فکر و نظر

بہار: کیا مہا گٹھ بندھن کی واپسی ممکن ہے؟

 بہار میں مہاگٹھ بندھن  کے لئے راستہ یہ ہے کہ وہ اس بڑی ہار‌کے بعد بھی اپنے اتحاد اور یکجہتی کو بنائے رکھے۔ حالانکہ ابھی تو انتخاب کے بعد جیتن رام مانجھی نے تیجسوی کی قیادت پر ہی سوال اٹھا دیا ہے۔

rahul-gandhi-tejaswi-yadav

23 مئی کو جیسےجیسے عام انتخابات کی ووٹوں کی گنتی آگے بڑھ رہی تھی بہار کے انتخابی پچ پر آرجے ڈی  کے زیرو پر آؤٹ ہونے کا خطرہ بڑھتا جا رہا تھا۔ جہان آ باد اور پاٹلی پترا سیٹوں پر آرجے ڈی  امیدوار بہت کم فرق سے آگے چل رہے تھے۔ مگر ایک طرف جہاں جہان آباد میں اضافہ بہت معمولی تھا وہی پاٹلی پترا کو لےکریہ کہا جا رہا تھا کہ 2014 کی طرح ہی ووٹوں کی گنتی کے آخری مرحلوں کے آتے-آتے لالو یادو کی بیٹی میسا بھارتی اپنے ‘ چچا ‘ اور اس وقت کے مرکزی وزیر رام کرپال یادو سے پچھڑ جائیں‌گی۔ اور آخرکار ہوا ایسا ہی اورآر جے ڈی اپنے وجود میں آنے کے بعد پہلی بار کسی لوک سبھا انتخاب میں ایک سیٹ بھی نہیں جیت پائی۔ بہار کی 40 میں سے ایک کشن گنج کی سیٹ کو چھوڑ این ڈی اے تمام سیٹوں پر جیت درج کرنے میں کامیاب رہا۔ مہا گٹھ بندھن کی طرف سے کانگریس کشن گنج کی اپنی روایتی مسلم اکثریت سیٹ سخت مقابلے کے بعد  بچانے میں کامیاب رہی۔

ملک کی زیادہ تر ریاستوں کی طرح ہی بہار میں بھی اس بار کے انتخاب نتائج غیر متوقع رہے۔ اس بار کے ‘مودی انڈر کرنٹ ‘میں ہندی پٹی اور شمال مغربی ریاستوں کی طرح بہار میں بھی حزب مخالف بی جے پی کے سامنے ایک ایک سیٹ کو ترس گئی۔ مگر کیا ایسا محض ‘مودی انڈر کرنٹ ‘ کی وجہ سے ہوا یا اس کی کچھ اور بھی وجوہات ہیں؟

دیر سے اتحاد

دراصل 2017 کی جولائی میں نتیش کمار کے این ڈی اے میں واپس شامل ہونے کے بعد سے انتخاب کے پہلے تک این ڈی اے بہار میں ہی سب سے مضبوط مانا جا رہا تھا۔ اس کے برعکس وقت کے ساتھ مہاگٹھ بندھن نے جیتن رام مانجھی اور اپیندر کشواہا کو این ڈی اے سے توڑ اپنے ساتھ ملاکر اور پھر بالی ووڈ سیٹ ڈیزائنر سے رہنما بنے مکیش ساہنی کو اپنے ساتھ جوڑ‌کر اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی آرجے ڈی  نے سی پی آئی-ایم ایل کے لئے ایک سیٹ چھوڑ‌کر ایک حد تک بایاں بازو کی بھی حمایت حاصل کی۔ لیکن انتخابی مقابلے میں دیر سے اتحاد بنانے کی وجہ سے بھی حزب مخالف بری طرح شکست کھا گئی۔نتائج بتاتے ہیں کہ جیتن رام مانجھی، اپیندر کشواہا اور مکیش ساہنی اپنے-اپنے کمیونٹی کے ووٹ بھی مہاگٹھ بندھن کو نہیں دلا سکے۔

ساتھ ہی مہاگٹھ بندھن  انتہائی پسماندہ کمیونٹی کی حمایت حاصل نہیں کر سکا۔ انتہائی پسماندہ کی مجموعی آبادی تقریباًتیس فیصد تک مانی جاتی ہے۔ ان تمام ذاتوں نے جم‌کر این ڈی اے کو ووٹ کیا۔ آر جے ڈی  نے بھاگل پور سے بلو منڈل کے طور پر محض ایک امیدوار انتہائی پسماندہ کمیونٹی سے دیا۔ وہیں این ڈی اے نے اس کمیونٹی کے سات لوگوں کو ٹکٹ دیا۔ آرجے ڈی نے مکیش ساہنی کے ذریعے انتہائی پسماندہ طبقے سے آنے والی ملاح کمیونٹی کو سادھنے کی کوشش کی لیکن انتخابی میدان  میں پہلی بار کودے ساہنی پوری طرح ناکام رہے۔

آر جے ڈی  کےمسلم یادو ووٹ  میں لگی سیندھ

انتخابی نتیجوں کی بنیاد پر یہ کہنا کہیں سے صحیح نہیں جان پڑتا ہے کہ اس انتخاب میں ذات پات پر مبنی سیاست کا خاتمہ ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ این ڈی اے کی حمایت میں ذاتوں کی صف بندی زیادہ ہوئی۔ این ڈی اے نے اپنے ذات پات والے فارمولہ کو برقرار رکھتے ہوئے حزب مخالف کے فارمولے میں زبردست سیندھ لگا دی۔ ایک طرف جہاں این ڈی اے کی کور اشرافیہ اور انتہائی پسماندہ ووٹ بینک پہلے کے مقابلے زیادہ مضبوطی سے ان کے ساتھ بنا رہا وہیں مہاگٹھ بندھن  حامی پسماندہ اور دلت طبقے کی ذاتوں کا ایک بڑا حصہ بھی مہاگٹھ بندھن  سے ٹوٹ‌کے این ڈی اے کے پاس گیا۔ نتائج بتاتے ہیں کہ مہاگٹھ بندھن یا کہیں کہ آر جے ڈی  کے مسلم –یادو ووٹ  میں سے  یادو کے بڑے طبقے نے این ڈی اے کے لئے ووٹ کیا۔ ان سب باتوں کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ 2014 میں جو فارمولہ  بی جے پی کی حمایت میں بنا اور جس کو 2015 میں نتیش اور لالو نے ساتھ آکر روکا تھا اس کو مہاگٹھ بندھن 2019 میں برقرار نہیں رکھ سکا۔

غور طلب ہے کہ بہار میں این ڈی اے یادو کمیونٹی کے رہنماؤں کو اہم عہدوں پر موقع دےکر آرجے ڈی  کے مسلم –یادوووٹ میں سیندھ لگانے کی کوشش کئی سالوں سے کرتی رہی ہے اور اب وہ اس میں فیصلہ کن طور پر کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔ بہار بی جے پی کے ریاستی صدر اور بہار ریاستی صدر عہدے پر نتیانند رائے اور بھوپیندر یادو جیسے رہنماؤں کی موجودگی بی جے پی کے ان کوششوں کی ہی مثال ہیں۔ وہیں آرجے ڈی  نے کنبہ پروری کی وجہ سے رام کرپال یادو جیسے اپنے سب سے قابل اعتماد رہنماؤں میں سے ایک کو بھی کھو دیا ہے۔ مہاگٹھ بندھن کو شکست دینے کے لئے ایک طرف این ڈی اے پسماندہ اور انتہائی پسماندہ طبقے میں غیریادو پولرائزیشن کرنے اور ساتھ ہی یادو کے ایک بڑے حصے کو اپنی حمایت میں کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ مانا بھی جاتا ہے کہ کوئی بڑی کمیونٹی جب لمبے وقت تک اقتدار میں رہتی ہے تو اس کا متاثر کن حصہ اپنی سیاسی وفاداری بدلتے ہوئے حکمراں جماعت کی سیاسی طاقت کی طرف مڑ جاتی ہے۔ بہار میں مدھے پورا، مدھوبنی، اجیارپور، پاٹلی پترا، بانکے جیسی سیٹوں پر این ڈی اے کے یادو کمیونٹی کے امیدواروں کا عام طور پر بہت بڑے فرق سے جیتنا اس کی مثال ہے تو وہیں جھارکھنڈ میں آر جے ڈی  صدر انپورنا دیوی کے انتخاب کے ٹھیک پہلے بی جے پی میں شامل ہونا اور انتخاب بھی جیت جانا اس کی بہترین مثال ہے۔

