فکر و نظر

کیا صحافیوں کو اب بی جے پی صدر امت شاہ سے صحافت سیکھنی ہوگی؟

کولکاتہ میں گزشتہ منگل کو اپنے روڈ شو کے دوران ہوئے تشدد کے میڈیا کوریج سے مجروح کیوں ہیں بی جے پی صدر امت شاہ؟

کولکاتہ میں ہوئے روڈشو کے دوران ہوئے تشدد کے بارے  میں بدھ کو بی جے پی صدر امت شاہ نے نئی دہلی واقع بی جے پی صدر دفتر پر پریس کانفرنس کی(فوٹو : پی ٹی آئی)

کولکاتہ میں ہوئے روڈشو کے دوران ہوئے تشدد کے بارے  میں بدھ کو بی جے پی صدر امت شاہ نے نئی دہلی واقع بی جے پی صدر دفتر پر پریس کانفرنس کی(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کیا صحافیوں کو اب بی جے پی صدر امت شاہ سے صحافت سیکھنی ہوگی؟ یہ سوال اس لئے کھڑا ہوا ہے کیونکہ منگل کو کولکاتہ میں بی جے پی صدر کے روڈ شو کے دوران ہوئے تشدد کو لےکر امت شاہ نہ صرف ترنمول کانگریس پر حملہ آور ہیں، بلکہ میڈیا سے بھی مجروح نظر آ رہے ہیں۔صرف مجروح ہی نہیں بلکہ میڈیا کو نصیحت بھی دے رہے ہیں۔ بتا رہے ہیں کہ صحافت کیسے کی جانی چاہیے، ہیڈنگ کیسی لگانی چاہیے۔واضح  ہو کہ مغربی بنگال کی راجدھانی کولکاتہ میں منگل کو بی جے پی صدر امت شاہ کے روڈ شو کے دوران بی جے پی اور ترنمول کارکنان کے درمیان تشدد آمیز جھڑپ ہو گئی تھی۔ اس دوران بنگال نشاۃ ثانیہ کی اہم ہستی اور مشہور مصلح ایشورچندر ودیاساگر کا مجسمہ توڑ دیا گیا تھا۔

تشدد کے دوران ودیاساگر کالج میں مجسمہ توڑے جانے کے معاملے میں بی جے پی صدر امت شاہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ اب ترنمول کانگریس اور بی جے پی کے درمیان الزامات کا دور شروع ہو گیا ہے۔ایک ویڈیو کلپ میں امت شاہ کو یہ کہتے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے، ‘میڈیا کا رویہ  دیکھیے۔ ابھی میری ریلی پر حملہ ہوا تو اے بی پی نے ٹائٹل کیا لگایا، میں نام کے ساتھ کہتا ہوں اے بی پی نیوزٹائٹل کیا بنایا کہ امت شاہ کی ریلی میں تشدد ہو گیا، جیسے ہم نے تشدد کر دیا۔ ٹائٹل ہونا چاہیے تھا کہ امت شاہ کی ریلی پر ترنمول کے غنڈوں نے حملہ کیا، یہ افواہ پھیلاتے ہیں۔ ‘

حالانکہ یہاں امت شاہ نے ذکر خاص طورپر صرف اے بی پی نیوز نے کیا ہے، جبکہ زیادہ تر میڈیا اداروں نے امت شاہ کے دوران ہوئے تشدد، آگ زنی اور توڑپھوڑ کو تقریباً اسی طرح سے رپورٹ کیا ہے جیسا اے بی پی نیوز نے کیا ہے۔مثال کے طور پر نئی دہلی  سے شائع ہندی اخباروں کی بات کریں تو بی جے پی اور سنگھ کے قریبی مانے جانے والے اخبار دینک جاگرن نے ہیڈنگ لگائی ہے،’بنگال میں امت شاہ کے روڈ شو میں تشدد اور آگ زنی‘، امر اجالا نے ہیڈنگ لگائی ہے،’شاہ کے روڈ شو میں تشدد، آگ زنی ‘اور نوبھارت ٹائمس نے ہیڈنگ لگائی ہے، ‘ بنگال میں شاہ کے شو میں بوال، بی جے پی پہنچی کمیشن ‘۔

وہیں انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا نے ہیڈنگ لگائی ہے، ‘ کلیش ایٹ شاہ ز روڈشو ‘(شاہ کے روڈ شو پر ٹکراؤ)، د ی ہندو نے ہیڈنگ لگائی ہے، کلیشیز ہٹ امت شاہ ز کولکاتہ ریلی(امت شاہ کی کولکاتہ ریلی میں ٹکراؤ)، ہندوستان ٹائمس نے ہیڈنگ لگائی ہے، ‘ کلیش ہٹ امت شاہ  ز کولکاتہ روڈشو ‘۔ایسے میں اے بی پی نیوز پر سوال اٹھاکر کیا امت شاہ صرف اے بی پی نیوز کو کوئی پیغام دے رہے ہیں یا ان کا یہ بیان پورے میڈیا پر دباؤ بنانے کی ایک کوشش ہے۔

امت شاہ کی کولکاتہ ریلی کے دوران ہوئے تشدد کی دی ٹیلی گراف میں شائع خبر۔

امت شاہ کی کولکاتہ ریلی کے دوران ہوئے تشدد کی دی ٹیلی گراف میں شائع خبر۔

 اے بی پی نیوز جس میڈیا گروپ کا حصہ ہے، وہ مغربی بنگال سے ایک اہم انگریزی روزنامہ ‘دی ٹیلی گراف’کی اشاعت بھی کرتا ہے۔ دی ٹیلی گراف بی جے پی اور سنگھ کو لےکر اپنی تنقیدی کوریج اور خاص ہیڈلائنس کے لئے مشہور رہتا ہے۔شاید اے بی پی نیوز کو ہیڈلائن سجھانے کاآئیڈیا امت شاہ کو یہیں  سے آیا ہو!

مودی حکومت کے پچھلے پانچ سال کے میعاد کے دوران صحافت نے زوال کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے، جہاں اہم میڈیا ادارہ دن رات حکومت کے بھونپو بنے ہوئے ہیں اور گودی میڈیا جیسا لفظ بےحد عام ہو گیا ہے۔یہاں تک کہ اے بی پی نیوز بھی کئی بار صحافت کے معیارات سے دور جاتا نظر آیا ہے۔ کچھ دن پہلے ہی اے بی پی نیوز کے ذریعے وزیر اعظم نریندر مودی کے انٹرویو نے کافی سرخیاں بٹوری تھیں۔ انٹرویو میں اے بی پی کے صحافی کے ذریعے یہ سوال بھی پوچھا گیا تھا کہ نریندر مودی تھکتے کیوں نہیں، نہ تھکنے کا راز کیا ہے اور کیا وہ کوئی ٹانک لیتے ہیں؟

دوسرے کئی مواقع پر بھی اے بی پی نیوز کی صحافت اور طریقہ کار پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ایسے میں شاید امت شاہ کو میڈیا کو نصیحت دینے کی طاقت یہیں سے ملتی ہے، جہاں اب وہ میڈیا کو یہ بھی بتاتے نظر آ رہے ہیں کہ وہ کسی واقعہ کی رپورٹنگ کیسے کرے، ہیڈنگ کیا دے اور صحافت کیسے کرے۔