خبریں

ون بندھو کلیان یوجنا: 100 کروڑ کا بجٹ گھٹاکر ایک کروڑ کیا گیا، خرچ نہیں ہو رہی رقم

مودی حکومت کے دعوے اور ان کی زمینی حقیقت پراسپیشل سیریز: ون بندھو کلیان یوجنا کا مقصد ملک کی مکمل آدیواسی آبادی کی ہمہ جہت ترقی، جس میں قبائلی علاقوں میں زندگی کے معیار میں اصلاح، تعلیم کے معیار کو بڑھاوا دینا، روزگار دینا، بنیادی ڈھانچے میں ترقی اور ان کی تہذیب اور وراثت کی حفاطت کرنا ہے۔

(علامتی تصویر: رائٹرس)

(علامتی تصویر: رائٹرس)

نئی دہلی: تاریخ پر تاریخ۔ یہ اکیلا ڈائیلاگ ہندوستانی عدلیہ نظام کی کہانی بتا دیتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح کا ایک لفظ ہندوستانی حکومتی نظام  میں مروج ہے۔ اس لفظ کا نام ہے ‘یوجنا’۔حکومتیں سوچتی ہیں کہ اسکیم بنا دو، ترقی ہو جائے‌گی۔ اسکیمیں بنتی ہیں، پیسہ مختص ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد اسکیموں کو مقامی افسروں کے بھروسے عمل آوری کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔گزشتہ70 سالوں میں غریبی ہٹانے کے لئے نہ جانے کتنی اسکیمیں بنیں، پلاننگ کمیشن بنا۔ سال 2014 میں اقتدار میں آئی نریندر مودی حکومت نے تو باقاعدہ پلاننگ کمیشن کو تحلیل کرکے نیتی آیوگ بنا دیا۔

لیکن، اسکیم بنانے کے کام میں مودی حکومت بھی پچھلی حکومتوں کی ہی طرح ثابت ہوئی۔اس حکومت نے بھی اکیلے آدیواسیوں کے لئے کئی اسکیمیں بنائی۔ ہم نے اس کتاب میں آدیواسیوں کی ترقی سے جڑی کئی اسکیموں کی اصل صورت حال کا جائزہ لیا ہے۔اسی سلسلے میں ایک اور اسکیم، ون بندھو اسکیم کا بھی ہم نے جائزہ لیا۔سال 2014 میں انتخاب جیتنے کے بعد اور نئی حکومت بننے کے تقریباً ایک سال کے اندر آدیواسی وزارت نے ایک اسکیم کا خاکہ تیار کیااور اس کی نگرانی کا کام خود وزیر اعظم دفتر (پی ایم او)نے اپنے ذمہ لے لیا۔

wada faramoshi

مالی سال 2015سے16 میں ملک کے آدیواسی آبادی والی درج فہرست 10 ریاستوں کے 10 بلاک کو چنا گیا، تاکہ وہاں پر ون بندھو کلیان یوجنا چلائی جا سکے۔اس سال کے بجٹ  میں اس کا ذکر بھی کیا گیا۔ ون بندھو کلیان یوجنا کے لئے 100 کروڑ روپے مختص بھی کئے گئے۔20 اپریل 2015 کو حکومت کے نوٹیفکیشن کے مطابق، اس اسکیم کا مقصد ملک کی مکمل آدیواسی آبادی کی ہمہ جہت ترقی کرنا ہے، جس میں قبائلی علاقوں میں زندگی کے معیار میں اصلاح، تعلیم کے معیار کو بڑھاوا دینا، قبائلی فیملیوں کو معیاری اور مستقل روزگار دینا، معیار پر دھیان دینے کے ساتھ بنیادی ڈھانچے میں ترقی اور قبائلی تہذیب اور وراثت کے تحفظ جیسے کام شامل ہیں۔

غور طلب ہے کہ 13 دسمبر 2014 کو نئی دہلی  کے ایک ہوٹل میں قبائلیوں کے فلاح و بہبود کے لئے وسائل کے استعمال پر غور و خوض کیا گیا تھا۔یہاں آدیواسی معاملوں کے وزیر مملکت نے بتایا تھا کہ ون بندھو کلیان یوجنا (وی کے وائی) گجرات ماڈل پر مبنی ہے۔ تو سوال ہے کہ پچھلے 2سے3 سالوں میں اس اسکیم کے تحت کتنا کام ہوا؟کیا سچ مچ 10 بلاک کے آدیواسیوں کی زندگی میں کچھ مثبت تبدیلی آئی؟ آر آٹی آئی کے تحت ملی جانکاری کے مطابق اس اسکیم کے لئے اگلے مالی سال میں پہلے سے دوگنی رقم جاری کی گئی۔

اس اسکیم میں کچھ اور ریاستوں کو جوڑ دیا گیا۔ کل ملاکر ہر ریاست کو 10 سے 20 کروڑ روپیہ دیا گیا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟یہی کہ آدھی سے زیادہ ریاستوں نے تو حساب تک نہیں دیا۔ اس کے بعد ہوا یہ کہ مالی سال 2017سے18 میں مودی حکومت نے چپ چاپ ا س کے بجٹ کو گھٹاکر صرف ایک کروڑ روپے کر دیا۔حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ یہ صرف ٹوکن رقم ہے کیونکہ ٹرائبل سب پلان کے پیسے سے ہی ون بندھو کلیان یوجنا کے تحت کام ہو رہا ہے۔ حالانکہ، یہ ایک الگ بحث کا موضوع ہے کہ ٹرائبل سب پلان کے پیسے کا کہاں اور کیسے استعمال ہو رہا ہے۔

اس موضوع پر بھی کتاب کے ایک دوسرے باب میں تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے کہ کیسے ٹرائبل سب پلان کا پیسہ آدیواسیوں کی ترقی کی جگہ تباہی کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔بہر حال، ون بندھو کلیان یوجنا کی حالت یہ ہے کہ جب ہم نے مختلف ریاستوں کی اسٹیٹس رپورٹ جمع  کرنے کی کوشش کی، تو ہمیں پتہ چلا کہ دو سال بعد بھی 50 فیصدی یوٹیلائزیشن سرٹیفکٹ جمع نہیں ہو سکا ہے۔آخر میں خودآدیواسی فلاح و بہبود کے مرکزی وزیر بھی قبول کرتے ہیں کہ اس اسکیم کے ساتھ واقعی سنگین مسئلہ ہے۔

16 جنوری 2017 کو اکانومک ٹائمس میں شائع رپورٹ کے مطابق، مرکزی وزیر نے کہا،’ون بندھو کلیان یوجنا کے تحت پہچانے گئے تمام بلاک میں ہم ایک بڑے مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم نے سوچا تھا کہ جو ماڈل گجرات میں اتنی کامیاب رہی ہے، ویسی ہی کامیابی دیگر ریاستوں میں بھی ملے‌گی۔ لیکن ہمیں مایوسی ہوئی ہے۔ ‘اب، مرکزی وزیر کے ذریعے یہ قبول  کئے جانے کے بعد، ون بندھو کلیان یوجنا کی معنویت اور نتیجے پر کچھ کہنے کو بچ نہیں جاتا ہے۔

(مودی حکومت کی اہم اسکیموں کا تجزیہ  کرتی کتاب وعدہ-فراموشی کے اقتباسات خصوصی اجازت کے ساتھ شائع کیے جا رہے ہیں ۔ آرٹی آئی سے ملی جانکاری کے مطابق یہ کتاب سنجے باسو ، نیرج کمار اور ششی شیکھر نے مل کر لکھی ہے۔)