فکر و نظر

کانگریس کی پارلیامنٹری ونگ اور اے آئی سی سی کے بیچ کھینچ تان ہو سکتی ہے

نہرو سے لے کر راجیو گاندھی تک اس ٹکراؤ کا فیصلہ وزیر اعظم کے حق میں کیا جاتا رہا۔ 1998 میں اسے اس وقت الٹ دیا گیا، جب سونیا گاندھی نے بطور کانگریس صدر ذمہ داری سنبھالی۔

کانگریس کی پارلیامنٹری پارٹی کے اجلاس میں سونیا گاندھی کو اتفاق رائے سے پارٹی کا رہنما منتخب کرتے ممبر (فوٹو: اے این آئی)

کانگریس کی پارلیامنٹری پارٹی کے اجلاس میں سونیا گاندھی کو اتفاق رائے سے پارٹی کا رہنما منتخب کرتے ممبر (فوٹو: اے این آئی)

بالفرض محال راہل گاندھی کانگریس صدر کے عہدے سے دستبردار ہو کر صرف ممبر آف پارلیامنٹ ہی رہ جاتے ہیں تو اس سے کچھ نئے حالات پیدا ہوسکتے ہیں ۔ مثلاً کانگریس پارٹی میں پارلیامنٹری ونگ اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے بیچ کھینچ تان شروع ہو سکتی ہے۔اس لئے سونیا گاندھی کو فوری طور پر کانگریس کا لوک سبھامیں لیڈر چننا چاہیے خواہ وہ راہل گاندھی ہوں یا پھر ششی تھرور ، یا منیش تیواری وغیرہ . کانگریس کے آئین کے مطابق کانگریس پارٹی ان پارلیامنٹ (سی پی پی)  چیئرپرسن (جو سونیا گاندھی ہیں) کو یہ اختیار ہے کی وہ لوک لوک سبھا اور را رجیہ سبھا کے لئے دو لیڈران کا انتخاب کریں.

دراصل کانگریس میں تنظیم اور پارلیامنٹری ونگ کے بیچ آپسی رسہ کشی کی تاریخ رہی ہے۔ محمد علی جناح جب کانگریس میں تھے تو کانگریس ہائی کمان کی ان کی نظروں میں کوئی قدر نہیں تھی اور اکثر وہ ان کا موازنہ فاشسٹ گرانڈ کونسل سے کیا کرتے تھے۔

کانگریس پارٹی اور کانگریس پارٹی ان پارلیامنٹ (سی پی پی) یہ دو پاور سنٹرس ہونے سے ان میں ٹکراؤ کا اندیشہ رہے گا۔ آزادی سے پہلے تنظیم کے پاس سارے اختیارات تھے، لیکن تب کانگریس ایک سیاسی پارٹی نہیں ایک تحریک تھی۔ 1947 میں آزادی کے بعد جب وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی قیادت میں کانگریس ایک حکمراں پارٹی بن گئی، تب آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے صدر آچاریہ کرپلانی نے نہرو پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ اہم معاملات میں کوئی فیصلہ لینے سے پہلے وہ ان سے مشورہ کر لیا کریں۔

ایک قد آور شخصیت کے مالک نہرو نے کرپلانی کی اس دخل اندازی کو نظر انداز کیا، جس سے کسی تنازعہ کو کوئی راہ نہ مل پائی۔ کرپلانی کے علاوہ نہرو کا ایک اور کانگریس صدر لال جی ٹنڈن سے بھی ٹکراؤ ہوا۔ اپنے سافٹ ہندوتوا کے لیے پہچانے جانے والے ٹنڈن 1952 میں کانگریس صدر بنے۔ نہرو نے ٹنڈن کا علاج کرتے ہوئے پوری کانگریس ورکنگ کمیٹی سے استعفیٰ لے لیا، تاکہ ٹنڈن آگے انہیں کبھی چیلنج کرنے کی ہمت نہ جٹا سکیں۔

نہرو کی بیٹی اندرا کے بھی پارٹی صدور کے ساتھ کئی بار ٹکراؤ ہوئے۔ وزیر اعظم رہتے ہوئے لال بہادر شاستری کی موت کے بعد کے کامراج اور ایس نجلنگپا جیسے پارٹی سربراہان نے اندرا کو وزیر اعظم بنایا۔ لیکن پارٹی کے ان طاقتور رہنماؤں نے جب وزیر اعظم کے کام کاج میں دخل اندازی کی کوشش کی تو اندرا گاندھی نے بتا دیا کہ ایسے لوگوں کے لیے پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کے بعد اندرا کے دور میں پارٹی کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخص کی حیثیت ہمیشہ اقتدار اعلیٰ پر قابض شخص کے سامنے ثانوی رہی۔

نہرو سے لے کر راجیو گاندھی تک اس ٹکراؤ کا فیصلہ وزیر اعظم کے حق میں کیا جاتا رہا۔ 1998 میں اسے اس وقت الٹ دیا گیا، جب سونیا گاندھی نے بطور کانگریس صدر ذمہ داری سنبھالی۔ تب پارٹی مینجرس نے ان کے لیے راستہ یہ نکالا کہ راجیہ سبھا اور لوک سبھا دونوں ایوانوں میں پارٹی کا لیڈر چننے کا اختیار انہیں دے دیا گیا۔ حالا نکہ اس وقت وہ کسی بھی ایوان کہ ممبر تک نہیں تھیں۔ سدا بہار لیڈر پرنب مکرجی نے دونوں ایوانوں پر سونیا کا اختیار برقرار رکھنے کے لیے یہ راستہ نکالا تھا۔ مئی 2004 میں سونیا گاندھی نے بطور سی پی پی لیڈر راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں دو لوگوں کا تقرر کیا۔ راجیہ سبھا میں انہوں نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو تو لوک سبھا میں پرنب مکرجی کو سی پی پی کا لیڈر بنایا۔ جس کے بعد منموہن سنگھ کو وزیر اعظم بنایا گیا۔

سی پی پی کے آئین کے مطابق سی پی پی کے قائد کا عہدہ سب سے اعلیٰ ہے لیکن چیئر پرسن کی پوسٹ تیار کرنے کے لیے پارٹی آئین کی شق 5 میں ترمیم کی گئی۔ ذیلی شق ‘سی’ کہتی ہے کہ دونوں ایوانوں میں پارٹی کے قائد، نائب قائد اور چیف وہپ کو نامزد کرنے کا اختیار سی پی پی لیڈر نہیں، چیئر پرسن کے پاس ہوگا۔ ترمیم شدہ شق اس طرح ہے: اگر ضرورت پڑی تو سرکار کے سربراہ کو سی پی پی لیڈر کا نام پیش کرنے کا اختیار چیئر پرسن کو ہوگا۔”اس لیے سونیا کی جگہ اگر راہل سی پی پی کی سربراہی سنبھالتے ہیں تو انہیں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں قائدین نامزد کرنے کا اختیار ہوگا، کانگریس کے صدر کو نہیں۔ اس کے برخلاف سی پی پی چیئر پرسن کی حیثیت سے سونیا راہل کو لوک سبھا میں قائد نامزد کر سکتی ہیں، 16ویں لوک سبھا میں یہ ذمہ داری ملکارجن کھرگے کے پاس تھی۔

(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )