فکر و نظر

کیا وزیر اعظم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ گوڈسے کے نظریہ سے اتفاق نہیں رکھتے؟

کیا ہم وزیر اعظم نریندر مودی سے یہ امید کر سکتے ہیں کہ وہ گوڈسے کے نظریات کی مذمت کریں‌گے۔ کیا مودی اور بی جے پی یہ کہہ سکیں‌گے کہ وہ گوڈسے کے نظریہ سے اتفاق نہیں رکھتے۔

(فوٹو بہ شکریہ: پی ٹی آئی/فیس بک)

(فوٹو بہ شکریہ: پی ٹی آئی/فیس بک)

ناتھو رام گوڈسے کا جو جن، ایکٹر سے رہنما بنے کمل ہاسن کے بیان سے بوتل سے باہر نکلا تھا، وہ اب بی جے پی کے گلے پڑ گیا ہے۔ انتخاب کے مدنظر بی جے پی ڈیمیج کنٹرول میں لگ گئی۔آناًفاناً میں وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر امت شاہ نے اس بیان کی مذمت کر دی۔ امت شاہ نے بیان جاری کرنے والے تینوں رہنماؤں-کو وجہ بتاؤ نوٹس بھی جاری کروا دیا۔یہ بات یوں شروع ہوئی۔ پہلے، بھوپال پارلیامانی سیٹ سے بی جے پی امیدوار پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو دیش بھکت  کہا۔ پھر اس بات کی حمایت کرتے ہوئے کرناٹک سے پارٹی کے رکن پارلیامان اور مرکزی وزیر اننت کمار ہیگڑے اور وہیں سے رکن پارلیامان نلن کمار کٹیل نے بھی بیان جاری کیا۔ اس کو لےکر میڈیا میں بڑا ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ ویسے یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ بی جے پی سے کسی نے ایسا بیان دیا ہے۔

اس لئے، یہاں سوال ان بیانات کی مذمت اور ان بیانات کو جاری کرنے والوں پر کارروائی بھر کا نہیں ہے۔ کیونکہ، گاندھی اس ملک کے راشٹرپتا ہونے کے ناطے سیاسی طور پر اتنی بڑی ہستی تھے کہ ان بیانات کی مذمت کرنا تو ہر کسی کی سیاسی مجبوری ہے۔یہاں بڑا سوال یہ ہے کہ گوڈسے جس نظریہ کی نمائندگی کرتے تھے، بی جے پی اس کی مذمت کرتی ہے، یا اس میں یقین کرتی ہے؟ کیونکہ، گاندھی پر چلی گولی بھلےہی گوڈسے کی ریوالور سے نکلی ہو، لیکن اس کے پیچھے ایک نظریہ تھا، جس نے ان کو مارا۔21 ستمبر 2016 کو اس بارے میں گاندھی جی کے پڑپوتے تشار گاندھی نے بھی اکانومک ٹائمس میں لکھے مضمون میں یہ سوال اٹھائے تھے کہ آخر گوڈسے کے پیچھے کون-سی طاقتیں تھیں؟گوڈسے نے گاندھی کا قتل کیوں کیا تھا؟ بھلےہی اس بارے میں کئی غلط فہمی پھیلانے کا کام پچھلے 70 سالوں سے ہو رہا ہو کہ انہوں نے مسلمانوں کے لئے الگ ملک پاکستان بنوانے کی حمایت کی ؛ ان کو 55 کروڑ دینے کی ضد کر رہے تھے، اس لئے کچھ ‘دیش بھکت’ لوگوں نے ان کا قتل کر دیا۔

مگر، گجرات کے مشہور گاندھی وادی چنی بھائی ویدیہ سمیت کئی لوگوں نے اس بارے میں بتایا ہے کہ گاندھی جی پر 1934 سے 1948 کے 14 سالوں میں کم سے کم 6 بار حملے کئے گئے، جب یہ سب مدعے تھے بھی نہیں۔ اور یہ کچھ مٹھی بھر لوگ نہیں تھے۔ یہ ایک کٹر ہندو توا کا نظریہ تھا اور یہ نظریہ آج بھی اس ملک میں زندہ ہے۔اور جن رہنماؤں نے گوڈسے کو لےکر بیان دئے ہیں، وہ اقلیتوں اور ہندو راشٹرکے گوڈسے کے نظریہ سے کوئی الگ نظریہ نہیں رکھتے ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی بی جے پی نے ایسے کئی رہنماؤں کو انتخاب میں اپنا امیدوار بنایا ہے۔اس میں سب سے چونکانے والی امیدواری بھوپال پارلیامانی سیٹ سے بی جے پی امیدوار پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی تھی۔ بی جے پی نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ پرگیہ پر مالیگاؤں بم دھماکے کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام ہے، یہ قدم اٹھایا۔

مرکز میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد، ان کو الزام سے آزاد کرنے کے لئے دائر این آئی اے کی عرضی کو بھی این آئی اے کورٹ، ممبئی نے نامنظور کر دیا ہے، ان کو بھوپال سے امیدوار بنایا گیا۔ اتناہی نہیں وزیر اعظم مودی نے ان کی امیدواری کی حمایت بھی کی۔

