فکر و نظر

عدالت نے اپنے مکھیا کی حفاظت میں عدلیہ  پر عوام کے بھروسے  کا قتل کر ڈالا

جنسی استحصال کے معاملوں میں سب سے ضروری مانا جاتا ہے کہ اگر ملزم کسی ادارہ میں فیصلہ کن حالت میں ہے، تو وہاں سے اس کو ہٹایا جائے۔ گزشتہ دنوں ایسے کتنے ہی واقعات  ہمارے سامنے آئے جن میں ادارہ کے چیف کو کام سے بری  کیا گیا۔ غیر جانبداری کی یہ پہلی شرط مانی جاتی ہے۔ لیکن سپریم کورٹ سے جڑے اس خاص معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔

چیف جسٹس رنجن گگوئی(فوٹو : پی ٹی آئی)

چیف جسٹس رنجن گگوئی(فوٹو : پی ٹی آئی)

انصاف کے نظریے  کو انصاف پر غور و خوض  کرنے والوں کے ہاتھوں ہی شدید چوٹ پہنچی ہے۔ گزشتہ  چھے مئی کو سپریم کورٹ  کی طرف سے عوام کو بتایا گیا کہ چیف جسٹس کے خلاف عدالت کی ایک سابق اسٹاف کے ذریعے لگایا گیا جنسی استحصال کا الزام ثابت نہیں ہو پایا ہے۔ایسا اس معاملے کی تفتیش کرنے والی  تین رکنی ججوں کی کمیٹی نے نتیجہ نکالا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ کیا الزام جھوٹ پر مبنی تھایا اس کو ثابت کرنے کے لئے خاطر خواہ  بنیاد نہیں مل پائی۔عدالت کے انتظامیہ نے کہا کہ رپورٹ عام نہیں کی جائے‌گی، لیکن یہ صاف ہے کہ اس کو چیف جسٹس، جو اس معاملے میں ایک فریق  ہیں اور جس پر الزام لگا ہے، یہ رپورٹ دیکھ سکیں‌گے۔ کیا اس رپورٹ کو سپریم کورٹ کے سارے جج دیکھ سکیں‌گے؟

لیکن آخر عوام سے کیا پرداداری ہے؟ اسی عوام سے، جس کے پاس پچھلے ہی سال ہمارے چار جج سپریم کورٹ کے اندر کی شکایت لےکر پہنچے تھے۔ اگر گزشتہ سال وہ اس لائق تھی تو اب کیوں اسی عوام سے رپورٹ شیئر  کرنے میں تامل ہے؟کیا جانچ  کمیٹی کی رپورٹ سے اس واقعے  کا اختتام ہوگیایا جیسا ہم نے پہلے لکھا، عدالت کی پوری بنچ بیٹھ‌کر آگے اس پر کوئی کارروائی کا راستہ اور طریقہ طے کرے‌گی؟جانچ کمیٹی نے کل جمع چار اجلاس میں یہ نتیجہ نکال لیا کہ شکایت کرنے والی خاتون کے الزام میں کوئی دم نہیں ہے۔ انصاف کی اس تیز رفتاری پر کوئی بھی کمیٹی حسد کرے‌گی۔

ہمارے یہاں اس طرح کے الزام کی تفتیش میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔ یہ سستی کی وجہ سے نہیں ہوتا، بلکہ اس سبب کہ اس قسم کے حساس معاملے میں جانچ کمیٹیاں ہر طرح کا احتیاط برتنے کی پوری کوشش کرتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کا کارروائی  بےقصور دکھلائی بھی پڑے۔لیکن عدالت  کی اس کمیٹی کو لوک لاج کی پرواہ نہیں ہے، کیونکہ اپنے ہر کام کے جواز کا ماخذ خود وہی ہے۔ یعنی میں جو ہوں، وہ اپنے آپ میں میرے ہر کام کو درست ٹھہرانے کے لئے کافی ہے۔اس نے یہ بھی نہیں سوچا کہ شکایت کرنے والی خاتون نے تین سماعتوں کے بعد خود کو تفتیش سے الگ کر لیا۔ اس نے اپنی بات کو عام کیا۔ کہا کہ اس کو تین ججوں کی پوچھ تاچھ کا سامنا کرنے کے لئے کم سے کم ایک وکیل کی مدد دی جائے۔ سماعتوں کی رپورٹ اس کو دی جائے۔ اس نے کہا کہ اس کے ساتھ ٹھیک طریقے سے پیش نہیں آیا جا رہا ہے۔

کمیٹی نے ان مانگوں کو قابل غور بھی نہیں پایا۔ اس نے سینکڑوں خاتون اور مرد وکیلوں اور سماج کے الگ الگ شعبوں میں کام کرنے والوں کی اپیل کو سننا ضروری بھی نہیں سمجھا۔ طے کر لیا کہ وہ خاتون کی تفتیش میں شراکت داری کے بغیر بھی کام جاری رکھے‌گی۔خبروں کے مطابق، چیف جسٹس کو کمیٹی کے سامنے آنے سے پہلے سوال دستیاب کرا دئے گئے تھے۔ یہ خاتون کے ساتھ نہیں کیا گیا۔خاتون نے اپنے تفصیلی فردجرم میں کئی اور نام لئے تھے جو اس معاملے میں بامعنی  تھے۔ لیکن جیسا کہ تفتیش کی تیزی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ان سے بات چیت کرنی ضروری نہیں سمجھی گئی۔ادارہ کے اندر تفتیش ہو، اس کے لئے سب سے ضروری مانا جاتا ہے کہ اگر ملزم وہاں فیصلہ کن حالت میں ہے، تو وہاں سے اس کو ہٹایا جائے۔

