خبریں

یوگی کے خلاف قابل اعتراض پوسٹ کو لےکر تین دن میں پانچ لوگ گرفتار

حالیہ گرفتاری اتر پردیش کے گورکھپور سے ہوئی ہے۔ یہاں پر پیر محمد اور رام پرساد نام کے دو لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

یوگی آدتیہ ناتھ، فوٹو، پی ٹی آئی

یوگی آدتیہ ناتھ، فوٹو، پی ٹی آئی

نئی دہلی : اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف مبینہ قابل اعتراض پوسٹ کو لےکر دو اور لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک آدمی کو حراست میں لیا گیا ہے۔اس طرح پچھلے تین دنوں میں سوشل میڈیا پر یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف تبصرہ کرنے کو لےکر کل پانچ لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ حالیہ گرفتاری گورکھپور سے ہوئی ہے۔ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق پیر محمد نام کے ایک اسکریپ ڈیلر کو مبینہ طور پر یوگی آدتیہ ناتھ کا مذاق اڑانے والے سوشل میڈیا پرپوسٹ کو شیئر کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔ اس پوسٹ کو دھرم ویر بھارتی نام کے ایک اور شخص نے شیئر کیا تھا۔

ایک ٹوئٹر یوزر کی شکایت ملنے پر، ضلع کے گولہ پولس اسٹیشن نے محمد اور بھارتی دونوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 503 (مجرمانہ دھمکی) اور 505 (عوامی بد سلوکی والا بیان) اور اطلاعاتی ٹکنالوجی (آئی ٹی) قانون کی دفعہ 65-66 کے تحت معاملے درج کیا۔این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق گولہ پولس کو ٹوئٹر پر ہی پوسٹ کے خلاف شکایت ملی تھی۔ گرفتار کئے گئے دونوں آدمی گورکھپور کے باشندہ ہیں۔ حالانکہ، عمان کے مسقط میں کام کرتے ہیں، اس لئے مبینہ جرم کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ رام پرساد نام کے ایک نرسنگ ہوم مینجر کو بھی اسی طرح کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔واضح ہو کہ آزاد صحافی کنوجیا کو ان کے ٹوئٹ کے لئے گرفتار کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے آدتیہ ناتھ کی معشوقہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی اور ان کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کی خواہش کا اظہار کرنےوالی ایک خاتون کا ویڈیو شیئر کیا تھا۔حالانکہ، منگل کو سپریم کورٹ نے ان کی رہائی کا حکم دیا۔ کورٹ نے کہا کہ شہری کی آزادی مقدس ہے اور اس سے سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کو آئین کے ذریعے یقینی بنایا گیا ہے اور اس کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی ہے۔

پرشانت کو گزشتہ سنیچر کو اتر پردیش پولیس کے ذریعے منڈاولی واقع ان کے گھر سے حراست میں لیا گیا تھا۔وہیں، اشیکا سنگھ اور انج شکلا کو ان کے چینل نیشن لائیو پر ایک پروگرام کے لئے گرفتار کیا گیا۔ اس پروگرام میں آدتیہ ناتھ کی معشوقہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی اور ان کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کی خواہش کا اظہار کرنے والی خاتون کا ویڈیو نشر کیا گیا تھا۔

ان صحافیوں کی گرفتاری کی مخالفت کرتے ہوئے سوموار کو نئی دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں صحافیوں نے پر امن پروٹیسٹ مارچ بھی نکالا تھا۔ پروٹیسٹ مارچ میں صحافیوں کی گرفتاری کو من مانا بتاتے ہوئے کہا گیا کہ ان کو فوراً رہا کیا جائے اور ان کے خلاف لگائے گئے مجرمانہ ہتک عزت کے معاملے کو بھی واپس لیا جائے۔اس معاملے میں اتر پردیش پولیس کی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا سمیت ملک کے کئی صحافی تنظیموں نے گرفتاری کو ‘ قانون کا غلط استعمال ‘ اور پریس کو ڈرانے کی کوشش بتایا۔

ایڈیٹرس گلڈ نے اتوار کو کہا تھا، ‘ پولیس کی کاروائی سختی، من مانی اور قوانین کے اختیار کے غلط استعمال کے برابر ہے۔ ‘ بیان میں کہا گیا کہ گلڈ اسے پریس کو ڈرانے-دھمکانے اور اظہار کی آزادی کا گلا گھونٹنے کی کوشش کے طور پر دیکھتی ہے۔اس نے کہا، ‘ خاتون کے دعویٰ میں جو بھی سچائی ہو، اس کو سوشل میڈیا پر ڈالنے اور ایک ٹی وی چینل پر نشر کرنے کے خلاف مجرمانہ ہتک عزت کا معاملہ درج کرنا قانون کا کھلم کھلا غلط استعمال ہے۔ ‘