فکر و نظر

کیا مودی کی واپسی سے مسلمان بے وجہ ڈرے ہوئے ہیں؟

کیا نریندر مودی یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو جس ڈر کی سیاست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ اس کو ختم کرنے کی کوشش کریں‌گے؟ اگر ان کو سنجیدگی کے ساتھ اس کے لیے کام کرنا ہے تو اس کی شروعات سنگھ پریوار سے نہیں ہونی چاہیے؟

نریندر مودی(فوٹو : پی ٹی آئی)

نریندر مودی(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: تمام وزیر اعظم پھر چاہے وہ دوبارہ ہی جیت‌کر کیوں نہ آئے ہوں، جیت‌کے بعد ان کا میڈیا اور دوسرے ناقدین کے ساتھ جشن کا دور چلتا ہے یعنی اس دوران ان کے ذریعے کئے گئے وعدوں کے پورا ہونے کے لئے انتظار کیا جاتا ہے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی  دوسر ی مدت کار  میں، پہلی بار سے بھی زیادہ بڑا مینڈیٹ پانے کے بعد اپنے سیاسی ارادے کو لےکر کچھ بےحد واضح اعلانات کئے ہیں۔انہوں نے پہلی بات یہ کہی،’انتقامی جذبہ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ عوام کے نمائندوں کے پاس انتقامی جذبہ کے ساتھ سوچنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہمیں صرف ان کے ساتھ ہی کام نہیں کرنا چاہیے، جو ہمارے ساتھ ہیں، بلکہ ان کے ساتھ بھی کام کرنا چاہیے جو مستقبل میں ہمارے ساتھ ہوں‌گے۔ ‘

اس جذبہ کو دکھانے کے لئے انہوں نے اپنے بنیادی نعرے ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس ‘میں’سب کا وشواس ‘ جوڑا۔اس تناظر میں مودی نے خاص طورپر کہا کہ ان کی  دوسری مدت میں اقلیتوں کے اعتماد کو جیتنے پر دھیان دیا جائے‌گا۔ مودی نے یہ واضح الفاظ میں کہا کہ وہ 2024 تک اسی طرح سے اقلیتوں کے نام پر کھیلی جانے والی ڈر کی سیاست کو ختم کرنا چاہیں‌گے، جیسے انہوں نے ذات کے اردگرد کی جانے والی سیاست کو اس انتخاب میں تمام شمالی اور مغربی ریاستوں میں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ پاکر ختم کر دیا ہے۔ہم مودی کی بات پر یقین کر لیتے ہیں اور یہ مان لیتے ہیں کہ انہوں نے این ڈی اے کے اجلاس میں اپنے مقاصد کا جو خاکہ پیش کیا، اس کو لےکر وہ سنجیدہ ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے آئین اور اس کے اقدار کی حفاظت کرنے کا حلف لیا۔

اگر مودی کی بات پر یقین کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ  دوسری مدت  میں اپنی امیج کو پوری طرح سے بدل ڈالنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک طرح سے اپنی پچھلی  مدت  کے سیاسی مباحث کی تمام منفی اور تقسیم کاری باتوں کو بھی پیچھے چھوڑنے کے لئے بے قرار دکھے۔سوال ہے کہ 1984 کے بعد سب سے بڑا مینڈیٹ حاصل کرنے والے وزیر اعظم کی منشاء سے بھرے اس اعلان کا کیا مطلب نکالا جائے؟ ایسا ہو سکتا ہے کہ مودی ایمانداری کے ساتھ اگلے پانچ سالوں میں اپنی ایک وراثت تیار کرنا چاہیں، جس کو دنیامیں یاد رکھا جائے۔اپنی  پچھلی  مدت کے دوران انٹرنیشنل میڈیا ان کے متعلق کافی منفی  رہا، جس کا خاتمہ ٹائم میگزین کی اس کور اسٹوری سے ہوا، جس میں ان کو ‘ ہندوستان کا ڈی وائیڈر ان چیف’ کہا گیا۔مودی کے میڈیا مینجمنٹ اس کو چاہے کسی بھی سمت میں گھمانا چاہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ وزیر اعظم انٹرنیشنل پریس میں ان کو لےکر بننے والے نظریے کے متعلق کافی حساس ہیں۔ اس لئے جیت‌کے بعد ان کا شروعاتی تبصرہ صاف طور پر ان لوگوں کے اعتماد کو جیتنے پر مرکوز تھا، جو ان کی سیاست کے کٹر مخالف ہیں۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

بدلے کی سیاست سے پرہیز کرنے پر ان کا خاص طور پر زور کافی اہم ہے۔ مودی شاید بالواسطہ طور پر یہ مانتے ہیں کہ ان کی  پچھلی مدت پر پولرائزیشن، تقسیم اور یہاں تک کہ بدلے کی سیاست کے جذبہ کے داغ ہیں، جس نے سیاسی ماحول کو بگاڑنے کا کام کیا۔مشہور ماہر اقتصادیات امرتیہ  سین نے کہا تھا کہ مودی بھلےہی جیت گئے ہوں، لیکن ان کو اب بھی نظریات کی لڑائی جیتنے کی ضرورت ہے۔ نظریات کی لڑائی کو لوگوں سے مکالمہ کرکے ہی جیتا جا سکتا ہے، نہ کہ بدلے کے جذبہ سے بھر‌کر یا جارحانہ ہوکر۔مودی شاید یہ بات سمجھتے ہیں۔ یاد کیجئے کہ کس طرح سے بی جے پی کے ایک جنرل سکریٹری نے 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں مودی کو ملے تاریخی مینڈیٹ کے بعد یہ کہا کہ مذہبی رواداری/سیکولر گروپوں کے باقیات کو دانشوارانہ منظرنامہ سے پوری طرح سے مٹا دینے کی ضرورت ہے۔مودی نے جس بدلے کے جذبہ کی بات کی، اس بیان سے اسی کی بدبو آتی ہے اور یہ ان کی  پچھلی مدت سے اس مدت میں بھی چلا آیا ہے۔

2014 میں اقتدار میں مکمل اکثریت سے آنے کے بعد بھی بی جے پی کے رہنماؤں اور ترجمان کو ٹی وی چینلوں پر غصے اور جارحانہ تیور کے ساتھ دیکھا جاتا رہا ہے، جو عام طور پر تمام اپوزیشن اور سیکولرلوگوں کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا حصہ بتاتے ہیں۔آخر شاندار جیت حاصل کرنے والی پارٹی کے اتنے غصے میں رہنے اور کئی بار خود کو مظلوم  کے طور پر پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ مودی کی پہلی مدت کا  پہیلی نما پہلو تھا۔ شاید اس بار وہ اس کو بدلنا چاہتے ہیں اور شاید بنیاد کو اوروسیع کرنا چاہتے ہیں۔لیکن مودی کو قول  کے بجائے اپنے عمل سے یہ دکھانا ہوگا کہ وہ کیسے اس پولرائزڈ بحث کی فطرت کو بدلنا چاہتے ہیں، جس کے ہم لوگ اب تک گواہ رہے ہیں۔میں یہاں قول کے بجائے فعل  پر زور دے رہا ہوں کیونکہ انہوں نے 2014 میں بھی لال قلعہ کی فصیل سے بھی کافی مثبت تقریر کی  تھی، جب انہوں نے کہا تھا کہ ملک کی سیاست میں ہر تقسیم کاری مدعے کو دس سال کے لئے ملتوی کر دینا چاہیے تاکہ سارا دھیان بنا کسی رکاوٹ کے ملک کی ترقی پر لگایا جا سکے۔

لیکن کچھ مہینوں کے اندر ہی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے صدر موہن بھاگوت نے ذاتی طور پر ‘ گھر واپسی ‘ کا راگ چھیڑ دیا، جس میں تمام مسلمانوں کو پھر سے ہندو مذہب اپنانے کے لئے کہا گیا۔اس کے بعد آر ایس ایس نے گائے کے گوشت کو لے کر مہم چلائی اور گئوکشی پر پابندی لگانے کے لئے ایک قومی قانون کی مانگ کی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ زیادہ تر ریاستوں میں ایسے قانون پہلے سے ہی موجود تھے۔یہ ایک اور تقسیم کاری مدعا تھا، جس کی وجہ سے گئورکشک گروپوں کے ذریعے مسلم / دلت مویشی کاروباریوں کے ساتھ تشدد کے کئی واقعات دیکھےگئے۔ مویشی قوانین کو اس طرح سے بدل دیا گیا کہ مویشیوں کا کاروبار مشکل ہو گیا۔اس نے تمام کمیونٹی کے کسانوں پر اثر ڈالا جو اب اپنے مویشی کو بیچ‌کر پیسے کی بھرپائی نہیں کر سکتے ہیں۔ آوارہ مویشی ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور پوری ہندی پٹی میں کسانوں کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ بی جے پی اس مینڈیٹ کو غیرمنطقی مویشی کاروبار قانون کے حق میں آیا مینڈیٹ نہیں سمجھے۔

موہن بھاگوت(فوٹو: پی ٹی آئی)

موہن بھاگوت(فوٹو: پی ٹی آئی)

گھر واپسی مہم، گائے سے جڑے تشدد نے مودی حکومت کے شروعاتی مہینوں میں مسلمانوں کے دل میں گہرا ڈر پیدا کرنے کا کام کیا۔ اس لئے جب مودی ڈر کی سیاست، جس کے مصیبت زدہ اقلیت رہے ہیں، کو ہٹانے کی بات کرتے ہیں، تب کیا وہ اس ڈر کو پیدا کرنے میں سنگھ کے کردار کی طرف بھی اشارہ کر رہے ہیں؟کیا یہ صحیح ہے کہ حزب مخالف پارٹیاں ایسے ڈر کا استحصال کرتی ہیں، لیکن اس ڈر کو بھڑکانے کا کام خاص طور پر سنگھ پریوار کے دائیں بازوں کی تنظیم ہی کرتے ہیں۔یہاں تک کہ آر ایس ایس صدر نے بھی گزشتہ سال سائنس بھون میں اپنی تقریر میں اس ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا تھا، جب انہوں نے کہا تھا کہ ہندو سماج اپنی تمام مصیبتوں کا ٹھیکرا ہمیشہ مسلمانوں کے سر پر نہیں پھوڑ سکتا۔

ان دہائیوں میں مسلمانوں کو غلط قرار دینا اور اکثریتی کمیونٹی کو مظلوم کے طور پر پیش کرنا سنگھ پریوار کی ثقافتی سیاست کے مرکز میں رہا ہے۔ یہ بی جے پی نظام کے ساتھ اس طرح سے گتھ گیا ہے کہ انتخابی سیاست میں یہ باقاعدگی سے لوٹ‌کر آتا رہتا ہے۔ 2019 کے انتخاب میں بھی یہ پوری طاقت کے ساتھ لوٹا۔تو کیا مودی یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو جس ڈر کی سیاست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس کو ختم کرکے، وہ اس کو بدل دیں‌گے؟ اگر ان کو سنجیدگی کے ساتھ اس کے لیے کام کرنا ہے، تو کیا اس  کی شروعات سنگھ پریوار سے نہیں ہونی چاہیے؟اپنی دوسری مدت  میں مودی کو سماجی اور سیاسی زندگی میں تمام طرح کے پولرائزیشن پر حملہ بول‌کر سب کو ساتھ لےکر چلنے کی کوشش کرنے والے رہنما کے طور پر اپنی وراثت تیار کرنے کے لئے لازمی طور سے اس بصیرت کا ثبوت دینا ہوگا۔

جو بھی ہو، 2019 میں مودی کے حزب میں گیا ووٹ ایک ہندو مینڈیٹ ہے، اس لئے وزیر اعظم کے لئے مسلم اقلیتوں کے اردگرد کھیلی جانے والی ڈر کی سیاست کو ختم کرنے کے لئے کام کرنا کسی اگنی پریکشا کی مانند ہوگا۔ سوال ہے کہ کیا وہ اس چیلنج کو منظور کریں‌گے، کیونکہ اصل میں ان کو ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