گزشتہ دنوں ایسے کتنے ہی واقعات  ہمارے سامنے آئے جن میں ادارہ کےچیف کو کام سے بری  کیا گیا۔ غیر جانبداری کی یہ پہلی شرط مانی جاتی ہے۔ لیکن اس خاص معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔نہ صرف یہ بلکہ الزام لگنے کے بعد خود چیف جسٹس نے ہی بنچ تشکیل کرکے شکایت کرنے والی خاتون پر شدید حملہ کیا۔ سینئر ججوں نے شکایت پر شک ظاہر کرنے میں دیر نہ لگائی۔کہا گیا کہ یہ الزام صرف چیف جسٹس کے خلاف نہیں، بلکہ عدلیہ کی خودمختاری کے خلاف سازش ہے۔یہ سب کچھ کام کرنے کی جگہ پر جنسی استحصال کے سیاق و سباق میں خود عدالت عظمی کے ذریعے قائم عمل کی عدالت عظمی کے ذریعے ہی خلاف ورزی تھی۔ یہ سب کچھ سینئر، جونیئر، خاتون، مرد، تمام وکیل زور زور سے بار بار کہہ رہے تھے۔ لیکن عدالت  نے کسی کی پرواہ نہ کی۔

سنا گیا کہ عدالت کے اندر کے ہی ایک جج جسٹس چندرچوڑ نے گزارش کی تھی کہ تفتیش میں شفافیت لائی جانی چاہیے اور اس کا عمل منصفانہ ہونا چاہیے۔ ان کو بھی نہیں سنا گیا۔الزام لگنے کے دو ہفتے کے اندر چٹ پٹ انصاف کر دیا گیا۔ مہاجن مہاجن ثابت ہوئے، معمولی خاتون ایک دروغ گو شکایتی ثابت ہوئی۔ہمیں جو سنائی پڑا وہ یہ تھا، ‘ ہر کسی کو اپنی اوقات میں رہنا چاہیے۔ ‘ اس عورت نے اوقات سے باہر جانے کی کوشش کی اور اس کا نتیجہ بھگت رہی ہے۔عدالت نے اپنے مکھیا کی پاکدامنی کی حفاظت میں عدلیہ پر عوام کے اعتماد کا قتل کر ڈالا ہے۔

رویندرناتھ ٹھاکر نے راشٹرواد نامی اپنے مضمون میں مغرب کی تعریف ایک جگہ یہ کہہ‌کر کی ہے کہ اس سے ہمیں قانون کی حکومت کے بارے میں سمجھ ملی۔ قانون مساوات کے اصول پر کام کرتا ہے۔ اسی وجہ سے گاندھی کو بھی قانون کی حکومت پسند تھی۔ وہ برابری کی حکومت بھی ہے۔لیکن ابھی جس ایک اصول کو ٹھوکر ماری گئی، تو وہ برابری کا اصول ہے۔ابھی اگر ٹیگور اور گاندھی ہوتے تو ججوں کو کیا صلاح دیتے؟ یہ کہ خود کو انہی اصولوں کی کسوٹی پر کسیں، جو انہوں نے سب کے لئے بنائی ہیں۔ انہی عمل سے گزریں جو اورں کے لئے ٹھیک اور ضروری مانی گئی ہیں۔یہ دھیان رہے کہ جج بھی انسان ہے اور انسانی کمزوری ان کے اندر بھی ہو سکتی ہے انہوں نے جسٹس کرنن کو جیل بھیج‌کر شاید یہی بتایا تھا۔

پھر آج چیف جسٹس پر ایک الزام کے سامنے کیوں سارے اصولوں اور عمل کو طاق پر رکھ دیا گیا؟ کیا سارے جج بھول گئے کہ عدلیہ ان سب سے بڑا ہے، کیا وہ یہ بھول گئے کہ وہ فنا پذیر ہیں لیکن اس ادارے کی عمر کو ملک کے لئے لمبی ہونا ہے۔وہ خدا نہیں صرف طےشدہ مدت تک اس کی ٹرسٹی محض ہیں۔ جاتے وقت ان کو چادر جیوں کی تیوں تھام‌کر جانا ہے۔ لیکن اس معاملے سے انصاف کی چادر پر جو داغ لگا ہے، وہ کیسے مٹایا جا سکے‌گا؟جو ایک جگہ اصول اور عمل پر عہدہ اور اوقات کو برتری دیتا ہے، وہ دوسرے معاملوں میں کیسے قابل اعتماد مانا جائے‌گا؟ تو کیا انصاف اتفاق کا معاملہ ہوکر رہ جائے‌گا؟ابھی بھی موقع ہے۔ عدالت کی مکمل بنچ بیٹھ‌کر ایک شفاف عمل کے تحت باہری لوگوں کی نگرانی میں تفتیش کروا سکتی ہے اور یہ بتا سکتی ہے کہ اس ادارہ میں خود کو درست کرنے کی خواہش بھی ہے، ہمت بھی اور طاقت بھی، کہ ہمارے جج مانتے ہیں کہ ان سب سے بڑا انصاف کا نظریہ ہے۔

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔)