فکر و نظر

جس ہیمنت کرکرے کو میں جانتی تھی

پرگیہ ٹھاکر، اگر آپ جیتے جی ان کااحترام نہیں کر پائیں، تو کم سے کم شہادت کے بعد تو ان کی ہتک نہ کریں۔

ہیمنت کرکرے نومبر 2008 میں ممبئی میں ہوئے دہشت گرد حملے میں شہید ہوئے تھے۔

ہیمنت کرکرے نومبر 2008 میں ممبئی میں ہوئے دہشت گرد حملے میں شہید ہوئے تھے۔

ہیمنت کرکرےسخت فیصلہ لینے والے اور پختہ ارادے کےمالک تھے، یہ بات کوئی ان سے پہلی ملاقات میں ہی سمجھ سکتا تھا۔ یہ بات کہ وہ اصولوں کے پکے تھے اور  دلائل کو پسند کرتے تھے، یہ بھی آپ کو جلد ہی پتہ چل جاتا۔وہ ویسے شخص نہیں تھے، جو غصے میں رہتے ہوں۔ وہ کوئی رائے بنانے سے پہلے سامنے والے کو توجہ سے سنتے تھے اور اچھی طرح سے غور و خوض کرتے تھے۔ ان کے ساتھ ہوئی بات چیت کبھی بھی سطحی نہیں ہوتی تھی۔

ہمارے بےفکری بھرے دنوں میں ہم دونوں نے ممبئی پولیس کے مشہور دیوالی شو کی نظامت کی  تھی۔ یہ کافی مزیدار تھا۔ میں نے کبھی بھی ان کو زور سے ہنستے نہیں سنا، لیکن وہ دلچسپ طریقے سے مسکراتے تھے ؛ جیسےجیسے ان کے کام کی ذمہ داری بڑھی، وہ اکثر تھوڑے پریشان دکھنے لگے۔نوکری میں ہماری ذمہ داری بڑھتے جانے کے ساتھ-ساتھ ہماری مصروفیت بھی بڑھتی گئیں، پھر بھی کانفرنس وغیرہ کے دوران ہماری ملاقات ہو جاتی تھی۔

کرکرے گہرائی سے غور و فکر کرنے والے شخص تھے، اس لئے جب بھی وہ اپنی بات کہنے کے لئے ہاتھ اٹھاتے تھے، لوگ ان کو غور سے سنتے تھے، کیونکہ وہ تبھی کچھ بولتے تھے، جب ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ ہوتا تھا۔ نہیں تو وہ کافی صبر وتحمل والے اور دوسروں کو دلچسپی کے ساتھ سننے والوں میں سے تھے۔وہ ایک خالص پیشہ ور تھے۔ ملٹی نیشنل کمپنی میں ایک شاندار کیریئر چھوڑ‌کر وہ انڈین  پولیس سروس میں شامل ہوئے تھے۔

وہ کام کرنے کے اپنے منظم اور منطقی طریقے کے لئے مشہور تھے۔ ایک حق پرست افسر، جو چھوٹی سے چھوٹی  تفصیل میں چھپے سراغ نکال لاتے اور جب ہم میں سے کئی چین کی نیند لیا کرتے تھے، وہ دیر رات تک جاگ‌کر کام کرتے۔وہ ایک گھریلوفردبھی تھے، جو اپنے تین بچوں کی پرورش میں دلچسپی لیتے تھے۔ وہ اور ان کی مرحومہ بیوی کویتا عملی اور تجربہ کار والدین تھے۔میں نے دیکھا تھا کہ بچوں کو کیا کرنا چاہیے یا نہیں، اس پر وہ گہرائی سے سوچتے تھے۔ اور اس کا نتیجہ سامنے ہے : آج ان کے تینوں بچے اپنی زندگی میں اچھا کر رہے ہیں۔

