فکر و نظر

پانچ سال میں بہار کی نتیش حکومت نے اشتہار پر خرچ کئے تقریباً پانچ ارب روپے

خصوصی رپورٹ : آرٹی آئی کے تحت ملی جانکاری کے مطابق بہار میں رابڑی دیوی حکومت نے سال 2000 سے 2005 کے دوران 23 کروڑ 48 لاکھ روپے اشتہار پر خرچ کئے تھے۔ وہیں نتیش کمار حکومت نے پچھلے پانچ سال میں اشتہار پر 4.98 ارب روپے خرچ کئے ہیں۔

بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

پٹنہ: بہار میں میڈیا پر غیراعلانیہ ایمرجنسی لگانے کے اپوزیشن  پارٹیوں کے الزامات کے درمیان نتیش حکومت نے پچھلے پانچ سالوں میں اشتہار پر 4.98 ارب روپے خرچ کئے ہیں۔ یہ جانکاری آرٹی آئی کے تحت ملی ہے۔درخواست میں گزشتہ پانچ سالوں میں بہار کے میڈیا (الکٹرانک اور پرنٹ)میں حکومت کی طرف سے دئے گئے اشتہار کو لےکر جانکاری مانگی گئی تھی۔ درخواست کے جواب میں جو جانکاری دی گئی ہے، اس کے مطابق مالی سال 2014سے2015 میں بہار حکومت نے 833428851 روپے خرچ کئے۔اگلے ہی مالی سال (2015سے2016) میں اشتہار خرچ میں تقریباً 15 کروڑ روپے کا اضافہ کرتے ہوئے کل 984214181 روپے خرچ کئے گئے۔

یہاں یہ بھی بتا دیں کہ سال 2015 میں ہی بہار اسمبلی کا انتخاب ہوا تھا۔ یہ انتخاب نتیش کمار نے آر جے ڈی  اور کانگریس کے ساتھ مل‌کر لڑا تھا اور جیت درج کر وزیراعلیٰ کی کرسی پر قابض ہوئے تھے۔آر ٹی آئی سے ملی جانکاری کے مطابق، مالی سال 2016سے2017 میں کل 868520318 اور مالی سال 2017سے2018 میں 925317589 روپے کے اشتہار مختلف اخباروں اور نیوز چینلوں کو دئے گئے تھے۔وہیں، مالی سال 2018سے2019 میں ایک ارب 33 کروڑ 53 لاکھ 18 ہزار 694 روپے اشتہار پر بہا دئے گئے، جو سب سے زیادہ ہے۔آر ٹی آئی کارکن نارائن گری نے بتایا کہ درخواست میں الگ الگ اخباروں اور نیوز چینلوں کو کتنے-کتنے روپے کا اشتہار ملا، اس کی تفصیل بھی مانگی گئی تھی، لیکن محکمے کی طرف سے بتایا گیا کہ وہ ایسے اعداد و شمار نہیں رکھتے۔

مالی سال 2015-2014سے لے کر 2019-2018 کے بیچ تقریباً 4 ارب 94 کروڑ روپے کا اشتہار بہار کی نتیش کمار حکومت کی جانب سے جاری کیا گیا۔

مالی سال 2015-2014سے لے کر 2019-2018 کے بیچ تقریباً 4 ارب 94 کروڑ روپے کا اشتہار بہار کی نتیش کمار حکومت کی جانب سے جاری کیا گیا۔

مالی سال 2014سے2015 سے لےکر 2018سے2019 کے درمیان تقریباً چار ارب 94 کروڑ روپے کے اشتہار بہار کی نتیش کمار حکومت کی طرف سےجاری کئے گئے۔سال 2000سے2001 سے اب تک اشتہار کے خرچ کا سالانہ اعداد و شمار لیں، تو پتہ چلتا ہے کہ آخر کے پانچ سالوں میں اشتہار پر خرچ میں بےتحاشہ اچھال آیا ہے۔سال 2010 میں آر ٹی آئی کے تحت جمع کی گئی جانکاری کے مطابق، مالی سال 2000سے2001 میں اخباروں میں اشتہار پر تقریباً چار کروڑ 96 لاکھ روپے خرچ کئے گئے تھے۔ سال 2001سے2002 میں اشتہار پر خرچ کی رقم چار کروڑ 89 لاکھ روپے تھی۔اس کے بعد کے سالوں میں پانچ کروڑ روپے سے کم کے اشتہار دئے گئے۔ مالی سال 2000سے2001 سے لےکر مالی سال 2004سے2005 تک یعنی پانچ سالوں میں تقریباً23 کروڑ 48 لاکھ روپے ریاستی حکومت کے ذریعے اشتہار پر خرچ کئے گئے۔

