ادبستان

گجرات 2002 کے ’کل‘اور’آج‘ سے روشناس کرواتی ہوئی ایک کتاب

فسادات نہ ہوئے ہوتے تو مودی اس ملک کے وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے۔ آخر فسادات کے دوران کچھ لوگوں نے ایک فرقے کے تئیں شدید بلکہ شدید ترین ’نفرت‘ کا اظہار کیوں کیا؟ اور کیا ’نفرت‘ میں اچانک ہی شدت آئی تھی یا بتدریج اور کیا اس میں کبھی کوئی کمی بھی آسکتی ہے؟ ریواتی لعل نے تین بنیادی کرداروں پر ساری توجہ مرکوز کرکے مذکورہ سوالوں کے جواب دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

فوٹو : مہتاب عالم

فوٹو : مہتاب عالم

گجرات فسادات 2002پر کئی کتابیں پڑھی ہیں، لیکن اس موضوع پر یہ ایک الگ طرح کی کتاب ہے۔یہ کتاب نفرت کی تشریح کرتی ہے، نفرت کا جائزہ لیتی ،تجزیہ کرتی اور اس کی مختلف شکلوں کو سامنے لاتی اور یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ وہ وجوہ کیا ہیں جو نفرت کی آنچ کو تیزکرتی ہیں یا مدھم کرتی یا اسے بجھادیتی ہیں !کتاب کا نام The Anatomy of Hateیعنی نفرت کا تجزیہ ہے ۔ اس کونفرت کی اناٹومی بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ کتاب کی مصنفہ ریواتی لعل ایک آزاد صحافی اور فلم میکر ہیں،وہ این ڈی ٹی وی سے وابستہ تھیں اور اب کے دنوں میں ’’تہلکہ‘‘ ،’’دی کوئنٹ‘‘اور ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کے لیے لکھتی رہی ہیں۔’’نفرت کا تجزیہ‘‘ یہ کتاب تحریر کرنا ان کے لیے نہ آسان تھا اورنہ ہی معمولی کام، ان تین افراد کو جو ایک کردار کے طور پر اس کتاب میں سامنے آئے ہیں، بات چیت کے لیے قائل کرنے میں ہی انہیں دس سال کا عرصہ لگا۔ حالانکہ یہ کتاب گجرات کے2002کے فسادات کی ساری’کہانی‘ ،’ساری درندگی‘،اور نفرت کو تین کرداروں کی زبانی پیش کرتی ہے لیکن ان تین مرکزی کرداروں کے ساتھ وہ دوسرےکردار بھی سامنے آتے ہیں جو ’نفرت‘ کا یاتوشکار ہوئے یا جنہوں نے ’نفرت‘ کو ہتھیار کی طرح سے استعمال کیا۔ ان سب ہی سے مصنفہ نے ملاقاتیں کی ہیں ۔ریواتی لعل تحریر کرتی ہیں؛

میں نے2002کے جرائم میں مختلف طرح سے ملوث ہونے والے پچاس سے سو ملزمین سے ملاقاتیں کیں اور مجھے یہ اندازہ ہوا کہ ایک وسیع منظرنامے میں ان کی کہانیاں پیش کرپانا ممکن نہیں ہے۔ زیادہ افرادوہ تھے جو اپنی نفرت، اپنے جرم اورملوث ہونے کی کہانی بتانے کو تیار تک نہیں تھے،وہ یا تو عدالتوں میں اپنے مقدمے لڑرہے تھے یا پھر یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ وہ اس بارے میں زبان کھولیں گے ہی نہیں۔

 ریواتی لعل نے گجرات فسادات کی یہ کہانیاں تین کرداروں کی زبانی اس لیے پیش کی ہیں تاکہ عام لوگ اس’نسیان‘ اور اس ’بے یقینی‘ سے باہر آسکیں جو2002اور اس کے مرکزی کرداروں کے تعلق سے ان پر طاری ہے۔مصنفہ کا کہنا ہے کہ ؛

تشدد جو ہو ا وہ نمائش کے لیےیا لوگوں کو دکھانے کے لیے تھا، لوگوں نے اپنی درندگی کی ڈینگیں ہانکیں اوراس کے نتیجے میں آج لنچنگ کرنے والا ہجوم سامنے آیا ہے،جو تشدد کی فلم بناکر باربار اس کی نمائش کرتا ہے ۔ لہٰذاآج جبکہ 2019کے الیکشن ہورہے ہیں2002کو یاد کرنا بے حد ضروری ہے۔