حکمت عملی  کی بھی کمی

مہا گٹھ بندھن کے بچھڑنے کی شروعات امیدواروں کا اعلان کے وقت سے ہی ہو گئی تھی۔ ہولی کے بعد بہار کے دونوں اتحاد نے اپنے-اپنے امیدواروں کا اعلان کیا تھا یہ کام جہاں این ڈی اے نے منظم طریقے سے کیاتو مہا گٹھ بندھن نے گرتے-پڑتے کیا۔ این ڈی اے نے ایک کو چھوڑ اپنے تمام امیدوار کا ایک ساتھ اعلان کیا تو مہا گٹھ بندھن نے قسطوں میں ایسا کیا۔ ساتھ ہی ایک حد تک لالو فیملی کی کھینچ-تان نے بھی عوام کو کشمکش میں رکھا۔

ساتھ ہی این ڈی اے کا پرانا اتحاد جہاں چست-درست، یکجا اور پوری طرح فعال دکھا وہیں ٹھیک انتخاب کے پہلے بنا حزب مخالف بکھرا ہوا دکھا۔ جیسے کہ تیجسوی اور راہل گاندھی کو انتخابی تشہیر کے دوران ایک منچ پر آنے میں بہت دیر ہوئی۔ انہوں نے ایک ساتھ بہت کم اجلاس کو خطاب کیا۔ وہیں بہار میں وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی تشہیر کے پہلے دن سے ہی بہار کے وزیراعلی نتیش کمار ان کے ساتھ رہے اور تقریباً سارے جلسوں میں منچ شیئر کیا۔

حزب مخالف میں جارحیت کی بھی کمی دکھی۔ پورے ملک کی طرح بہار میں بھی حزب مخالف پلواما حملے کی ناکامی پر مودی حکومت سے سوال کرنے میں ناکام رہا۔ بےروزگاری، معیشت کی خستہ حال حالت، نوٹ بندی کی ناکامی، زراعتی بحران، آئین پر حملہ جیسے مدعے پر حزب مخالف نے گھیرابندی کرنے کی کوشش کی مگر کمزور۔ ساتھ ہی حزب مخالف اشرافیہ ریزرویشن، راشٹرواد جیسے مدعا پر جواب دینے سے ڈرتا بھی رہا۔ ان سب پر اس کا رویہ ڈھل مل رہا۔

ایسے میں عوام نے اپنی مشکلات کی فکر کو چھوڑ تقریباً پورے ملک کی طرح بہار میں بھی”پاکستان کو گھر میں گھس‌کر مارنے والی” اور “ملک کو محفوظ ” رکھنے والی حکومت کو منتخب کیا۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ بی جے پی اپنے اور اپنی معاون تنظیم کے دم پر بالاکوٹ حملے کے بعد لوگوں کے درمیان تیزی سے اور وقت پر پہنچی اور اپنی ہر بات سمجھانے میں کامیاب رہی۔ ساتھ ہی این ڈی اے نے اجولا یوجنا، آیوشمان اسکیم، بیت الخلا کی تعمیر اور رہائش گاہ کی تعمیر سے متعلق اسکیموں کے ذریعے مودی حکومت کا غریب حامی چہرہ بھی سامنے رکھا۔ ڈیجیٹل اور الکٹرانک میڈیا کے زمانے میں اس کا استعمال کرنے میں بھی بی جے پی بہت آگے رہی۔

حزب مخالف کیا کرے

بی جے پی کی اس عظیم جیت‌کے پیچھے فکر کی لکیریں یہ ابھر رہی ہیں کہ مسلمان اور پاکستان کے تئیں نفرت کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا اندھا راشٹرواد سماج میں بہت گہرے تک جڑ‌ پکڑ لیا ہے۔ فرقہ وارانہ تقسیم بہت چوڑی ہو چکی ہے۔ بہار میں حال کے سالوں میں رام نومی اور درگا پوجا جلوسوں کی آڑ میں اس کی شعوری کوشش کی گئی۔ 2014 میں اپنے دم پر پہلی بار اقتدار پر قابض ہونے کے بعد بی جے پی خاص کر گزشتہ پانچ سال سے بہار میں بھی اپنا نظریاتی پروپیگنڈا بہت تیزی سے پھیلا رہی ہے۔

ایسے میں آگے بہار میں حزب مخالف کے لئے راستہ یہ ہے کہ وہ اس بڑی ہار‌کے بعد بھی اپنے اتحاد اور یکجہتی کو بنائے رکھے۔ حالانکہ ابھی تو انتخاب کے بعد جیتن رام مانجھی نے تیجسوی کی قیادت پر ہی سوال اٹھا دیا ہے۔

بہار میں مہاگٹھ بندھن اپنی میں انتہا پسند جماعتوں کو شامل کر حزب مخالف کو پوری طرح یکجا کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی حزب مخالف بایاں بازوجماعتوں سے تنظیم بنانے کا طریقہ بھی سیکھ سکتا ہے۔ اور بھی بہت کچھ نیا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ حزب مخالف کو خود کو پھر سے گڑھنے کی ضرورت ہے۔ تمام پارٹیوں کو گراس روٹ سے ڈیجیٹل اسپیس تک پھر سے نئے اور فعال طریقے سے کھڑا ہونا ہوگا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ترقی پذیر خیالات کی بنیاد پر حزب مخالف تنظیم اور نیٹورک بناکر ہمیشہ عوام سے بی جے پی اور آر ایس ایس کی طرح جڑے رہے۔ محض انتخاب کے وقت بھاگ دوڑ کرنے، فارمولہ  بنانے اور تیاری کرنے سے کام نہیں چلے‌گا۔ اس سب کے لئے حزب مخالف کو وسائل بھی جٹانے ہوں‌گے اور پھر ان کی ایمانداری سے پارٹی کے لئے استعمال کرنا ہوگا۔ بی جے پی کے وسائل کے سامنے یہ پارٹیاں ابھی بونی ثابت ہو رہی ہیں۔

کیڈرتیاربنااور ان کی تربیت کرنا، سیاسی نظریہ کا ازسرِنو تجزیہ اور نظرثانی کی فوری ضرورت ہے۔ پارٹی ڈھانچے کو چست درست کرنے اور سب سے اہم کہ قیادت کو ایماندار اور محنتی بننے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی تمام حزب مخالف پارٹیوں کو ایک خاص ذات کی پارٹی کے ٹھپے سے باہر نکلنا ہوگا اور اس کے لئے اپنی-اپنی جماعتوں میں ہر کمیونٹی کو قیادت اور موقع دینا ہوگا۔ مثال کے لئے، آر جے ڈی  کو بہت-پچھڑا طبقہ اور پسماندہ مسلمانوں کے رہنماؤں-کارکنان کو پارٹی میں مناسب مقام اور عزت دینے کی پہل کرنی چاہیے۔

حزب مخالف کی تنظیم نہ کہ برابر ہے۔ تنظیم رہنے سے انتخاب میں اس کی اتنی بربادی نہیں ہوتی۔ حزب مخالف تنظیم کی طاقت کے ساتھ مناسب اور صحیح مدعا چن‌کر اس پر جدو جہد کو تیز کرے، عوام کی خوشی اور دکھ میں شامل رہے تو وہ واپس اپنی کھوئی زمین حاصل کر سکتی ہے۔ مستقبل میں محض انتخاب کے وقت فارمولہ  بنانے اور فعال ہونے سے کام نہیں چلے‌گا۔

لیکن انتخاب کے بعد حزب مخالف نے اپنی ہار کے  تجزیہ میں اس جانب ایمانداری سے قدم بڑھانے کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔

(منیش شانڈلیہ پٹنہ میں مقیم آزاد صحافی اور مترجم ہیں۔)