گراؤنڈ رپورٹ

بی جے پی ایم پی منوج تیواری کے آدرش گاؤں کی زمینی حقیقت

گراؤنڈ رپورٹ : بی جے پی کے دہلی  ریاستی صدر اور شمال مشرقی دہلی  سیٹ سے ایم پی منوج تیواری نے سانسد آدرش گرام یوجنا کے تحت دہلی  کے دو گاؤں-چوہان پٹی سبھا پور اور کادی پور کو گود لیا ہے۔

چوہان پٹی سبھا پور گاؤں(فوٹو : ریتو تومر)

چوہان پٹی سبھا پور گاؤں(فوٹو : ریتو تومر)

نئی دہلی : دہلی  بی جے پی کے صدر اور شمال مشرقی لوک سبھا سیٹ سے رکن پارلیامان منوج تیواری نے وزیر اعظم نریندر مودی کی سانسد آدرش گرام یوجنا کے تحت دہلی کے دو گاؤں-چوہان پٹی سبھا پور اور کادی پور کو گود لیا ہوا ہے، لیکن آدرش گاؤں بننا تو دور یہ گاؤں بنیادی سہولیات تک سے محروم ہیں۔ وزیر اعظم کی سوچھتا ابھیان  کی حقیقت یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔

منوج تیواری نے شمال مشرقی دہلی کے چوہان پٹی گاؤں کو سب سے پہلے گود لیا تھا، لیکن گاؤں کی آبادی کم ہونے کی وجہ سے رکن پارلیامان کو چوہان پٹی سے ہی کٹ‌کر بنے گاؤں سبھا پور کو بھی گود لینا پڑا۔ سرکاری طور پر یہ ایک ہی گاؤں ہے۔ چوہان پٹی میں تقریباً 107 فیملی رہتے ہیں، جبکہ سبھا پور کی آبادی 4000 کے آس پاس ہے۔ چوہان پٹی چوہانوں کا گاؤں ہے، جبکہ سبھا پور ٹھاکروں کا گاؤں ہے۔

چوہان پٹی گاؤں میں ایک بھی سرکاری اسکول نہیں

چوہان پٹی گاؤں میں ایک بھی سرکاری اسکول نہیں ہے۔ صرف ایک نجی اسکول ہے، جو آٹھویں تک ہے۔ یہاں کے بچوں کو پڑھائی کے لئے تقریباً چار کلومیٹر تک کا سفر کرکے دوسرے گاؤں میں یا پھر سونیا وہار کے اسکولوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

چوہان پٹی گاؤں کا واحد اسکول(فوٹو : ریتو تومر)

چوہان پٹی گاؤں کا واحد اسکول(فوٹو : ریتو تومر)

ایک گھریلوخاتون لتا چوہان کا کہنا ہے، ‘گاؤں میں اسکول تک نہیں ہے۔ ایک ہی اسکول ہے، اس میں گاؤں کے کتنے بچے پڑھ پائیں‌گے، اوپر سے وہ اسکول بھی آٹھویں تک ہے۔ اس اسکول کی حالت دیکھ لیں‌گے تو یہاں تعلیم کی صورت حال کا پتہ چل جائے‌گا۔ ‘

گاؤں میں ہاسپٹل بھی نہیں

حیرانی کی بات ہے کہ گاؤں میں ایک ہاسپٹل بھی  نہیں ہے، صرف ایک چھوٹا سا کلینک ہے، جس پر زیادہ تر وقت تالا لٹکا رہتا ہے۔ اس کلینک پر نہ کوئی بورڈ لگا ہے اور نہ ہی اس کے کھلنے یا بند ہونے کی کسی کو کوئی جانکاری ہے۔

چوہان پٹی گاؤں کے واحد کلینک پر لگا تالا(فوٹو : ریتو تومر)

چوہان پٹی گاؤں کے واحد کلینک پر لگا تالا(فوٹو : ریتو تومر)

گاؤں میں کرانہ کی دکان چلانے والے مہیش کہتے ہیں،’گزشتہ سال پڑوس میں رہنے والی ایک خاتون کو رات کے وقت درد زہ کے بعد ہاسپٹل لے جانا پڑا تھا۔ رات کے ڈیڑھ بجے کس طرح ہم لوگوں نے گاڑی کا بندوبست کرکے اس کو سونیا وہار کے ہاسپٹل میں بھرتی کرایا، ہم ہی جانتے ہیں۔ تھوڑی سی دیر ہونے پر کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ اگر یہی ہاسپٹل ہمارے گاؤں میں کھلا ہوتا تو اتنی پریشانی نہیں ہوتی۔ ‘

سوچھتا ابھیان کی قلعی  کھولتے کوڑے کے ڈھیر

پورے گاؤں میں کوڑے کے ڈھیر کو دیکھ‌کر وزیر اعظم نریندر مودی کے سوچھتا ابھیان  کے کامیاب ہونے کے دعویٰ کی پول کھلتی دکھتی ہے۔ جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر دیکھے جا سکتے ہیں۔

گاؤں کی سرحد شروع ہونے سے لےکر گاؤں ختم ہونے تک پورا گاؤں کوڑے کے ڈھیر سے پٹا پڑا ہے۔ پانی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔

نالیاں گندے پانی اور کوڑے کی وجہ سے جام ہوئی پڑی ہیں، جس وجہ سے پانی گلیوں میں اکٹھا ہو رہا ہے۔ اسی گندے پانی میں مچھر پنپ رہے ہیں، جن سے ڈینگو اور ملیریا جیسی بیماریوں کا خطرہ  ہے۔

گاؤں کے باشندہ پیتم سنگھ (62)کہتے ہیں،’منوج تیواری جی نے جب سے گاؤں کو گود لیا ہے، وہ ایک-دو بار ہی گاؤں آئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ گاؤں کو گود لےکر لاوارث چھوڑ‌کر چلے گئے ہیں۔ گاؤں کا مین گیٹ اور ایک ٹرمینل بنوانے کے علاوہ انہوں نے کوئی کام نہیں کیا۔ نہ صفائی، نہ اسکول، نہ بینک، نہ ہاسپٹل کچھ بھی تو نہیں ہے۔ سڑکوں کی حالت دیکھ لو، ٹوٹی ہوئی ہیں، پانی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ہرسال تقریباً آدھا گاؤں ڈینگو کی چپیٹ میں آتا ہے۔ ‘

چوہان پٹی سبھا پور گاؤں میں کوڑے کا ڈھیر۔ (فوٹو : ریتو تومر)

چوہان پٹی سبھا پور گاؤں میں کوڑے کا ڈھیر۔ (فوٹو : ریتو تومر)

انہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے حکم سنگھ کہتے ہیں،’گاؤں کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے، پانی کی پائپ لائن بچھی ہوئی نہیں ہے۔ ٹینکر سے پانی سپلائی ہوتی ہے، جو دو-تین دن میں ایک بار آتا ہے۔ پانی کا بڑا مسئلہ ہے، گرمیوں میں حالت اور خراب ہو جاتی ہے۔ صرف مین گیٹ بنواکر پلا جھاڑنے والی بات ہے۔ ‘

گاؤں میں ایک بھی بینک نہیں

ایسے وقت میں ہر ہر سڑک اور گلی-نکڑ کے چوراہے پر اے ٹی ایم کھلے ہوئے ہیں۔ اس گاؤں کی حالت یہ ہے کہ یہاں ایک بھی بینک نہیں ہے۔ بینک کے لئے یہاں کے لوگوں کو دوسرے گاؤں میں جانا پڑتا ہے۔

ستیش چوہان(فوٹو : ریتو تومر)

ستیش چوہان(فوٹو : ریتو تومر)

ستیش چوہان کہتے ہیں،’گاؤں میں کچھ بھی تو نہیں ہے، نہ اسکول، نہ ہاسپٹل، ایسے میں بینک نہ ہونے کی بات پر چونکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا تو گھربار، کھیتی باڑی یہیں ہے، ورنہ کب کے یہاں سے چلے گئے ہوتے۔ ‘

گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ گاؤں گود لینے کے بعد منوج تیواری نے گزشتہ سالوں میں چوہان پٹی سبھا پور گاؤں میں صرف ایک مین گیٹ  اور بس ٹرمینل بنوایا ہے۔

کادی پور گاؤں

رکن پارلیامان منوج تیواری نےشمال-مغربی دہلی  کے کادی پور گاؤں کو بھی گود لیا ہوا ہے، جہاں کی صورتحال بھی کم وبیش سبھا پور چوہان پٹی جیسی ہی ہے۔ کوشک نگر-1 اور کوشک نگر-2 کے ساتھ کادی پور کی آبادی تقریباً 8000 ہے۔ کادی پور میں جاٹ، برہمن اور جھیمر تین ذاتوں کے لوگ رہتے ہیں۔

دہلی  جیسے شہر میں ہوکر بھی اس گاؤں تک پہنچنا آسان نہیں ہے۔ اس گاؤں میں صرف ایک روٹ کی ہی بس چلتی ہے، جو فی الحال علاقے میں پل تعمیر کی وجہ سے بند ہے۔ اس لئے اس گاؤں تک پہنچنے کے لئے کوئی بس سروس فی الحال نہیں ہے۔

گاؤں تک نجی گاڑی، ٹیکسی، آٹو یا رکشہ سے ہی آیا جا سکتا ہے۔

یہاں رہنے والے فتح سنگھ کہتے ہیں،’اس گاؤں میں صرف ایک ہی روٹ کی بس چلتی تھی، لیکن پل بننے کی وجہ سے وہ بھی پچھلے کئی مہینوں سے بند ہے۔ آٹو یا رکشہ لےکر یا کسی دیگر ذریعہ سے ہی گاؤں والے آتےجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نہیں ہے۔ ‘

منوج تیواری(فوٹو : پی ٹی آئی)

منوج تیواری(فوٹو : پی ٹی آئی)

اس گاؤں میں صرف دو اسکول ہیں، جہاں صلاحیت سے زیادہ بچے پڑھتے ہیں۔ گاؤں میں کالج تعمیر کے لئے 16 ایکڑ کی زمین حاصل کی گئی ہے۔

دہلی ڈیولپمنٹ کمیٹی کے صدر ہرپال سنگھ رانا کہتے ہیں،’اسکولوں کی حالت بہت بدتر ہے۔ ایسے میں یہاں کالج تعمیر کا شگوفہ چھوڑا گیا ہے۔ تقریباً سال بھر پہلے اس کے لئے زمین حاصل کی گئی تھی لیکن اب تک معاملہ وہیں پر ہی رکا ہوا ہے۔ ‘

پانی کا مسئلہ یہاں کا بہت بڑا مسئلہ ہے، گاؤں میں ہر تیسرے دن پانی آتا ہے۔

گاؤں کی ایک خاتون سونو سینی کہتی ہیں،’پانی ہر تیسرے سے چوتھے دن آتا ہے۔ وہ بھی رات میں تین بجے کے آس پاس۔ کبھی کبھی رات میں دو بجے کے آس پاس آتا ہے۔ ضروریات پوری نہیں ہو پاتیں اس لئے پانی خرید‌کر پینا پڑ رہا ہے، اس سے بجٹ گڑبڑا جاتا ہے۔ ‘

گاؤں میں کوڑے کا انبار لگا ہوا ہے۔ کوڑے کے تصفیے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ لوگ کھیتوں میں کوڑا ڈال دیتے ہیں۔ ہر کھیت میں کوڑے کے ڈھیر دیکھے جا سکتے ہیں۔

گاؤں والے کہتے ہیں کہ پورے گاؤں میں کچی سڑکیں ہیں، جن میں گڈھے ہیں اور بارش کے موسم میں ان میں پانی بھر جاتا ہے۔ گاؤں میں صرف ایک پکی سڑک بنی ہے، وہ بھی ميونسپل کونسلر کے گھر کے سامنے کی سڑک ہے۔ دو-چار اسٹریٹ لائٹ لگوائی گئی ہیں۔

کادی پور کا پارک(فوٹو : ریتو تومر)

کادی پور کا پارک(فوٹو : ریتو تومر)

کادی پور کی ميونسپل کونسلرارمیلا رانا منوج تیواری کے ذریعے گاؤں میں کرائے گئے کاموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں،’گاؤں کی سڑک پکی کرائی گئی ہے، آپ جاکر دیکھ لو۔ اسٹریٹ لائٹیں بھی تیواری جی نے ہی لگوائی ہیں۔ اب گاؤں میں پارک بن رہا ہے۔ ‘

پارک کے سوال پر گاؤں کی خاتون کرشنا (61) کہتی ہیں،’پارک کے نام پر صرف زمین کا ایک ٹکڑا سال بھر پہلے مختص کیا تھا۔ اس زمین پر بورڈ لگوا دیا گیا ہے، لیکن کام ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ ‘

کادی پور : دہلی  کا پہلا فری وائی فائی والا گاؤں ہونے کی بات ہواہوائی

کادی پور کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ دہلی  کا پہلا گاؤں ہے، جہاں فری وائی فائی ہے لیکن دہلی ڈیولپمنٹ کمیٹی کے صدر ہرپال سنگھ رانا کہتے ہیں کہ اعلان تو کیا گیا تھا کہ کادی پور دہلی  کا ایسا گاؤں ہے، جہاں فری وائی فائی ہے لیکن یہ مہینوں سے بند پڑا ہے۔

گاؤں کے راکیش سینی کہتے ہیں،’فری وائی فائی کی باتیں ہواہوائی ہیں۔ اگر یہ فری ہوتا تو گاؤں کے لوگوں کو ہر مہینے انٹرنیٹ ری چارج نہیں کرانا پڑتا۔ شروعات میں کچھ مہینے فری وائی فائی کی سہولت ملی تھی، بعد میں اس کو بند کر دیا گیا۔ اصل میں ميونسپل کونسلر کے گھر کی چہاردیواری کے آس پاس ہی وائی فائی فری ہے۔ ‘

براڑی میں 2008 سے زیرتعمیر ہاسپٹل(فوٹو : ریتو تومر)

براڑی میں 2008 سے زیرتعمیر ہاسپٹل(فوٹو : ریتو تومر)

وہ کہتے ہیں،’پورے گاؤں میں کوئی ہاسپٹل نہیں ہے، صرف ایک ڈسپنسری ہے۔ گاؤں کے لوگوں کو علاج کے لئے نریلا جانا پڑتا ہے۔ پاس میں براڑی میں ہاسپٹل ہے، جو سال 2008 سے بن ہی رہا ہے، 10 سال بعد بھی بن‌کر تیار نہیں ہو پایا ہے۔ اس ہاسپٹل کی  سنگ بنیاد تین بار پڑ چکی ہے۔ پہلی بار 2008 میں دوسری بار 2012 میں اور تیسری بار 2016 میں منوج تیواری خود اس کا سنگ بنیادرکھ چکے ہیں۔ ‘

کادی پور کے گورمنٹ بوائز سینئر سکینڈری اسکول کی اسکول انتظامیہ کمیٹی کے وائس چیئر مین وکاس سینی کا کہنا ہے، ‘گاؤں میں قاعدے کا کوئی اسکول نہیں ہے۔ یہاں صرف دو اسکول ہیں، پہلا پرائمری اسکول ہے، جو پہلی سے پانچویں تک ایم سی ڈی کا اسکول ہیں۔ گاؤں میں کوئی کیندریہ ودیالیہ نہیں ہے۔یہاں کوئی نرسری اسکول بھی نہیں ہے۔ یہاں کے بچےیہاں سے آٹھ کلومیٹر دور بختاورپور پڑھنے کے لئے جاتے ہیں۔ ‘

وہ بتاتے ہیں،’گاؤں میں ترقی کے نام پر سڑک کا صرف ایک ٹکڑا بنایا گیا ہے اور گنتی کی لائٹیں لگی ہیں۔ وائی فائی صرف ميونسپل کونسلر کے گھر میں ہی چلتی ہے۔ ‘