اس مدت میں بہار میں آر جے ڈی  کی حکومت تھی اور رابڑی دیوی بہار کی وزیراعلیٰ تھیں۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 24 نومبر 2005 میں نتیش کمار کی حکومت بننے کے بعد سے اشتہار پر خرچ میں تیزی سے اچھال آیا۔آر ٹی آئی سے ملی جانکاری کے مطابق، مالی سال 2005سے2006 میں 4.49 کروڑ روپے اشتہار پر خرچ کئے گئے تھے، جو سال 2006سے2007 میں 5.40 کروڑ اور اس کے اگلے ہی سال 9.65 کروڑ پر پہنچ گئے۔مالی سال 2008سے2009 میں تو اشتہار پر 24.99 کروڑ روپے خرچ‌کر دئے گئے، جو سال 2000سے2001 سے لےکر 2004سے2005 کے درمیان یعنی پانچ سالوں میں خرچ کی گئی رقم سے زیادہ تھے۔

سال 2008سے2009 سے ہی بہار حکومت نے الکٹرانک میڈیا کو بھی اشتہار دینا شروع کیا تھا، لیکن اس سال الکٹرانک میڈیا کو محض 25 لاکھ 30 ہزار روحے کا اشتہار دیا گیا تھا۔ باقی اشتہار بہار کے ہندی اخباروں اور انگریزی اخباروں کو ملے تھے۔نتیش حکومت پر سالوں سے الزام لگتا رہا ہے کہ وہ اخباروں اور نیوز چینلوں پر اشتہار کا بوجھ ڈال‌کر حکومت کی تنقید کرنے والی خبروں کو شائع کرنے سے روکتی رہی ہے۔گاہے بگاہے میڈیا کی گلیاروں میں خبریں بھی اڑتی ہیں کہ فلاں اخبار کا اشتہار حکومت نے اس لئے بند کر دیا، کیونکہ اس میں حکومت کی شدید تنقید کرتے ہوئے کوئی رپورٹ چھاپی گئی تھی۔اشتہار خرچ میں اس اضافہ کو اخباروں اور چینلوں پر دباؤ بنانے کی قواعد کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

پرنٹ میڈیا سے لمبے وقت سے جڑے سینئر صحافی پشئےمتر کہتے ہیں،’ نتیش کمار اخبار کے خلاف اشتہار کو ہتھیار کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ کوئی بھی اخبار تھوڑی سی بھی منفی خبر چھاپتا ہے، تو فوراً اس کا اشتہار بند کر دیا جاتا ہے۔ ‘

مالی سال 2000سے2001 سے لےکر 2009سے2010 یعنی 10 سالوں میں بہار حکومت کی طرف سے 102.89 کروڑ روپے اشتہار پر خرچ کئے گئے۔

مالی سال 2000سے2001 سے لےکر 2009سے2010 یعنی 10 سالوں میں بہار حکومت کی طرف سے 102.89 کروڑ روپے اشتہار پر خرچ کئے گئے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اشتہار بند ہو جانے کے ڈر سے اخباروں میں حکومت کی تنقید کرنے والی خبریں نہیں چھپتی ہیں۔ اگر کبھی کبھار چھپتی بھی ہیں، تو اندر کے صفحات پر کسی گوشہ میں، تاکہ قاریوں اور حکومت کی نظر ہی نہ جائے۔جے ڈی یو کے قریبی ایک اخبار میں کافی وقت تک کام کر چکے ایک صحافی نے نام نہیں چھاپنے کی شرط پر ایسے کئی مواقع گنائے، جب حکومت کی تنقید کرنے والی خبر کی وجہ سے اس اخبار کا اشتہار بند کر دیا گیا تھا۔ایک دیگر بڑے ہندی اخبار سے جڑے صحافی نے بھی نام نہ چھاپنے کی شرط پر کہا کہ ایک بار ان کے اخبار میں بہار میں جرم کے بڑھتے گراف کو لےکر تجزیاتی خبر چھپ گئی تھی، تو حکومت نے اشتہار روک دیا تھا۔ اشتہار دوبارہ جاری کروانے کے لئے اخبار میں کئی دنوں تک لگاتار شراب بندی کی’سکسیس اسٹوریز’چھاپنی پڑی تھی۔

غور طلب ہو کہ تقریباً5سے6 سال پہلے پریس کاؤنسل آف انڈیا کی طرف سے تشکیل شدہ تین رکنی جانچ کمیٹی نے بھی بہار میں میڈیا کی آزادی کو لےکر کئے ایک سروے میں مانا تھا کہ بہار میں میڈیا کو حکومت کا زبردست دباؤ جھیلنا پڑ رہا ہے۔رپورٹ میں لکھا گیا تھا،’بہار میں آزاد اور غیر جانبدارانہ صحافت ایمرجنسی کے وقت جیسا سینسرشپ جھیل رہی ہے۔ ‘ رپورٹ میں آگے کہا گیا تھا، ‘ بہار کے باہر سے چھپنے والے اخباروں کے صحافیوں کو ڈیسک سے کہا جاتا ہے کہ وہ ایسی خبریں دیں، جو حکومت کو خوش کر سکے۔ ایسا اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ حکومت سے اشتہار حاصل کیا جا سکے۔ ‘اتناہی نہیں، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اخباروں کا مینجمنٹ حکومت کے سامنے سرنگوں رہتا ہے تاکہ اشتہار نہ رک جائے۔

پریس کاؤنسل آف انڈیا کی ٹیم نے بہار سے چھپنے والے اخباروں کی خبروں کا تجزیہ کر بتایا تھا کہ وزیراعلیٰ کی سرگرمیوں کی ہر خبر نمایاں طور پر چھاپی جاتی ہے۔ کئی ایسی خبریں بھی چھپ جاتی ہیں،جو  اخباری معیار کے حساب سے چھپنے کے لائق نہیں ہوتیں۔پریس کاؤنسل آف انڈیا کی مذکورہ رپورٹ کو جھوٹا اور خیالی بتاتے ہوئے اس وقت پربھات خبر میں رہے ڈاکٹر ہرونش (راجیہ سبھا کے نائب چیئرمین)نے اپنے اخبار میں ایک طویل مضمون لکھا تھا۔ڈاکٹر ہری ونش نے مضمون کی شروعات معافی مانگتے ہوئے کی تھی،’ معافی کے ساتھ : پریس کاؤنسل آف انڈیا کی کسی رپورٹ کے لئے پہلی بار یہ صفت ہم نے استعمال کی کہ پریس کاؤنسل کی بہار رپورٹ جھوٹی ہے، یک طرفہ ہے، خیالی ہے یا تعصب سے متاثر ہے۔ یا کسی خاص نامعلوم مقصدسے بہار کی صحافت اور بہار کو بدنام کرنے کے لئے یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے۔ ہم یہ نتیجہ حقائق  کی بنیاد پر نکال رہے ہیں۔ ‘

یہاں یہ بھی بتا دیں کہ سال 2005 میں بہار میں این ڈی اے کی حکومت بننے کے محض تین سال کے اندر ہی نتیش کمار نے بہار اشتہار پالیسی بھی نافذ کی تھی۔ اس میں سرکاری اشتہار کی اہلیت کے لئے اخباروں کے سرکلیشن طے کئے گئے تھے۔بہار اشتہار پالیسی کے مطابق، ہندی کے و ہی اخبار سرکاری اشتہار پانے کی اہلیت رکھتے ہیں، جن کا سرکلیشن 45000 ہے۔ انگریزی اخباروں کے لئے 25000 اور اردو اخباروں کے لئے 20000 سرکلیشن طے کیا گیا ہے۔جانکار بتاتے ہیں کہ اس اصول کی وجہ سے کم سرکلیشن والا اخبار فطری طور پر نتیش حکومت کی تنقید کرنے والی خبروں کو درکنار کر ایسی خبریں چھاپنے لگے، جو حکومت کو خوش رکھ سکے۔ ان اخباروں کے مالکوں نے افسروں کی ملی بھگت سے اہلیت نہیں ہونے کے باوجود اشتہار حاصل کر لیا۔

مالی سال 2009سے2010 سے لےکر 2013سے2014 کے درمیان ایک ارب 80 کروڑ 67 لاکھ 79 ہزار 755 روپے بہار حکومت کی طرف سے اشتہار پر خرچ کئے گئے۔

مالی سال 2009سے2010 سے لےکر 2013سے2014 کے درمیان ایک ارب 80 کروڑ 67 لاکھ 79 ہزار 755 روپے بہار حکومت کی طرف سے اشتہار پر خرچ کئے گئے۔

مظفرپور سے نکلنے والا ہندی اخبار’پراتہ:کمل ‘اس کی تازہ مثال ہے۔ اس اخبار کا مالک برجیش ٹھاکر مظفرپور چائلڈ ہوم معاملے کاکلیدی ملزم ہے اور فی الحال جیل میں بند ہے۔

بہار کے محکمہ برائے اطلاعات و عوامی رابطے کی فائل میں پراتہ کمل کا سرکلیشن 40 ہزار سے زیادہ تھا۔ پراتہ کمل اور اس کے تحت چلنے والے اردو اخبار’حالات بہار’اور انگریزی روزنامہ ‘خبر نیکسٹ’کو ریاستی حکومت کی طرف سے سالانہ تقریباً30 لاکھ روپے کا اشتہار ملتا تھا، لیکن جانچ میں پتہ چلا تھا کہ ان اخباروں کا سرکلیشن کچھ ایک سو سے زیادہ نہیں تھا۔اتناہی نہیں، بالیکا گریہہ معاملے میں برجیش ٹھاکر کے خلاف معاملہ درج ہونے کے بعد بھی اس کا اخبار پراتہ کمل کو اشتہار ملتا رہا تھا۔


یہ بھی پڑھیں:  کیس درج ہوجانے کے باوجود ملتا رہا کلیدی ملزم کے اخبار کو سرکاری اشتہار


نتیش حکومت نے اشتہار پالیسی کے تحت ایک اور اہم قدم اٹھایا تھا کہ اشتہاروں کی ادائیگی کے لیے ایک مرکزی نظام قائم کیا۔ اس قدم کے ذریعے حکومت نے اخباروں پر اور پینی نظر رکھنا شروع کیا۔پہلے جب اشتہار جاری کرنے کا حق متعلقہ محکمہ جات اور ضلعی دفتروں کے پاس تھا، تب کوئی منفی خبر چھپنے پر متعلقہ محکمے کا اشتہار بند ہوتا تھا، ضلعے‎ کی طرف سے اور دیگر محکمہ جات کے اشتہار جاری رہتے تھے۔ لیکن،اس اشتہار پالیسی کے بعد ضلعی دفتروں سے متعلق اشتہار بھی محکمہ برائے اطلاعات اور عوامی رابطے جاری کرنے لگا۔اخباروں سے جڑے ذرائع نے بتایا کہ نئی اشتہار پالیسی آنے کے بعد کسی بھی محکمے کی منفی خبر چھپنے پر سارے محکمہ جات کے اشتہار بند ہو جاتے ہیں۔

پربھات خبر کے کارپوریٹ ایڈیٹر رہے راجیندر تیواری مانتے ہیں کہ سال 2005 میں بہار میں بنی نئی حکومت گجرات کی طرز پر اشتہار کا استعمال اخباروں پر شکنجہ کسنے کے لئے کرنے لگی ہے۔وہ کہتے ہیں،’پہلے جو حکومتیں ہوتی تھیں، وہ اشتہار کے ذریعے ایک پریشر بناتی تھیں، لیکن اس کا بیجا استعمال نہیں کرتی تھی۔ سال 2005 کے بعد جو حکومت آئی، اس نے اشتہار کو اخباروں پر قابو کرنے کا ایک ہتھیار بنا لیا اور یہ ٹریڈ بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ ‘ہندی اخباروں کے اشتہار محکمے سے جڑے لوگ بتاتے ہیں کہ بہار میں اخباروں کے کل ریونیو کا ایک بڑا حصہ سرکاری اشتہارات سے آتا ہے۔ ایسے میں اگر کسی اخبار کا اشتہار دو-تین مہینے کے لئے بند ہو جائے، تو اس کے ریونیو پر اچھاخاصا اثر پڑتا ہے۔ ایسا ہونے پر انتظامیہ کی طرف سے مدیر پر دباؤ بنایا جانے لگتا ہے کہ کسی بھی طرح وہ اشتہار شروع کروائیں۔

آرجے ڈی  کے سینئر رہنما شیوانند تیواری نے کہا،’بنا سینسرشپ لگائے اشتہار کے ذریعے اخباروں پر سینسر لگانے کے فن کو نتیش کمار نے مانجھ لیا ہے۔ ‘انہوں نے آگے کہا کہ بہار جیسی غریب ریاست میں پانچ سال میں 400 کروڑ روپے اشتہار پر خرچ کرنا معمولی بات نہیں ہے۔ آپ (نتیش کمار) بہار کو غریبی سے باہر نکالنے کے لئے اس کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے کی مانگ کرتے ہیں۔ اسپیشل پیکیج بھی مانگتے ہیں اور آپ کے پاس جو پیسہ آ رہا ہے، اس کو کس طرح خرچ کر رہے ہیں، یہ دیکھ لیجئے۔بہار جیسے غریب صوبے میں اشتہار پر بےتحاشہ خرچ کو ماہر اقتصادیات فضول خرچی مانتے ہیں۔

ماہر اقتصادیات ڈی ایم دواکر نے کہا، ‘ بہار کے ضلعوں میں اقتصادی عدم مساوات انتہا پر ہے۔ پٹنہ سمیت محض ایک درجن ایسے ضلعے‎ ہیں جہاں فی شخص آمدنی 60 ہزار کے اوپر ہے۔ ریاست کے 20 سے 22 ضلعوں میں فی شخص آمدنی 10 ہزار روپے سے بھی کم ہے۔ ریاستی حکومت کو اشتہار کی جگہ ان ضلعوں کی اہلیت کی توسیع پر خرچ کرنا چاہیے تھا۔ ‘جے ڈی یو رہنما نیرج کمار نے اشتہار پر بےتحاشا خرچ کرنے کے سوال پر کہا کہ مفاد عامہ سے جڑی اسکیموں کے بارے میں عام لوگوں کو بتانے کا ذریعہ ہے میڈیا۔ اشتہار دینے سے جے ڈی یو کی تشہیر تھوڑے ہو رہی ہے؟انہوں نے میڈیا ہاؤسز پر اشتہار کے دباؤ کے چلتے حکومت کے خلاف خبریں نہیں چھپنے کے سوال کو خارج کرتے ہوئے کہا، ‘ ایسا نہیں ہے کہ حکومت کے خلاف خبریں نہیں چھپ رہی ہیں۔ سیاسی تجزیے سے لےکر سب کچھ چھپتا ہے۔ ‘

گزشتہ سال بہار کے وزیر خزانہ سشیل کمار مودی نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ مالی سال 2005سے2006 (اس مالی سال میں رابڑی دیوی وزیراعلیٰ تھیں اور ان کی حکومت نے بجٹ پیش کیا تھا۔ سال 2005 کے نومبر میں نتیش کمار کی رہنمائی میں این ڈی اے کی حکومت بنی تھی)کے مقابلے میں 2018سے2019 میں بجٹ میں ساڑھے چھ گنا سے کچھ زیادہ اضافہ کیا گیا ہے۔اگر انہی دو سالوں میں اشتہار بجٹ کا حساب کیا جائے، تو پتہ چلتا ہے کہ تشہیرو اشاعت کے خرچ میں 20گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔حکومت بہار کی اقتصادی حالت  میں اصلاح لانے کے لئے بجٹ بڑھانے کے بھلےہی کتنے بھی دعوے کر دے، سال در سال تیزی سے بڑھتا اشتہار خرچ تو یہی بتاتا ہے کہ حکومت کو بہار کی صحت سے زیادہ اپنی امیج کی فکر ہے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہے۔ )