خبریں

کارگل ہیرو محمد ثناء اللہ کو غیر ملکی قرار دے کر اہل خانہ سمیت حراستی کیمپ بھیجا گیا

صدر جمہوریہ  ایوارڈ یافتہ ثناء اللہ کو آسام فارنرس ٹریبونل نے غیر ملکی قرار دیا ہے۔ان کو گولپاڑا کے  حراستی سینٹر میں بھیجا گیا۔ثناء اللہ کے اہل خانہ نے بتایا کہ وہ ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف گوہاٹی ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے ۔

محمد ثناءاللہ (فوٹو بہ شکریہ: امن واڈوڈ / ٹوئٹر)

محمد ثناءاللہ (فوٹو بہ شکریہ: امن واڈوڈ / ٹوئٹر)

نئی دہلی: کارگل جنگ  میں شامل رہے  سابق فوجی افسر محمد ثناء اللہ کو غیر ملکی قرار دیاگیا ہے۔ اس کے بعد ان کو حراستی کیمپ بھیج دیا گیاہے ۔پولیس نے یہ جانکاری دی ۔ہندوستانی فوج میں تقریباً30 سال تک اپنی خدمات دے چکے کام روپ ضلع کے بوکو پولیس تھانہ حلقہ کے گاؤں کولوہیکاش کے باشندہ محمد ثناء اللہ کو اسی ضلع میں قائم فارنرس ٹریبونل نے غیر ملکی قرار دیا ہے۔ غیر ملکی قرار دیے جانے  کے بعد ثناءاللہ کو اہل خانہ  سمیت گولپاڑا کے نظربندی کیمپ بھیجا گیا۔ان کا نام این آر سی میں نہیں ہے۔ٹریبونل نے 23 مئی کو جاری حکم میں کہا کہ ثناء اللہ 25 مارچ 1971سے پہلے اپنے ہندوستانی ہونے کا ثبوت دینے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ اس بات کا بھی ثبوت دینے میں ناکام رہے کہ وہ پیدائش سے ہی ہندوستانی شہری ہیں۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ثناء اللہ (52) اگست 2017 میں ہندوستانی فوج کے الکٹرانکس اینڈ میکنیکل اانجنیئرس (ای ایم ای) کور میں صوبےدار کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے۔ انہوں نے ٹربیونل کے سامنے دئے بیان میں کہا کہ وہ  جموں و کشمیر اور شمال مشرق کے حساس علاقوں میں تعینات رہے ہیں۔ وہ آسام کے کامروپ ضلع کے بوکو پولیس تھانہ حلقے کے کولوہیکاش گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ ٹریبونل، کامروپ (دیہی) نے اس سال 23 مئی کو ثناءاللہ کو غیر ملکی قرار دیا تھا۔ ان کی فیملی کے ممبروں اور وکیل کا کہنا ہے کہ ثناءاللہ ہندوستانی شہری ہیں اور اس کا پتہ ان کے آباواجداد کے دستاویزوں سے آسانی سے  لگایا جا سکتا ہے۔

کامروپ ضلع کے ایڈیشنل پولیس سپرنٹنڈنٹ سنجیب سیکیہ نے ثناءاللہ کو حراست میں لئے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ‘ ٹریبونل نے ان کو غیر ملکی قرار دیا ہے اور ہم قانون پر عمل کریں‌گے۔ ‘سیکیہ نے بتایا کہ 2008 میں ثناءاللہ کا نام رائےدہندگان کی فہرست میں’ڈی'(مشتبہ)رائےدہندگان کے طور پر درج کیا گیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ ٹریبونل کے اس فیصلے کے بعد پولیس نے طے شدہ پروسس کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے گولپاڑہ کے حراستی کیمپ میں بھیج دیا ۔ثناء اللہ کے وکیل شہیدالاسلام نے کہا کہ ان  کو منگل کو حراست میں لئے جانے کے بعد شمالی گوہاٹی میں پولیس حراست میں رکھا گیا اور ان کو بدھ دوپہر کوکراجھار میں حراستی سینٹربھیجا گیا۔ ان کو گزشتہ سال غیر ملکی عدالت سے نوٹس ملا تھا اور وہ پہلی بار 25 ستمبر 2018 کو ٹریبونل کے سامنے پیش ہوئے تھے۔

وکیل کا کہنا ہے، ‘انہوں نے (ثناءاللہ) اپنے حلف نامہ میں کہا ہے کہ وہ 1987 میں فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ زبانی طور پر بھی انہوں نے پوچھ تاچھ کے دوران فوج میں بھرتی ہونے کا سال 1987 بتایا لیکن ٹریبونل کے افسروں کے ذریعے وہ غلطی سے 1978 ریکارڈ ہو گیا۔ ہم نے اس وقت اس کی مخالفت نہیں کی کیونکہ کورے کاغذ پر ان کے دستخط لئے گئے تھے۔خبر رساں ایجنسی رائٹرس کے مطابق، ثناء اللہ نے کہا، ‘ان کا دل ٹوٹ گیا ہے۔ ہندوستانی فوج میں تیس سال تک اپنی خدمات دینے کے بعد مجھے یہ انعام ملا ہے۔ ‘ثناءاللہ نے کیمپ میں جانے سے پہلے صحافیوں سے کہا کہ وہ ایک ہندوستانی شہری ہیں اور ان کے پاس شہریت سے متعلق تمام ضروری دستاویز ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ملک کی فوج میں 30 سالوں (1987-2017) تک انجینئرنگ محکمے کے ایک افسر کے طور پر خدمات انجام دیں  اور 2014 میں صدر جمہوریہ ایوارڈ  سے نوازا کیا گیا۔ان کی بیٹی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد نے عدالت کو اپنی ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کے لئے تمام ضروری دستاویز دئے تھے، جس میں رائےدہندگان کارڈ اور آبائی جائیداد کے دستاویز شامل تھے۔ثناء اللہ کے اہل خانہ نے بتایا کہ وہ ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف گوہاٹی ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے ۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)