فکر و نظر

کیا مسعود اظہر پر یواین کی پابندی سے مودی کو انتخابی فائدہ ہوسکتا ہے؟

ہندوستان  میں انتخابات کی گہما گہمی کے بیچ اقوام متحدہ کا یہ فیصلہ یقیناً وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک اہم کامیابی ہے۔

فوٹو : رائٹرس

فوٹو : رائٹرس

غالباً 1996میں حکومت جموں و کشمیر نے صحافیوں کو جموں کے نواح میں کوٹ بلوال جیل کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ سلاخوں کے پیچھے لنگڑاتے ہوئے ایک باریش شخص، جیل کی رہداریوں سے گزرتے ہوئے صحافیوں کی طرف ہاتھ ہلا کر،بار بار اپنی طرف توجہ مرکوز کروانے کی کوشش کر کے کہہ رہا تھا ،’کہ میں بھی ایک صحافی ہوں۔’مگر شاید ہی کسی نے دھیان دیا۔ کیونکہ صحافیوں کا گروپ کسی مولوی نما صحافی پر وقت صرف کرنے کے بجائے حرکت الانصار کے کمانڈروں،نصراللہ منصور لنگریال اور سجاد افغانی کو دیکھنے کے لیے بیتاب تھا۔ پست قد اور فربہ بدن کا حامل یہ مولوی کوئی اور نہیں بلکہ جیش محمد کا موجودہ  سربراہ مولانا مسعود اظہر تھا۔اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ 23سال بعدیہ شخص عالمی سفارت کاری کے پیچ و خم کا محور بن کر اقوام متحدہ کی ترتیب دی گئی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ امریکہ کے مسلسل مطالبے پر چین اقوام متحدہ کی کمیٹی کی جانب سے مسعود اظہر پر پابندی سے متعلق رکاوٹ سے پیچھے ہٹ گیا۔ہندوستان  2016 سے مسعود اظہر کا نام پابندی کی اس فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا۔  اس مطالبے نے اس وقت زور پکڑا، جب رواں سال 14 فروری کو  ضلع پلواما میں ہندوستان  کی سی آر پی ایف پر حملے کی ذمہ داری جیش محمد نے قبول کی۔ہندوستان کی درخواست پر فرانس، امریکہ اور برطانیہ نے مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد پیش کی تھی،تاہم 13 مارچ کو چین نے سلامتی کونسل میں مسعود اظہر کے خلاف قرارداد کو ٹیکنکل اعتراضات لگا کر روک دیا تھا۔ چین کی مخالفت پر امریکہ مسعود اظہر کا معاملہ واپس یو این کمیٹی میں لے آیا،  جہاں ایک صبر آزما سفارتی تگ و دو کے بعد اس کو بالآخر دہشت گرد قرار دیا گیا۔ہندوستان  میں انتخابات کی گہما گہمی کے بیچ اقوام متحدہ کا یہ فیصلہ یقناً وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک اہم کامیابی ہے۔ چونکہ مودی نے دیگر ایشوز کو پس پشت ڈال کر انتخابی مہم کو پاکستان کو سبق سکھانے اور دہشت گردی تک ہی مرکوز کر دیا ہے، وہ اس فیصلہ کو انتخابات میں بھر پور طریقے سے بھنا رہے ہیں۔

مسعود اظہر کا دورہ کشمیر،گرفتاری اور اس کے بعد پیش آئے واقعات کا سلسلہ جنوری 1994میں جنوبی کشمیر میں سرگرم ایک اہم کمانڈر نصرا اللہ لنگریال کی گرفتاری سے شروع ہوا تھا۔ اس کو چھڑانے کے لیے ایک اور جید کمانڈر سجاد افغانی نے سرینگر کے الہیٰ باغ علاقہ میں آرمی کیمپ پر دھاوا بو ل کر کمانڈگ آفیسر میجر بھوپندر سنگھ کو اغوا کر دیا۔ وہ اس کے عوض لنگریال کی رہائی  چاہتے تھے۔ مگر ہندوستانی  حکام نے منع کردیا۔ چند روز بعد میجر کی لاش جنوبی کشمیر کے کسی دیہات میں پائی گئی۔ افغانی کے اس طرح کے آپریشنز شاید تنظیم کی طویل مدتی پلاننگ کا حصہ نہیں تھے۔ معروف مصنف ایڈرین لیوی کی تحقیق کے مطابق اس خطے میں حرکتہ جہاد اسلامی اور تحریک المجاہدین کے کمانڈر، حرکتہ الانصار میں تب تک ضم بھی نہیں ہوئے تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ چونکہ شمالی کشمیر کی نسبت جنوبی کشمیر میں ہندوستانی فوجوں کا جماؤ کم تھا، اس لئے  اسکیم تھی کہ جنوبی کشمیر کے دور افتادہ علاقوں نیز چناب ویلی کے ڈوڈہ، کشتواڑ اور بھدرواہ و بٹوت وغیرہ علاقوں میں مقامی نوجوانوں کو تربیت و اسلحہ سے لیس کرکے شیروں اور چیتوں کی ایسی فوج تیار ہو، جو فی الحال خفتہ رہے۔ اس کو بخوبی انجام تک  پہنچانے کے لیے ضروری تھا کہ اس علاقے میں عسکری کارروائیوں سے گریز کیاجائے۔ تاکہ 1999کے کرگل جیسے معرکہ کی صورت میں یہ شیر اور چیتے جاگ کر وادی کشمیر کی واحد شہ رگ جموں-سرینگر قومی شاہراہ پر بندشیں لگا کر  ہندوستانی فوج کی نقل و حمل کو ناممکن بنالیں۔ مگر کمانڈروں کی آپس کی نااتفاقی اور پھر دیگر عسکری گروپوں حزب المجاہدین کے ساتھ معرکہ آرائی اور افغانی کے بظاہر نڈر اور جان پر کھیلنے والے آپریشنز، طویل مدتی پلاننگ کو ناکام کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ ان مسائل کو سلجھانے کے لیے مسعود اظہر کو جنوبی کشمیر میں گراؤنڈ پر موجود کمانڈروں کو سمجھانے اور معرکوں سے حتی الامکان بچنے کی ہدایت دینے کے لیے بذریعہ ڈھاکہ اور دہلی، سرینگر روانہ کیا گیا۔

فروری 1994 ایک سرد رات کو جنوبی کشمیر کے متی گنڈ گاؤں میں مولانا اظہر نے حرکت کے کمانڈروں پرصورت حال واضح کر تے ہوئے، اور انہیں فی الحال ہائی رسک آپریشنز سے باز رہنے کی ہدایت تو دی، مگر خود اگلے روز اسلام آباد (اننت ناگ) کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز و خطاب کرنے کی ٹھانی۔ سجاد افغانی اور ایک مقامی کمانڈر فاروق انیس  ان کے ہمراہ تھے۔ راستے میں گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے وہ آٹو رکشہ میں سوار ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ مقامی کمانڈر جو آٹو میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا تھا، کی کسی ناکے پر شناخت کی گئی  جس کے بعد فوج نے ان کو گھیر لیا۔ فاروق نے فائر کھول کر گھیرا توڑ دیا اور نزیک ہی جنگل میں گم ہو گیا۔ مگر اظہر اور افغانی کو پکڑ کر کھندرو کے آرمی کیمپ میں لایا گیا۔ مولانا مسعود اظہر کی انٹراگیشن رپورٹ جو ہندوستانی وزارت داخلہ نے جاری کی ہے، کے مطابق برطانیہ کے ڈربی شائر میں مقیم ایک تاجر حافظ شاہ نے ان کو پرتگیزی پاسپورٹ بنانے میں مدد کی تھی۔  اس پر ان کا نام ولید آدم عیسی ٰ  تھا۔ اس انٹروگیشن رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ صومالیہ میں پاکستانی افواج کی موجودگی کے خلاف ایک رائے عامہ بنانے کے لیے انہوں نے تین مقتدر پاکستانی صحافیوں کے ساتھ نیروبی کا دورہ کیا تھا۔ غنیمت ہے کہ ابھی تک ہندوستان یا امریکہ نے ان صحافیوں کے خلاف مورچہ نہیں کھولا ہے۔

آرمی کیمپ میں افغانی اور اظہر کی ابھی تک شناخت نہیں ہو ئی تھی۔ مگر اظہر کو بچانے کی خاطر افغانی نے ایک داؤ کھیلا۔ اس نے سپاہیوں کو بتایا کہ وہ ایک انتہائی اہم اطلاع کسی آفیسر کے گوش گزار کرنا چاہتا ہے۔ چند لمحوں کے بعد اس کو ایک کرنل کے روبرو کیا گیا، جس کے ماتھے پر ایک بڑا ٹیکہ لگا ہو اتھا۔ افغانی نے اس کو کہا،’آپ کو مبارک ہو، میں سجاد افغانی کمانڈر ہوں۔ میں نے اس مولوی کو تاوان کے لیے اغوا کیا تھا۔ اس کی دعائیں رنگ لائی ہیں، کہ آپ نے مجھے گرفتار کیا۔ اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔’

اس اعلان کے بعد تو اس ملٹری کیمپ سے لیکر دہلی تک ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سرینگر میں مقیم آرمی کی 15ویں کور کے اس وقت کے کمانڈر جنرل سند ر راجن پدمانابھن کے مطابق کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ افغانی ان کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ پد مانابھن بعد میں فوج کے سربراہ بھی تھے۔ افسر نے فوراً ہی افغانی کو تفتیشی محکمہ کے سپرد کردیا۔ اگلے تین دن تک شدید ترین انٹر وگیشن کے باوجود سجاد افغانی یہی بیان دہراتا رہا۔ افسران کو بھی شاید اب یقین ہو گیا تھا کہ یہ فربہ مولوی ناحق ہی ان کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔مگر رہائی سے قبل اس کا بیک گراؤنڈ چیک کرنے کے لیے جب اس کو انٹروگیشن کے کمرے میں لایا گیا، تو ان کے بقول ایک گھنٹے کے اندر ہی اس نے پوری کہانی اگل دی۔تاہم دسمبر 1999تک جب ہندوستانی فضائیہ کے اغواشدہ طیارے اور اس کے مسافروں کے عوض اس کو قندھار لے جاکر رہا کیا گیا،ہندوستانی حکام نے اظہر کے خلاف عدالت میں دہشت گردی سے متعلق کوئی کیس دائر نہیں کیا۔

بلکہ احتیاطی گرفتاری قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں رکھا۔ حتیٰ کہ پرتگیزی پاسپورٹ رکھنے کے جرم میں بھی کوئی چارہ جوئی نہیں کی۔ 1994اور 1995میں مسعود اظہر، سجاد افغانی اور نصراللہ لنگریال کو قید سے آزاد کرانے کے لیے تین اہم آپریشنز کئے گئے۔ اکتوبر 1994کو برطانوی نژاد پاکستانی عمر شیخ سعید نے دہلی میں تین برطانوی اور ایک امریکی شہری کو اغوا کرکے ان کی رہائی کی مانگ کی تھی۔ مگر یہ آپریشن بری طرح ناکام ہوا۔ اسی طرح حرکت کے کمانڈر سکندر نے جنوبی کشمیر میں دو برطانوی شہریوں کو اغوا کیا۔ مگر ان کو جلد ہی چھوڑنا پڑا، کیونکہ ان میں سے ایک دہلی میں مقیم  برطانوی صحافی کا بیٹا تھا۔ اس طرح 1995ایک غیر معروف تنظیم الفاران نے 6غیر ملکی سیاحوں کو اغوا کیا، جن کا ابھی تک کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ اغو ا کار اظہر اور دو کمانڈروں کی رہائی کی مانگ کر رہے تھے۔ آخر میں دسمبر 1999کو انڈین ایر لائنز کی IC814  اغوا شدہ اڑان  کے عوض مسعود اظہر اور عمر شیخ سعید کو رہا ئی۔ اس وقت کے ہندوستانی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے ان کو بذریعہ طیارہ قندھار لے جاکر اغوا کاروں کے حوالے کردیا۔ اس طیارہ کے اغوا کے ایک ماہ قبل ہی سجاد افغانی کا جیل میں گردوں کی خرابی اور پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا۔

ہندوستانی حکام کے مطابق وہ جیل سے فرار ہونے کی ایک ناکام کوشش میں مارا گیا۔ مگر عینی شاہدین کے مطابق جیل میں ایک ٹنل کی دریافت کے بعد افغانی کو ایک پنجرے میں بند کرکے پانی سے محروم رکھا گیا اور تین د ن بعدتڑپ کر اس نے جان دی۔ حیرت کی بات ہے کہ ا ن سبھی واقعات کا سلسلہ نصراللہ لنگریال کی گرفتاری سے شروع تو  ہوا تھا، مگر قندھار ہائی جیکنگ میں اس کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ 2011میں کوٹ بلوال جیل میں 18سال مکمل کرنے کے بعد اس کو قیدیوں کے تبادلہ کے سلسلہ میں پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دلوانے سے مودی شاید انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل تو کرلیں، مگر اس سے کشمیر کی اندرونی صورت حال پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔ کشمیر ایک سیاسی پروسیس کا متلاشی ہے۔اِس پروسیس کو کسی اور سیاسی دائرے سے جوڑنانہایت ہی نا مناسب ہے۔ مسعود اظہر کا واقعہ بھی بتاتا ہے کہ کوتاہ مدت کے مقاصد کی آبیاری کے لیےدراز مدت کے اغراض و مقاصد کو قربان کرنا کبھی سود مند ثابت نہیں ہو سکتا۔وزیر اعظم مودی اور ہندوستانی حکام کو بھی اس حقیقت کا جتنی جلدی ادراک ہوجائے، اچھا ہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اوران کا کالم بدھ کے روز شائع ہوتا ہے۔ پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)