خبریں

ہتک عزت قانون کا استعمال پریس کو چپ  کرانے کے لئے نہیں کیا جا سکتا : دلی ہائی کورٹ

نیوز چینل پر ایک پروگرام نشر ہوا تھا، جس میں ایک اسٹنگ آپریشن کے ذریعے دکھایا گیا تھا کہ ایک کمپنی مغربی اتر پردیش میں مبینہ طور پر ملاوٹی یا سنتھیٹک دودھ بیچ رہی ہے۔

دلی ہائی کورٹ، فوٹو: پی ٹی آئی

دلی ہائی کورٹ، فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: دلی ہائی کورٹ  نے کہا کہ اسٹنگ آپریشن’سماج کا اہم حصہ ‘ہے کیونکہ وہ غلط کارناموں کا انکشاف کرنے میں مدد کرتے ہیں اور ہتک عزت قانون کو پریس اور میڈیا کا گلا گھونٹنے، ان کو دبانے اور چپ کرانے کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔عدالت نے کہا کہ یہ بھلایا نہیں جا سکتا کہ ہتک عزت قانون میں آئین کے ذریعے دی گئی بولنے اور اظہار رائے کی آزادی پر غیر مناسب پابندی لگانے کی صلاحیت ہے اور یہ یقینی بناناعدالت کا فرض ہے کہ ہتک عزت قانون کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔جسٹس راجیو سہائے اینڈلا نے انڈین پوٹاش لمیٹڈ (آئی پی ایل) کے ذریعے ایک نیوز چینل پر دائر ہتک عزت کے مقدمہ کو خارج کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔

آئی پی ایل مرکزی حکومت کی کمپنی ہے۔ وزارت کھاد و کیمیائی مواد، حکومت ہند (Ministry of Chemicals and Fertilizers) کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول نے نیوز چینل کے مالک اور مدیر سے 11 کروڑ روپے کا معاوضہ مانگا تھا۔نیوز چینل پر 27-28 اپریل 2007 کو ایک پروگرام نشر ہوا تھا، جس میں ایک اسٹنگ آپریشن کے ذریعے دکھایا گیا تھا کہ کمپنی مغربی اتر پردیش میں مبینہ طور پر ملاوٹی یا سنتھیٹک دودھ بیچ رہی ہے۔عدالت نے کہا کہ کمپنی نے یہ ثابت نہیں کیا کہ اس کی بے عزتی ہوئی یا اس سے نتیجہ بھگتنے پڑے، اس لئے کمپنی نقصان کے طور پر رقم وصول کرنے کی حقدارنہیں ہے۔عدالت نے کہا،’حال فی الحال میں اسٹنگ آپریشن تکنیک کے شعبے میں ہوئی بہتری کا نتیجہ ہے، جس سے زیر ہدف فردکی جانکاری میں آئے بغیر ویڈیو اور آڈیو ریکارڈ کی جا سکتی ہے۔ ایسے اسٹنگ آپریشنوں کی اپنی اہمیت ہے اور وہ آج سماج کا اہم حصہ ہے۔ ‘

فیصلے میں آگے کہا گیا،’غلط کام ہمیشہ غیر قانونی طور پر چوری چھپے ہی ہوتے ہیں اور اس میں پیچیدگیوں کی وجہ سے ہی شاید ہی یہ کبھی ثابت ہوتے ہیں یا کہ ان کا کوئی ثبوت ہی ملتا ہے۔ ان سے جڑا کوئی شخص میڈیا اور صحافیوں کے سامنے تو شاید ہی اس سے جڑے ہونے کو قبول نہیں کرتا۔ اصلی تصویر سامنے لانے کے لئے جال بچھانا پڑتا ہے۔ ‘عدالت نے یہ بھی جوڑا کہ ا س کے نشریات میں بھی میڈیا کے لوگ خود کو دودھ کے کاروبار سے جڑا ہوا بتاتے ہوئے ملاوٹ کرنے والوں کی مدد چاہتے ہیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ دودھ ایک اہم اشیائےخوردنی ہے، جو سماج کے لئے، خاص طور پر بچوں کے لئے بہت اہم ہے اور صحت سے جڑے ہونے کے سبب ہمیشہ سے مفاد عامہ کا مسئلہ رہا ہے۔عدالت نے کہا کہ اس طرح کے معاملوں کو عوام کے سامنے لانے کا واحد طریقہ اس طرح کے اسٹنگ آپریشن ہیں، جن کے سبب بھلےہی غلط کرنے والے کو سزا نہ ملے لیکن ایسے غلط کام تھوڑے وقت کے لئے ہی صحیح رک جاتے ہیں۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پریس اور میڈیا کو ہمیشہ ہتک عزت سے جڑے عام قانون سے چھوٹ یا حفاظت نہیں ملتی ہے، لیکن یہ دھیان میں رکھا جانا چاہیے کہ ہتک عزت قانون میڈیا کو خاموش کرانے یا اس کو دبانے یا روک وغیرہ کے لئے نہیں ہے۔یہ بات بھی نہیں بھولی جا سکتی کہ ہتک عزت قانون میں بولنے اور اظہار رائے کی آزادی پر ایک غیرواجب  پابندی لگانے کی صلاحیت ہے اور ایسے معاملوں میں فیصلہ دیتے وقت عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ ہتک عزت قانون کا غلط استعمال نہ ہو۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی شخص یا میڈیا کو قانونی کارروائی کا ڈر رہے‌گا تو وہ عوام سے جڑے مدعوں پر کھل‌کر اپنی رائے نہیں رکھ سکیں‌گے اور ایسا ہونے پر عوام سے جڑے مسائل پر عوامی بحث اور سوال ہی ختم ہو جائیں‌گے۔

عدالت نے آرٹی آئی  کا بھی حوالہ دیا۔ اس نے کہا کہ یہ اطلاع کے حق ‘ کا زمانہ ہے۔ جو جانکاری پہلے عوام کو نہیں ملتی تھی، اب وہ ان کو دستیاب ہے اور اس کا نتیجہ گڈ گورننس ہے۔عدالت نے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے ذریعے رافیل معاملے میں دئے گئے فیصلے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ وہاں عدالت  نے آرٹی آئی  کو آفیشیل سیکریٹس ایکٹ کے اوپر رکھا تھا اور مانا تھا کہ اس کو آر ٹی آئی قانون کے ساتھ برابری میں ہونا چاہیے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)