میں جب یہ سوچتی ہوں کہ آخر ہیمنت کو ان کے جونیئر اور سینئر افسر دونوں کی عزت کیسے ملتی تھی، تو اس کی وجہ مجھے یہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ بےحد ایماندار انسان تھے۔مجھے یاد ہے کہ ایک شام کو مجھے ان کا فون آیا اور انہوں نے پوچھا کہ کیا میں کھانا کھانے کے لئے دادر کے ایک خاص ریستوراں گئی تھی؟

‘ ہاں، ‘ میں نے تصدیق کی۔

انہوں نے کہا، ‘ پھر وہاں کبھی مت جانا۔ ‘

میں نے پوچھا، ‘ کیوں؟ ‘

اس پر انہوں نے مجھے ہوشیار کرتے ہوئے بتایا،’کیونکہ ریستوراں کے مالک نے تمہارے وہاں ہونے کے بارے اپنے تمام کانٹیکٹس کو ایس ایم ایس کرکے بتایا ہے اور یہ پیغام میرے پاس بھی آیا۔ ‘ وہ بنا لاگ-لپیٹ‌کے فیڈ بیک دینے والے اور ایک سچے دوست تھے۔ان کی شہادت سے ٹھیک پہلے، میں نے ان کو پونے سی آئی ڈی میں ایک بات چیت کے لئے مدعو کیا تھا۔انہوں نے مجھے فون کرکے کہا کہ ایک تفتیش میں مصروف ہونے کی وجہ سے وہ نہیں آ پائیں‌گے۔ میں نے ان کو بیچ میں روکتے ہوئے کہا کہ پروگرام کی تاریخ ایک مہینے بعد ہے۔

ایک منٹ تک خاموش رہنے کے بعد انہوں نے معافی مانگتے ہوئے کہا ان کو تاریخ کو لےکر غلط فہمی ہو گئی تھی اور ان کو یہ لگا کہ پروگرام تین دن بعد ہی ہے۔ ایسا ہونا ان کی شخصیت کے برعکس تھا اور میں نے محسوس کیا کہ وہ کافی تناؤ میں تھے۔مہاراشٹراے ٹی ایس کا چیف ہونا پریشانیوں کا تاج پہننے کی مانند ہے اور اس کی اپنی پریشانیاں ہیں۔ہیمنت بھی اس سے الگ نہیں تھے اور ہم سب یہ دیکھ سکتے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم جو چیز نہیں دیکھ پائے وہ یہ تھی کہ ہمارا یہ بہادر دوست ہمیں اتنی جلدی چھوڑ‌کر چلا جائے‌گا۔

جب میں ان کو خراج عقیدت پیش کرنے گئی تھی، تب ان کی پیشانی پر گولی کا زخم کافی گہرا لگ رہا تھا۔ سفید چادر کے پیچھے چھپے ان دیکھے زخموں کے بارے میں سوچ‌کر ہی میں کانپ گئی۔پرگیہ ٹھاکر، آپ کو وہاں ان بہادر لوگوں کے اعزاز میں موجود ہونا چاہیے تھا، جنہوں نے گولیوں کی بوچھار کی تاکہ آپ اور میں محفوظ سو سکیں۔ اگر آپ جیتے جی ان کا احترام نہیں کر پائیں، تو کم سے کم شہادت کے بعد تو ان کی ہتک تو نہ کریں۔یہ یاد رکھیں کہ ایک شہید کی ہتک کرکے آپ پورے ملک کی توہین کر رہی ہیں۔ ایک شہری کے طور پر ہم لوگ آپ کو کبھی معاف نہیں کر پائیں‌گے۔

معاف کرنا ہیمنت، اس کے لئے جو سرسوتی ٹھاکر نے تمہارے ساتھ کرنے کی کوشش کی! یہ ملک تم کو پیار کرتا ہے، تمہاری عزت کرتا ہے۔ میرے بہادر دوست، تمہاری روح کو سکون ملے۔

میراں چڈھا بورونکر ریٹائرڈآئی پی ایس افسر ہیں۔

(یہ مضمون بنیادی طور پر Indus Dictum پر شائع ہوا ہے، جس کو مضمون نگار کی اجازت سے ترجمہ کرکے شائع کیا گیا ہے۔ )