خبریں

سی بی آئی نے کی کولکاتہ پولیس کے سابق کمشنر سے پوچھ تاچھ کی مانگ، سپریم کورٹ نے کہا-ثبوت دیں

ساردا چٹ فنڈ معاملے میں کولکاتہ پولیس کے سابق کمشنر راجیو کمار سے حراست میں پوچھ تاچھ کی درخواست کرنے والی سی بی آئی سے سپریم کورٹ نے کہا کہ ایجنسی یہ ثابت کرے کہ ان کی درخواست انصاف کے حق  میں ہے نہ کہ سیاسی مقصد کے لئے۔

کولکاتہ کے سابق کمشنر راجیو کمار (فوٹو : پی ٹی آئی)

کولکاتہ کے سابق کمشنر راجیو کمار (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ  نے ساردا چٹ فنڈ معاملے میں کولکاتہ پولیس کے سابق کمشنر راجیو کمار سے حراست میں پوچھ تاچھ کی درخواست کرنے والی سی بی آئی سے منگل کو کہا کہ اس کو اس کے لئے ثبوت پیش کرنے ہوں‌گے۔عدالت نے کہا کہ ایجنسی کو اس کو لےکر مطمئن کرنا ہوگا کہ جانچ ایجنسی کی درخواست انصاف کے حق میں ہے اور سیاسی مقصد کے لئے نہیں ہے۔چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس سنجیو کھنہ کی بنچ نے کہا کہ سی بی آئی کو ایسی چیز پیش کرنی ہوگی جو یہ دکھائے کہ سابق میں مغربی بنگال پولیس کی ایس آئی ٹی کی قیادت کرنے والے کمار کے معاملے میں ثبوت کوضائع کرنے یا ان کو غائب کرنے میں کہیں کوئی رول ہے۔

بنچ نے کہا،’ہمیں اس بات کا اطمینان ہونا چاہیے کہ آپ (سی بی آئی)یہ (کمار سے حراست میں پوچھ تاچھ)درخواست انصاف کے حق  میں کر رہے ہیں، سیاسی مقاصد کے لئے نہیں۔ ‘سی بی آئی کی طرف سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے بنچ سے کہا کہ وہ بدھ تک اس سے متعلق  ثبوت داخل کر دیں‌گے۔ اس پر بنچ نے تفتیش بیورو کی عرضی 1 مئی کو سماعت کے لئے درج فہرست کر دی۔سماعت کے دوران بنچ نے مہتہ  سے کہا، ‘آپ کو ہمیں یہ دکھانا ہوگا کہ اس آدمی (کمار) کا ثبوت غائب ہونے یا ثبوت ضائع  ہونے کے معاملے میں کوئی رول ہے۔ ‘

مہتہ نے عدالت کو بتایا کہ کمار کی حراست میں پوچھ تاچھ ضروری ہے کیونکہ وہ تفتیش میں تعاون نہیں کر رہے ہیں اور سی بی آئی کے ذریعے پوچھے گئے سوالوں کا جواب دینے میں ان کا رویہ ‘ٹال مٹول ‘والا تھا۔انہوں نے کہا کہ کمار ایس آئی ٹی کے ذریعے جانچ‌کے انچارج تھے اور انہوں نے ملزمین سے ضبط کئے گئے موبائل فون اور لیپ ٹاپ کو چھوڑنے کی اجازت دی تھی جس میں گھوٹالہ میں سیاسی اہلکاروں کی مبینہ طورپر ملوث ہونے کے اہم ریکارڈ تھے۔انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ ضبط موبائل فون اور لیپ ٹاپ کو فارینسک تفتیش کے لئے بھی نہیں بھیجا گیا اور معاملے کا  ثبوت ضائع کر دیا گیا۔

مہتہ نے کہا کہ ٹیلی فون خدمات فراہم کرنےوالوں کے ذریعے ایس آئی ٹی کو مہیا کرائے گئے کچھ فون نمبرات کے پورے کال ڈٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر) سی بی آئی کے ساتھ شیئر نہیں کئے گئے۔ انہوں نے کہا، ‘وہ (کمار) اصل میں  شواہد  کو ضائع  کرنے میں ایک فریق ہیں۔ ‘مہتہ نے عدالت کو کچھ لاپتہ ثبوتوں کے بارے میں بتایا، جس میں ایک ڈائری بھی شامل ہے جس میں مبینہ طور پر گھوٹالہ میں بااثر افرادکو نقد ادائیگی کے ریکارڈ ہیں۔ مہتہ نے کہا کہ سی بی آئی معاملے کے ان اہم پہلوؤں پر کمار سے پوچھ تاچھ کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جب سی بی آئی کی ٹیم کمار سے کولکاتہ میں ان کی رہائش گاہ پر پوچھ تاچھ کرنے گئی تب مقامی پولیس نے سی بی آئی افسروں کو گھیر لیا۔

انہوں نے کہا،’کمار کی رہائش گاہ میں ایسا کیا تھا، جس نے ان کو سی بی آئی ٹیم پر در حقیقت حملہ کرنے کے لئے ترغیب دی۔ وہ کیا تھا؟ سی بی آئی ٹیم پوچھ تاچھ کے لئے ان کی رہائش گاہ پر گئی تھی۔ ‘اس پر، بنچ نے پوچھا، ‘آپ (سی بی آئی) وہاں بنا کسی سرچ نوٹس کے گئے تھے؟ ‘مہتہ نے عدالت کے سوال کا جواب ہاں میں دیا اور کہا، ‘اس اچانک ‘دھرنے ‘کی کیا وجہ تھی جہاں پولیس افسر وزیراعلیٰ کے ساتھ بیٹھے تھے؟ وہ ‘دھرنا ‘ کا مقام  ایک سیکریٹریٹ بن گیا۔ ‘سماعت کے دوران بنچ نے مہتہ سے کہا کہ اگر سی بی آئی یہ ثابت کر دے‌گی کہ کمار نے تفتیش میں تعاون نہیں کیا تو وہ ایجنسی کو ان سے حراست میں پوچھ تاچھ کی اجازت دے سکتی ہے۔

مہتہ نے عدالت کو بتایا کہ معاملے میں کمار سے پوچھ تاچھ کے بعد سی بی آئی ٹیم اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ وہ تعاون نہیں کر رہے تھے،’انہوں نے بااثر افراد کو کلین چٹ دی ‘اور جرم اپنے سینئر یا ماتحت افسروں پر ڈالنے کی کوشش کی۔بنچ نے کہا کہ کمار اس معاملے میں تفتیشی اہلکار نہیں بلکہ صرف ایس آئی ٹی کی قیادت کر رہے تھے اور سی بی آئی کو یہ ‘ریکارڈ میں دکھانا ہوگا ‘وہ ثبوت تباہ کرنے یا غائب کرنے میں ایک فریق تھے۔عدالت سی بی آئی کی ایک عرضی پر سماعت کر رہی تھی جس میں عدالت  نے اس معاملے کی تفتیش کرنے کے لئے کہا تھا۔ سی بی آئی نے اپنی عرضی میں کمار سے اس بنیاد پر حراست میں پوچھ تاچھ کی اجازت مانگی ہے کہ وہ پوچھ تاچھ میں ٹال مٹول والے جواب دے رہے تھے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)