفافیت کے ساتھ سماعت کا موقع دیا جائے۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ملک کے چیف جسٹس رنجن گگوئی پر جنسی استحصال کا الزام لگانے والی 35 سالہ سپریم کورٹ کی  جونیئر کورٹ اسسٹنٹ  نے بدھ کو اس معاملے کی تفتیش کے لئے تشکیل دی گئی  ایک انٹرنل  کمیٹی کے سامنے اپنے ڈر اور خدشہ کااظہار  کیا۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، شکایت گزار نے کہا کہ سنیچر کو سی جے آئی نے جو سماعت کی، اس میں ان کی شکایت کو اپنے خلاف ایک بڑی سازش کا حصہ بتایا، جس سے تفتیش سے پہلے ہی ان کے کردار پر سوال اٹھایا دیا گیا۔

کمیٹی کو لکھے ایک خط میں شکایت گزار نے کہا کہ یہ تفتیش سپریم کورٹ کے ذریعے بنائی گئی وشاکھا گائڈلائنس کے مطابق ہونی چاہیے۔ دراصل وشاکھا گائڈلائنس کے مطابق، کمیٹی میں خاتون ممبروں کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے اور غیرجانبداری، شفافیت کو یقینی بنانے  کے لئے ایک باہری خاتون ممبر ہونا چاہیے۔جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس این وی رمنا اور جسٹس اندرا بنرجی کی انٹرنل کمیٹی نے منگل کو شکایت گزار خاتون کو نوٹس جاری کیا ہے۔ شکایت گزار خاتون نے اس معاملے میں وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے بلاگ پر بھی سوال اٹھایا ہے۔

شکایت گزار نے کہا، ‘ اگلے دن (اتوار) کو سینئر کابینہ وزیر نے بلاگ میں میری تنقید کی۔ اس واقعہ کی وجہ سے میں بہت ڈری ہوئی ہوں اور الگ تھلگ اور تناؤ محسوس‌کر رہی ہوں۔ ‘اس نے کہا، ‘ میں صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ سماعت کے وقت آپ میرے ڈر اور خدشہ پر غور کریں… مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے اور مجھے امید ہے کہ میری فیملی کی تکلیف اور اذیت جلدہی ختم ہو جائے‌گی۔ مجھے پتہ ہے کہ  میری کوئی اوقات نہیں ہے اور میرے پاس صرف سچ ہے جس کو میں آپ کے سامنے رکھ سکتی ہوں۔ مجھے صرف تبھی انصاف مل سکتا ہے جب مجھے غیر جانبدارانہ، شفافیت کے ساتھ شنوائی  کا موقع دیا جائے۔ ‘

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جسٹس رمنا سی جے آئی کے بہت ہی قریبی دوست ہیں اور ان کی فیملی کے ممبر کی طرح ہیں۔ یہی وجہ ہے ان کو ڈر ہے کہ ان کے حلف نامہ اور ثبوت کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔اپنے خط میں انہوں نے 20 اپریل کو حیدر آباد میں ہائی کورٹ کی عمارت کے افتتاح کے دوران جسٹس رمنا کی ایک تقریر کا ذکر کیا، جو انہوں نے ان کی شکایت کے ایک دن بعد دی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ وہاں جسٹس رمنا نے کہا تھا، ‘ ہم پہلے بھی ایسی کوشش دیکھ چکے ہیں اور ہم مستقبل میں بھی بہت دیکھیں‌گے لیکن آج ججوں پر بھی حملہ ہو رہا ہے۔ ‘خط میں کہا گیا ہے، ‘ مجھے بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعے بنائے وشاکھا گائڈلائنس کے اصولوں اور 2013 میں جنسی استحصال سے خواتین کے تحفظ سے متعلق قانون کے تحت غیرجانبدارانہ جانچ کو یقینی بنانے کے لئے جانچ  کمیٹی میں خاتون ممبروں کو اکثریت میں ہونا چاہیے۔ ‘

انہوں نے کہا کہ کمیٹی میں خواتین کے حقوق کی سمجھ رکھنے والی ایک باہری خاتون ممبر ہونی  چاہیے اور کمیٹی کی قیادت بھی ایک خاتون کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ اس لئے میں گزارش  کرتی ہوں کہ کمیٹی ان اصولوں اور پروسیس  کو اپنائے۔خاتون نے سی جے آئی گگوئی کے ذریعے ان کے فیصلے میں بیان کردہ تبصروں کا بھی ذکر کیا ہے۔

انہوں نے خط میں کہا، ‘ خاص کر سنیچر کو سپریم کورٹ کی کورٹ نمبر 1 میں ہوئی سماعت کے بارے میں پڑھنے کے بعد میں بےحد فکرمند ہوں جس کی صدارت سی جے آئی رنجن گگوئی، جسٹس ارون مشرا اور جسٹس سنجیو کھنہ نے کی۔ اخباروں کے مطابق، سی جے آئی نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ جونیئر اسسٹنٹ کی سازش ہو سکتی ہے۔ یہ بڑی سازش ہے۔ وہ سی جے آئی دفتر کو غیرفعال کرنا چاہتے ہیں۔ ‘

خاتون کا کہنا ہے، ‘ بنا مجھے سنے اور بنا کسی وجہ  کےمیرے کردار پر سوال اٹھائے گئے۔ یہ کہا گیا کہ میرے خلاف مجرمانہ معاملے ہیں۔ ان رپورٹس کو پڑھنے کے بعد میں ڈر گئی اور کمزور محسوس کرنے لگی کیونکہ بنا مجھے سنے محترم ججوں اور سینئر قانونی افسروں کے ذریعے میری شکایت کو جھوٹا ٹھہرا دیا گیا تھا۔ ‘انہوں نے کمیٹی سے گزارش  کی ہے کہ پوچھ تاچھ کے دوران پروسیس  کی جانے والی سرگرمی کے بارے میں ان کو پہلے ہی اطلاع دی جائے اور پوری کارروائی کی  ویڈیو ریکارڈنگ کی جائے۔

 اپنے خط میں انہوں نے کہا کہ دستاویزوں کی ایک کاپی ان کو بھی سونپی جائے تاکہ جو کچھ چل رہا ہے اس کو لےکرکوئی تنازعہ نہ ہو۔شکایت  گزار نے کہا، ‘ میں اپنے ثبوت پیش کرنے میں اہل ہوں لیکن مجھے قانون اور پروسیس  کا کوئی تربیت یافتہ اور منظم تجربہ نہیں ہے۔ مجھے ایک وکیل اور میری پسند کے آدمی کی حمایت کی ضرورت ہوگی،جو میرا ماننا ہے کہ میرا بنیادی حق ہے۔’