یہ صاف تھا کہ ان کی امیدواری کے ذریعے بی جے پی نےملک میں ووٹ کے پولرائزیشن کی سیاست کا کارڈ کھیلا۔اس لئے جب پرگیہ نے ہیمنت کرکرے کو لےکر بیان دیا، تو مجبوری میں بی جے پی نے اس کو لےکر تو ان سے صفائی جاری کروائی، لیکن بابری مسجد توڑ‌کر مندر بنانے کی جو بات انہوں نے کہی، اس کو لےکر کچھ نہیں کہا۔اتناہی نہیں، گوڈسے کو لےکر دئے گئے بیان کے باوجود 17 مئی کو ہوئے پریس کانفرنس میں ایک بار پھر امت شاہ نے پرگیہ ٹھاکر کی امیدواری کی حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کو ہندو ہونے کے ناطے پھنسایا گیا اور ان کی امیدواری اس بات کا جواب تھی۔یہ سب لوک سبھا انتخاب میں باقاعدہ اقلیت مخالف اکثریت کو ایک بڑا مدعا بنانے کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ اور یہ سب گوڈسے کے ہندو نظریہ سے ایک دم ملتا جلتا نہ بھی ہو تو اس سے زیادہ قریب ہے یا گاندھی کے نظریہ سے؟ یہ بات وزیر اعظم اور امت شاہ کو صاف کرنی چاہیے۔

گوڈسے کے پیچھے آر ایس ایس کا ہاتھ تھا یا نہیں اس بات پر تنازعہ ہو سکتا ہے۔ لیکن، وہ گوڈسے کے ہندو راشٹرکے تصور کی حمایت کرتی ہے، اس بات پر کوئی تنازعہ نہیں ہو سکتا۔گوڈسے جس بات کی سب سے بڑی علامت تھے، وہ تھا ایسا ہندو راشٹرجہاں الگ مذہب اور نظریہ رکھنے والوں کے متعلق کوئی رواداری نہ رکھی جائے اور جس آر ایس ایس سے مودی-شاہ کی جوڑی آتی ہے، وہ آج بھی ہندو راشٹرکے اس تصور کو ظاہرکرنے میں جٹی ہے۔گاندھی انگریزوں کی پھوٹ ڈالو حکومت کرو کی سیاست کے سامنے کھڑے تھے ؛ وہ آزادی کی لڑائی میں ہندو-مسلم یکجہتی کے لئے پرعزم تھے۔ لیکن گوڈسے کو یہ منظور نہیں تھا۔ اس لئے انہوں نے اپنے سے الگ نظریہ رکھنے والے گاندھی سے نظریاتی بحث کرنے کے بجائے ان کا قتل کرنا ٹھیک سمجھا۔ یہ ایک پیغام تھا باقی سب کو، جو 1948 میں، ملک آزاد ہونے کے ساتھ ہی دے دیا گیا تھا۔

سنگھ کے پرچارک رہے نریندر مودی کی قیادت والی حکومت میں جس طرح سے الگ مذہب کے ماننے والوں، جیسے-اقلیتوں کے درمیان دہشت پھیلائی گئی ؛ جو آپ سے الگ نظریہ رکھتے ہیں ؛ جن کے کھان-پان آپ سے الگ ہیں، ان کو جس طرح سے غدار وطن بتایا گیا۔اس کے لئے گوڈسے جیسے نظریہ رکھنے والوں کی ایک بھیڑ تیار کر دی گئی، جو اس طرح کے معاملوں میں سرعام قتل کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ ایسے قتل کے ملزم، جب ضمانت پر جیل سے باہر آتے ہیں تو باقاعدہ مرکز کے وزیر ان کا استقبال کرتے ہیں۔ یہ سب گوڈسے کے ہندو راشٹر کےتصور کا عکس نہیں ہے تو کیا ہے؟گوڈسے کے نظریہ کو ماننے والے لوگ کبھی مہاتما گاندھی اور بھگت سنگھ کے پیچھے، تو کبھی راشٹرواد اور حب الوطنی کے مکھوٹا کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ اس لئے عام طور پر عام انسان ان کی اصلیت پہچان نہیں پاتے۔ لیکن کبھی کبھار بی جے پی کی بھوپال امیدوار اور دہشت گردی کی ملزم پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور دیگر رہنماؤں کے بیانات سے یہ مکھوٹا تھوڑا سا ہٹ جاتا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ انتخاب کے مدنظر پارٹی کے دباؤ میں وہ اپنی بات پر افسوس کا اظہار کردیں، مگر اس سے اصلیت نہیں بدلتی ہے۔اس لئے اس مدعا کو صرف گوڈسے دیش بھکت تھا یا نہیں، معافی مانگنے اور پارٹی کے ذریعے انضباطی کارروائی تک محدود رکھ کر نپٹانا نہیں چاہیے۔ بلکہ گوڈسے کا جن جب ایک بار پھر بوتل کے باہر آ ہی گیا ہے تو اس مدعا پر یہ بحث کرنے کے بجائے کہ کس نے کیا بولا، اس بات پر بحث ہونی چاہیے کہ ہم گوڈسے کے نظریہ سے اتفاق رکھتے ہیں یا نہیں؟کیا ہم وزیر اعظم سے یہ امید کر سکتے ہیں کہ وہ گوڈسے کے نظریات کی مذمت کریں‌گے۔ اور گاندھی کے نظریات کو صرف صفائی مہم تک محدود رکھ، عوام میں گوڈسے کے نظریہ کو نہیں پنپنے دیں‌گے۔اور کیا بی جے پی صدر یہ کہہ سکیں‌گے کہ ان کی پارٹی گوڈسے کے نظریہ کو ملک کی سیاست میں نہیں گھلنے دے‌گی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو اس معاملے میں معافی کی ساری قواعد بےمعنی ثابت ہوگی۔

(مضمون نگار سماجوادی جن پریشد سے وابستہ ہیں۔)