گجرات2002کے مسلم کش فسادات ہوئے یا کیے ہی گئے الیکشن جیتنے کے لیے تھے۔ یہ وہ تشدد تھاجس کی ڈینگیں ہانکی جارہی تھیں اور ڈینگ ہانکنے والوں میں زعفرانی سیاست داں بھی تھے،اعلیٰ سرکاری افسران بھی اور پولیس کے اعلیٰ عہدیداربھی!یہ سچ اب تاریخ کا ایک حصہ ہے، بھلے ہی سرکاری نصابی کتابوں سے اسے کھرچ کھرچ کر نکال دیا جائے کہ 2002کے فسادات نریندر مودی کی2014کی جیت کے لیے بنیاد بنے تھے۔ اور اگر وہ فسادات نہ ہوئے ہوتے تو کبھی بھی مودی اس ملک کے وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے۔ آخر فسادات کے دوران کچھ لوگوں نے ایک فرقے کے تئیں شدید بلکہ شدید ترین ’نفرت‘ کا اظہار کیوں کیا؟ اور کیا ’نفرت‘ میں اچانک ہی شدت آئی تھی یا بتدریج اور کیا اس میں کبھی کوئی کمی بھی آسکتی ہے؟؟ ریواتی لعل نے تین بنیادی کرداروں پر ساری توجہ مرکوز کرکے مذکورہ سوالوں کے جواب دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

تین کرداروں میں ایک کردار سریش کا ہے۔ سریش جو انتہا پسند ،سخت گیر یا بہ الفاظ دیگر کٹر ہندو ہے اور آر ایس ایس کی مقامی شاکھا میں بے حد سرگرم اورجوکیمرے کے سامنے بھی اپنے بہیمانہ جرائم کو چھپاتا نہیں بلکہ شیخی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔آشیش کھیتان نے اس کا بیان ریکارڈکیاتھا جو ’تہلکہ‘ میں شائع ہوا تھا۔ دوسرا کردار ڈنگر کا ہے۔ ڈنگر ایک بھیل یعنی قبائلی ہے۔ اور قبائلی ہونے کے ناطے اس کے رسوم و رواج ہندو مذہب کے رسوم و رواج سے میل نہیں کھاتے، اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی نظروں میں وہ معتوب بھی ہے لیکن وہ سماج میں اپنا ایک مقام بنانا چاہتا ہے اور ترقی کی منزلیں طے کرنے کے لیے اس کے پاس’ ہندوتوا ‘کے ایجنڈے پرعمل کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ تیسرا کردارپر نوکا ہے۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان،جسے یا تو اپنے ساتھیوں سے فسادات کی خبریں ملتی رہی ہیں یا اس وقت جب وہ فساد زدہ علاقوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ جاتا اور پولیس کی بے عملی کو دیکھتا اور لوگوں کو دکانوں سے مال چرا کر بھاگتے ہوئے پاتاہے،تب فسادات کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔پرنوایک دقیانوسی مذہبی گھرانے کا نوجوان بچپن ہی سے جس کے دل اور دماغ میں عصبیت کا زہر بھرا گیا ہے۔ اس کے لیے ’نفرت‘بھیس بدل بدل کر سامنے آتی ہے۔

کتاب کی شروعات دل دہلادینے والی ہے؛ملاحظہ کریں:

تمام نشانیوں میں سے کھچڑی وہ نشانی تھی جس سے عبدالماجد کو یہ اندازہ ہوا کہ اس کی دنیا بکھرنے والی ہے۔ یہ28فروری2002کی دوپہر تھی جب ہجوم نے نروڈاپاٹیا کو گھیر لیا تھا۔ جب نیچے سے جے بھوانی نے دیکھا تب ماجد چھت پر چھپا ہوابیٹھا تھا، وہ اوپر اس سے بات کرنے گیا:اس نے کہا:’’ماجد بھائی تم سب صبح سے بھوکے ہوگے،نیچے آؤ اور اپنے کچن سے بڑی پتیلیاں لیتے آؤ، میں کچھ کڑھی کھچڑی بنا دیتا ہوں۔‘‘ ماجد جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا ’’کڑھی کھچڑی؟کڑھی کھچڑی! لیکن یہ تو میت کا کھانا ہے‘‘ اس نے بدحواسی کے عالم میں کہا۔ ’’ہاں‘‘ جے بھوانی نے جواب دیا’’تم سب ہی مرنے والے ہو۔

اس کے بعد مصنفہ نے عبدالماجد پر تلوار سے حملے ،اس کی بیٹی کے اباابا……چیخنے اور اس کی لاش پانے کی منظرکشی کی ہے۔ اس روز اس نے اپنے چھ بچے ،حاملہ بیوی اور ساس کوکھودیا تھا۔ جے بھوانی اور دیگر فسادیوں نے ان سب کی لاشیں تیسرا کنواں میں ڈال کر ان پر مٹی کا تیل انڈیل کر انہیں آگ کے حوالے کردیا تھا۔ اسی رو زہجوم نے حاملہ کوثر بی کو قتل کرکے لاش کنوئیں میں پھینکی تھی۔ قتل و غارتگری کرنے والوں میں بابو بجرنگی، جے بھوانی اور گڈوچھراکے ہمراہ سریش لنگڈو یعنی ’نفرت کا تجزیہ‘ کتاب کے تین کرداروں میں سےایک، شامل تھا۔

مصنفہ نے کتاب کو 28فروری2002کے دل دہلانے والےذکر کے بعد تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ’قبل‘، ’پھر 28‘اور’ بعد‘۔ پہلے حصے میں تینوں مرکزی کرداروں کی زندگیوں پر قدرے روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں فسادات کا بیان ہے۔ اور تیسرے حصے میں فسادات کے بعد کا۔سریش، ڈنگر اور پرنو کی کہانیوں کے تضادات کو مصنفہ نے ان دوسرے کرداروں کی کہانیوں کو بیان کرکے اجاگر کیا ہے جو وقفے وقفے سے اس کتاب میں آتے رہتے ہیں جیسے کہ فرزانہ ، جو سریش کی بیوی ہے۔ وہ سریش کی بیوی اس لیے ہے کہ سریش کی بہن ایک مسلمان کے ساتھ، جن سے وہ بے حد نفرت کرتا ہے،بھاگ کر شادی کرچکی ہے اور انتقاماً اس نے فرزانہ سے شادی کرلی ہے ۔ فرزانہ کی داستان المناک ہے۔ یہ کردار ’نفرت‘ کی مختلف پرتوں کو کھولتا ہے جن میں ’محبت‘ بھی شا مل ہے۔ سریش اس کے سامنے ڈینگ مارتا تھا کہ اس نے ریپ اور قتل کیے ہیں، اوروہ فرزانہ کے نہ چاہنے پر بھی ہاتھ پیرباندھ کر اس کے ساتھ اپنی ہوس مٹاتا ہے؛بدفعلی سمیت۔ فرزانہ آج عدالت میں کھڑی سریش کے خلاف ایک گواہ ہے۔ اس کی بیٹی اور بیٹا آج بھی سریش کے ساتھ ہیں۔ فرزانہ نے سب کچھ کھودیا ہے۔ شوہر، سریش جو جیل میں ہے اور بیٹی بیٹا مگر اس نے اپنے حواس نہیں کھوئے ہیں، وہ چاہتی ہے کہ سریش کو اس کے کئے کی سزا ملے۔ وہ اب پیچھے مڑکر دیکھنا نہیں چاہتی ؛ اقتباس ملاحظہ کریں:

سال بھر سے سریش سے علیٰحدہ رہنے کے بعد اب فرزانہ کو اس کی یاد کم ستاتی ہے۔ زیادہ تر صبح وہ اپنے ٹھیلے پر تیل سے گرم کڑھائی میں مرغی کی تلیّاں، جگر اور کلجیاں تلتی ہوئی نظر آجاتی ہے۔ اس نے اپنے گھر کے باہر ہی ٹھیلا ڈال لیا ہے۔ کلیجی کے تین ٹکڑوں کی قیمت 10؍روپے اور چار سموسے 20؍روپے کے ہیں۔ اس کی پیشانی پسینے سے تر اور آنکھوں میں ایک چمک ہے۔ ایک روز اس کا یہ ٹھیلا ریسٹورنٹ میں تبدیل ہوجائے گا۔ یہ اس کا خواب ہے۔

پرنو کی کہانی اپنے اندر بہت سے اتار چڑھاؤ رکھتی ہے۔ اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں، یہ سب کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان ہیں،دکانوں میں لوٹ پاٹ کی روداد سے یہ احساس ابھرتا ہے کہ یہ نوجوان کیسی لاپروائی اور بے فکری سے ایک جرم میں، بغیر کسی شرم کے شریک ہیں۔ یہ تعلیم یافتہ نوجوان صرف ’تفریح‘ کے لیے ایک رات کھانے پینے کے ایک اسٹور کو لوٹنے کا فیصلہ کرتے ہیں، ان کے لیے یہ حقیقت بھی کوئی معنیٰ نہیں رکھتی کہ اسٹور کا مالک ہندو ہے ! وہ اسٹور لوٹ کر اسے پھونک دیتے ہیں اور الزام مسلمانوں پر عائد کردیتے ہیں۔ پرنو ان کے درمیان ہی رہا ہے لیکن وہ جب فساد زدگان کے کیمپوں میں ایک این جی او کی طرف سے بھیجا جاتا ہے تو اس میں تبدیلیاں آنا شروع ہوتی ہیں۔ یہ بھی ’نفرت‘ کی ایک شکل ہے،یہ’ندامت‘ میں تبدیل ہوتی ہے۔اور اعلیٰ ذات کا یہ نوجوان مذہب بیزار بن کر فسادزدگان کی زندگیوں کو سنوارنے اور مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان تعلقات ہموار کرنے کی کوششوں میں جٹ جاتا ہے۔ وہ دونوں فرقوں کے درمیان ، سنگھ پریوار کی شدید مخالفت کے باوجود، کرکٹ کے مقابلے کرواتا ہے،جو درمیان میں حائل خلیج کو بڑی حد تک پاٹنے کا کام کرتے ہیں۔ اب اس کا ایک خواب ہے، بی جے پی کی ہار، اور اس کے لیے وہ 2002کو بھولنا نہیں چاہتا۔

ڈنگر کے کردا رمیں ’نفرت‘ کی مختلف پرتیں نظرآتی ہیں ۔ وہ وی ایچ پی کی جانب دولت اور اقتدار کے حصول کے لیے کھنچتا ہے،اسے وی ایچ پی کا آدی واسیوں سے یہ کہنا کہ وہ شراب اور گوشت چھوڑ دیں، بھاتا ہے اور وہ گودھرا سانحہ کے بعد قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے آدی واسیوں کو اکساتا ہے’’ تمہارے پاس بس ایک دن ہی ہے مسلمانوں کے گھرو ں کو پھونک ڈالو۔‘‘اور ڈنگر کے کہنے پر گائوں کے لوگ مسلمانوں کے13گھروں کو پھونک دیتے ہیں۔ ڈنگر قبائلی ہے مگر اس کا اعلیٰ ذات کا ٹیچر اس کے لیے مثالی ہے؛سنگھ پریوار اسے بھرتی کرکے اسے خود کو’ہندو‘ ماننے اور مسلمانوں سے ’نفرت‘ کرنے کا درس دیتا ہے۔ اور ڈنگر ایک ایسے سیاست داں میں ڈھل جاتا ہے جو اقتدار کابھوکا ہے اور اقتدار کے لیے وہ کچھ بھی کرتا ہے، مسلمانوں کے جلے ہوئے گھروں کی تعمیر بھی اور ان سے نفرت کا اظہار بھی ۔بی جے پی میں شمولیت بھی اور اس کے خلاف پرچار بھی۔ بی جے پی سے سیاسی شروعات کرکے کانگریس کے لیے کام کرنے والا ورکربھی۔ریواتی لعل بڑی ہی خوبی سے اپنے تینوں کرداروں کی ، فسادات کے بعد کی زندگیوں کو سامنے لانے میں کامیاب ہیں، اس طرح ’کل‘اور’آج‘ کے گجرات کی تصویر واضح طور پر سامنے آجاتی ہے۔یہ کوئی ناول ،افسانہ نہیں بلکہ وہ سچ بیانیاں ہیں جو گجرات 2002میں بڑے پیمانے پر ’نفرت‘ کے اظہار کے لیے کیے گئے جرائم سے پردہ اٹھاتی اور لوگوں کو آمادہ کرتی ہیں کہ وہ2002کوکبھی نہ بھولیں، ہمیشہ یاد رکھیں۔ یہ جرأت اور ہمت سے تحریر کی گئی کتاب ہے اس کےلیے ہم سب کو ریواتی لعل کا شکر گزار ہونا چاہیے۔

(مضمون نگار ممبئی اردو نیوز کے ایڈیٹر ہیں)