خبریں

سی جے آئی گگوئی کو کلین چٹ: عورتوں کے حقوق کے  لیے لڑنے والی 350 کارکنوں نے فیصلے کو خارج کیا

کارکنوں نے کہا کہ ، آج  سیاہ اور افسوس ناک دن ہے۔ سپریم کورٹ نے ہمیں بتایا ہے کہ جب بات اپنے اوپر آتی ہے تو طاقت کا عدم توازن معنی  نہیں رکھتا، طے شدہ ضابطہ معنی نہیں رکھتا اور انصاف کے بنیادی پیمانے معنی نہیں رکھتے۔

چیف جسٹس رنجن گگوئی (فوٹو : پی ٹی آئی)

چیف جسٹس رنجن گگوئی (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی : 300 سے زیادہ وومین رائٹس کارکنوں اور سول سوسائٹی کے ممبروں نے جنسی استحصال  کے الزاموں پر چیف جسٹس رنجن گگوئی کو کلین چٹ دینے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ا س کو خارج کردیا ۔کارکنوں نے اس فیصلے کو سب سے بڑے آئینی ادارہ سپریم کورٹ کے ذریعے اقتدار کا گھنونا استعمال قرار دیا ہے۔دی لیف لیٹ کی خبر کے مطابق، اس معاملے میں جاری ایک پریس ریلیز میں کارکنوں نے لکھا ہے کہ ، آج ہم سپریم کورٹ کے اعتبارکو لے کر سنگین بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس کے خلاف جنسی استحصال کی شکایت سے نپٹنے میں عدالت شکایت گزار کی غیر جانبدارانہ شنوائی کرنے میں ناکام رہی  ہے۔

انہوں نے آگے لکھا ہے کہ ، شکایت گزار کے ذریعے معاملے میں اسپیشل جانچ کمیٹی کی تشکیل کی گزارش کو نامنظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ایک انٹرنل کمیٹی بنائی ،جس میں تین جسٹس تھے جو چیف جسٹس سے جونیئر تھے ۔ اس کے بعد 6 مئی 2019 کمیٹی نے یہ اعلان کردیا کہ شکایت گزار کے الزاموں میں دم نہیں ہے۔اس پریس ریلیز پر دستخظ کرنے والے کئی کارکن 1970 کی دہائی سے عدلیہ ، حقوق، اور قانونی اصلاحات کے مدعوں سے وابستہ رہے ہیں ۔ خاص طور سے یہ لوگ خواتین، جنسی تشدد اور ورکنگ پلیس  کے جنسی استحصال سے متعلق معاملوں کو دیکھتے رہے ہیں۔

خط میں آگے لکھا گیا ہے کہ ، ہم انٹرنل کمیٹی کے اس فیصلے کو سرے سے خارج کرتے ہیں جو کہ بنا کسی اصول ، ضابطہ اور غیر جانبدارانہ جانچ کی بنیاد پر لیا گیا ہے۔ اس معاملے میں نیچرل جسٹس کے اصولوں اور وشاکھا معاملوں میں لیے گئے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ یہ فیصلہ ورکنگ پلیس پر عورتوں کو جنسی تشدد سے متعلق ایکٹ 2013 کی بھی خلاف ورزی ہے۔کارکنوں نے یہ بھی لکھاہے کہ ، آج  سیاہ اور افسوس ناک دن ہے۔ سپریم کورٹ نے ہمیں بتایا ہے کہ جب بات اپنے اوپر آتی ہے تو طاقت کا عدم توازن معنی  نہیں رکھا، طے شدہ ضابطہ معنی نہیں رکھتا اور انصاف کے بنیادی پیمانے معنی نہیں رکھتے۔

غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ کی ایک سابق ملازم نے سپریم کورٹ  کے 22 ججوں کو خط لکھ‌کر الزام لگایا تھاکہ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی)جسٹس رنجن گگوئی نے اکتوبر 2018 میںان کا جنسی استحصال کیا تھا۔35 سالہ یہ خاتون عدالت میں جونیئر کورٹ اسسٹنٹ کے عہدے پر کام کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے ذریعے ان کے ساتھ کئے ‘ قابل اعتراض سلوک ‘ کی مخالفت کرنے کے بعد سے ہی ان کو، ان کے شوہر اور فیملی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔

گزشتہ  26 اپریل کو اس معاملے میں بنی جانچ  کمیٹی کی پہلی میٹنگ ہوئی اور متاثرہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئی۔اس کے بعد جسٹس رنجن گگوئی بھی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے۔معاملے کی شنوائی شروع ہونے کے کچھ دن بعد متاثرہ نے انٹرنل کمیٹی کے ماحول کو ڈراونا بتاتے ہوئے کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا تھا۔اس معاملے میں شکایت کرنے والی خاتون نے عدالت میں اپنے وکیل کی موجودگی کی اجازت نہیں دیے جانے سمیت کئی اعتراض کرتے ہوئے کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

خاتون نے کہا کہ اس کو اپنی حفاظت کی بھی فکر ہے کیوں کہ عدالت کی کارروائی سے لوٹتے وقت دو سے چار لوگوں نے اس کا پیچھا کیا۔ اس معاملے کو لے کر جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے تین ممبروں کمیٹی کو 2 مئی کو خط لکھ کر ایک فل کورٹ شنوائی کی مانگ کی ۔جسٹس چندر چوڑ نے جانچ کمیٹی کا دائرہ بڑھانے کے لیے ایک باہری ممبر کوبھی شامل کرنے کی مانگ کی ۔ اس کے لیے انہوں نے سپریم کورٹ کی ریٹائرڈ تین خاتوں ججوں کا نام بھی دیا تھا۔

 اس سے پہلے بار کاؤنسل آف انڈیا نے چیف جسٹس رنجن گگوئی کو معاملے میں کلین چٹ دیے جانے کی حمایت کی ہے ۔ بار کاؤنسل کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف الزام لگانے والی خاتون ‘نارمل’ نہیں ہے۔بار کاؤنسل کے چیئر مین منن کمار مشرا کی طرف سے جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان کا عام آدمی بیوقوف نہیں ہے ۔ لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ چیف جسٹس پر الزام لگانے والی خاتون کے پیچھے کسی طاقتور آدمی کا ہاتھ ہے ، خاتون کو نارمل نہیں مانا جاسکتا۔

(پورا خط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے)