خبریں

بہار: گزشتہ پندرہ دنوں میں ہوئی تقریباً 60 بچوں کی موت کا ذمہ دار کون؟

گراؤنڈ رپورٹ: بہار کے مظفر پور میں اب تک ‘نامعلوم بخار’کی وجہ سے تقریباً60 بچوں کی موت ہو چکی ہے اور سیکڑوں بچے اس سے متاثر ہیں۔

مظفرپور کے شری کرشن میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل (ایس کے ایم سی ایچ)میں زیر علاج ایک بچی(تمام فوٹو : امیش کمار رائے)

مظفرپور کے شری کرشن میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل (ایس کے ایم سی ایچ)میں زیر علاج ایک بچی(تمام فوٹو : امیش کمار رائے)

مظفرپور: موتیہاری کے گنیش سرسیا گاؤں کی رہنے والی پرمیلا دیوی کے گھر میں منگل کی رات مٹکور پوجا ہوئی تھی۔ ہرطرف خوشی کا ماحول تھا۔ رات تقریباً11 بجے پوجا ختم ہوئی، تو پرمیلا نے اپنی چار سال کی بیٹی پریانشو کو بھجیا اور روٹی کھلاکر سلا دیا۔ پوجا کی تیاریوں کی وجہ سے پرمیلا بھی تھکی ہوئی تھیں، سو اس کو بھی جلد ہی نیند آ گئی۔صبح دیر سے جگی اور بستر سمیٹنے کے لئے پریانشو کو بھی جگایا۔ لیکن پریانشو اپنی آنکھیں کھول ہی نہیں رہی تھی۔ اس کے جسم میں اینٹھن بھی ہو رہی تھی۔ پرمیلا اپنی ساس کے ساتھ پریانشو کو لےکر پہلے تو آس پاس کے کئی ہاسپٹل میں گئیں۔ان میں سے کچھ ہاسپٹل میں ڈاکٹر آیا ہی نہیں تھا، لیکن ایک ہاسپٹل ملا، جہاں ڈاکٹر تھے۔ انہوں نے معمولی دوائیاں دےکر ہاتھ کھڑے کر دئے اور بچی کو فوراً مظفرپور کے سرکاری ہاسپٹل شری کرشن میڈیکل کالج اینڈ  ہاسپٹل (ایس کے ایم سی ایچ)لے جانے کو کہا۔

 پرمیلا نے فوراً ایمبولینس لیا اور چار ہزار روپے کرایہ طے کرکے بچی کو لےکر ہاسپٹل چل پڑی۔ دوپہر کو وہ بدحواس حالت میں ہاسپٹل میں پہنچی۔ بچی کو ڈاکٹروں نے فوراً آکسیجن ماسک لگایا اور پیڈیاٹرک انٹینسو کیئریونٹ(1)میں داخل کر لیا۔ پرمیلا کی نظر بار بار اس کمرے کے دروازے پر ٹک جا رہی ہے، جہاں پریانشو بھرتی ہے۔ کچھ پل کے لئے وہ کمرے کے سامنے لگی لوہے کی کرسی پر لیٹ‌کر تھکان مٹانے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن دوسرے ہی پل پھر اٹھ‌کر بیٹھ جاتی ہیں۔ پرمیلا کے گھر کے واحد مرد ممبر اس کے شوہر موہن رام پنجاب میں مزدوری کرتے ہیں،اس لئے جب پریانشو بیمار پڑی، تو ان کو اور ان کی ساس کو ہی دوڑدھوپ کرنی پڑی۔ پرمیلا کو یاد نہیں ہے کہ کھانا کے علاوہ پریانشو نے کچھ ایسی چیز کھائی تھی، جس سے اس کی طبیعت بگڑ گئی۔

وہ کہتی ہیں،’دن میں لیچی کھائی تھی لیکن رات میں بھجیا-روٹی کھلاکر اس کو سلا دیا تھا۔صبح میں جب وہ نہیں اٹھی، تو میں اس کو جگانے گئی کہ اٹھ جائے، تو بستر سمیٹ‌کر رکھ دوں۔ لیکن بار بار جسم کو ہلانے کے باوجود وہ اٹھ نہیں رہی تھی۔ عجیب سا کرنے لگی، تو ہم ڈر گئے۔ ‘بچی کی طبیعت بگڑنے سے جو ڈر پرمیلا کے دل و دماغ میں بھرا، وہ تب اور بھی دو گنا ہو گیا، جب اس کو پتہ چلا کہ ‘نامعلوم بخار’سے اب تک تقریباً پانچ درجن بچوں کی جان چلی گئی ہے اور 100 سے زیادہ بچے اس بیماری کی زد میں آ چکے ہیں۔اس نامعلوم بخار کو طبی ماہرین ایکیوٹ انسیفیلاائٹس سنڈروم (اے ای ایس) کہتے ہیں۔ عام بول چال میں اس کو چمکی بخار بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بیماری بنیادی طور پر گرمی کے موسم میں آتی ہے۔

ترہت کمشنری کے مظفرپور، ویشالی، شیوہر اور مشرقی اور مغربی چمپارن اے ای ایس کے لئے بدنام ہیں کیونکہ یہاں کم وبیش ہرسال مئی-جون میں یہ بیماری آ دھمکتی ہے اور ماؤں کی گود سونی کر جاتی ہے۔اس سال بھی اپنے طے وقت پر ہی اس بیماری نے پیر پھیلانے شروع کر دئے، لیکن حکومت کی لاپروائی کی وجہ سے پچھلے چار سالوں کے مقابلے میں اس سال زیادہ بچوں کی قبل از وقت موت ہو گئی۔ ابھی بھی بیمار بچوں کا ہاسپٹل میں آنا جاری ہے اور ان کی موت بھی۔

طبیعت بگڑنے پر ایس کے ایم سی ایچ لائی گئی پریانشو کو پیڈیاٹرک انٹینسو کیئر یونٹ میں لے جاتے صحت ملازم۔

طبیعت بگڑنے پر ایس کے ایم سی ایچ لائی گئی پریانشو کو پیڈیاٹرک انٹینسو کیئر یونٹ میں لے جاتے صحت ملازم۔

منگل کو ویشالی، مظفرپور اور سمستی پور میں تقریباً آدھا درجن بچوں کی موت اے ای ایس کی وجہ سے ہوئی ہے۔ بدھ کو بھی کچھ بچوں کے مرنے کی خبر ہے۔محکمہ صحت سے جڑے افسر اس بات سے انکار کرتے رہے کہ بچوں کی موت کی وجہ اے ای ایس ہے۔بہار کےمحکمہ صحت کی طرف سے اتوار کو جاری پریس ریلیز کے مطابق، اس سال زیادہ سے زیادہ موتیں ہائپوگلیسیمیا کی وجہ سے ہوئیں۔ لیکن، سرکاری افسر یہ کہنے سے بچتے رہے کہ اے ای ایس جن بارہ بیماریوں کا مجموعہ ہے، ان میں ہائپوگلیسیمیا بھی ایک ہے۔ہائپوگلیسیمیا میں بچوں کے جسم میں گلوکوز کی مقدار بہت کم ہو جاتی ہے۔ مگر، بعد میں جن سنواد پروگرام میں بہار کے سی ایم نتیش کمار نے کہا، ‘ہرسال مانسون کے شروع ہونے سے پہلے یہ بیماری (اے ای ایس)قہر برپا کرتی ہے۔ یہ تشویش کی بات ہے کہ ہرسال اس سے بچوں کی موت ہوتی ہے۔ ‘

ادھر، ایس کے ایم سی ایچ انتظامیہ نے موجود دو پیڈیاٹرک وارڈ کے علاوہ دو اور وارڈ کھولا ہے، تاکہ بچوں کو فوراً طبی خدمات دی جا سکے۔ نئے بچوں کو انہی وارڈ میں بھرتی کیا جا رہا ہے اور جن بچوں کی حالت میں اصلاح ہو رہی ہے، ان کو ہاسپٹل کے گراؤنڈ فلور کے بچہ وارڈ میں منتقل کیا جا رہا ہے۔اس وارڈ میں سب سے زیادہ بچے ہیں۔ وارڈ میں بیڈ اور جگہ کم ہونے کی وجہ سے زیادہ تر بیڈوں پر دو بچوں کو رکھنا پڑ رہا ہے۔ ایس کے ایم سی ایچ کے علاوہ مظفرپور کا کیجریوال ماتری سدن میں بھی کچھ بچے بھرتی ہیں۔مظفرپور کے ایس کے ایم سی ایچ کے سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر ایس کے ساہی نے کہا، ‘ ہمارے ہاسپٹل میں اب تک کل 143 مریض بھرتی ہوئے، جن میں سے 43 بچوں کی موت ہو گئی، جبکہ 33 بچوں صحت یاب ہوکر گھر گئے۔ دیگر 27 بچے بھی ٹھیک ہو گئے ہیں۔ جلدہی ان کو بھی چھٹی دی جائے‌گی۔ ‘

مظفرپور میں ایکیوٹ انسیفیلاائٹس سنڈروم کی شناخت غالباً 1995 میں پہلی بار ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے ہرسال لگاتار اس کا قہر برپا ہو رہا ہے، لیکن اس بیماری کی اصل وجوہات کی جانچ اب تک نہیں ہو سکی ہے۔البتہ، سائنس ڈائریکٹ نام کے جرنل میں محققین نے اے ای ایس کے 135 معاملوں کی بنیاد بناکر کھان پان، رہن سہن، اقتصادی حیثیت، ذات وغیرہ کی بنیاد پر کچھ نتیجہ ضرور نکالے، مگر اس سے بیماری کی اصل وجہ سامنے نہیں آ پائی۔جرنل میں’ڈیٹرمینٹس آف ایکیوٹ انسیفیلاائٹس سنڈروم (اے ای ایس) ان مظفرپور ڈسٹرکٹ آف بہار، انڈیا :اے کیس-کنٹرول اسٹڈی’نام سے شائع ریسرچ-پیپر میں جن 135 کیسوں کی اسٹڈی کی گئی تھی، ان میں سے 123 کیسوں کے متاثر بچے ایس سی –ایس ٹی اور او بی سی سے تھے۔ وہیں، 135 میں سے 100 بچوں کی فیملی ناخواندہ پائے گئے۔

ایک بیمار بچے کو دیکھتے ڈاکٹر۔

ایک بیمار بچے کو دیکھتے ڈاکٹر۔

پیشے کی بات کی جائے، تو 135 میں 114 بچوں کی فیملی کا پیشہ زراعت تھا۔ اس کے علاوہ صاف صفائی کے معاملے میں بھی زیادہ تر متاثرہ بچے بے پروا ملے۔ ڈاکٹر غذائی قلت، صاف پانی کی غیرموجودگی، مناسب غذا اورکھانے کی کمی، صاف صفائی اور بیداری کی کمی کو اس بیماری کا محرک مانتے ہیں۔اے ای ایس کو کچھ ماہر لیچی اور گرمی سے جوڑ‌کر بھی دیکھتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لیچی کی تاثیر گرم ہوتی ہے اور یہ گرمی کے مہینے میں ہی اگتی ہے۔ بچے گرمی میں لیچی کھا لیتے ہیں جس سے ان کی طبیعت بگڑ جاتی ہے۔مظفرپور لیچی کی پیداوار کے لئے مشہور ہے اور اے ای ایس سے زیادہ تر معاملے مظفرپور میں ہی درج ہوتے ہیں، اس لئے ماہرین نے لیچی کو اس بیماری سے جوڑ دیا ہے۔

کچھ عالمی ریسرچ میں لیچی کو اس بیماری کو اکسانے والا پھل بتایا گیا ہے، لیکن پختہ طور پر کوئی بھی ایسی ریسرچ نہیں ہوئی ہے، جو یہ  بتا سکے کہ اے ای ایس کی جڑیں کہاں ہیں۔ہم نے مظفرپور کے ایس کے ایم سی ایچ میں بھرتی آدھا درجن بچوں کے سرپرستوں سے بات کی۔ ان میں سے کچھ نے بیمار پڑنے سے ٹھیک پہلے لیچی کھانے کی بات کی، تو کئی نے کہا کہ کئی دن پہلے ان کے بچے نے لیچی کھائی تھی۔9 جون کو ایس کے ایم سی ایچ میں بھرتی ہوئی چار سال کی سندھیا کی ماں نے بتایا کہ جس دن وہ بیمار پڑی تھی، اس سے ایک دن پہلے اس نے خوب ساری لیچی کھائی تھی۔ وہیں، تین دن سے بھرتی چار سال کے انشو کمار کے والد سنجئے رام نے کہا کہ طبیعت بگڑنے سے تین چار دن پہلے ان کے بچے نے لیچی کا استعمال کیا تھا۔

انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن سے جڑے ڈاکٹر اجئے کمار کہتے ہیں،’اس بیماری کے پیدا ہونے کی وجہیں اب بھی نامعلوم ہیں۔ مگر اتنا صاف ہے کہ ا س کے وائرس کو الگ تھلگ نہیں کیا جا سکا ہے۔ ‘ انہوں نے کہا کہ وائرس کی شناخت کے لئے ہم لوگوں نے کئی بار مانگ رکھی کہ یہاں لیب کھولا جائے مگر اب تک لیب نہیں کھلا۔چونکہ، اس بیماری کی اصل وجہ نامعلوم ہے، اس لئے پرہیز اور احتیاط ہی اس سے بچنے کی سب سے مؤثر ترکیب ہے۔ بہار حکومت نے بھی اس کو ہی اثردار مانا تھا اور یونیسیف کے ساتھ مل‌کر اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیزرس (ایس او پی) تیار کیا تھا۔اس کے تحت کئی اہم قدم اٹھائے گئے تھے۔ مثلاً آشا ورکر اپنے گاؤں کا دورہ کرکے ایسے مریضوں کی شناخت کریں‌گی۔ متاثرین کو او آر ایس دیں‌گی۔ گاؤں میں گھوم‌کر وہ یہ یقینی بنائیں ‌گی کہ کوئی بچہ خالی پیٹ نہ سوئے۔ اس کے علاوہ پرائمری ہیلتھ سینٹر میں کئی بنیادی سہولیات دینے کی بھی بات تھی۔

ماہرین بتاتے ہیں کہ پچھلے تین-چار سالوں تک ایس او پی کا عمل کیا گیا جس سے بچوں کی موت کے واقعات میں کافی گراوٹ آئی تھی۔ اعداد و شمار بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

اے ای ایس بیماری سے اب تک تقریباً 60 بچوں کی موت ہو چکی ہے۔

اے ای ایس بیماری سے اب تک تقریباً 60 بچوں کی موت ہو چکی ہے۔

بہار کے محکمہ صحت سے ملے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال 2015 میں اس بیماری سے 11، سال 2016 میں چار، سال 2017 میں 11 اور 2018 میں سات بچوں کی جان گئی تھی۔ لیکن، اس سال اس میں سستی  آ گئی، نتیجتاً زیادہ بچوں کی موت ہوئی۔حالانکہ کوتاہی اور سستی  کے الزام کو مظفرپور کےہیلتھ ڈائریکٹر ڈاکٹر شیوچندر بھگت سرے سے خارج کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں،’ایکریڈیٹیڈ سوشل ہیلتھ ایکٹوسٹس (آشا) ورکر اور اے این ایم کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ گاؤں میں جاکر لوگوں کو بیدار کریں۔ مائیک کے ذریعے تشہیر بھی کی جا رہی ہے۔ آشا ورکر سے کہا گیا ہے کہ وہ بیمار بچوں کی شناخت کریں اور متاثر بچوں کو او آر ایس دیں۔ یہی نہیں، ہم نے پرائمری ہیلتھ سینٹر میں کافی انتظام کئے ہیں۔ یہ بھی ہدایت دی گئی ہے کہ کوئی دوردراز سے بیمار بچے کو کرائے کی گاڑی سے لےکر آئے، تو اس کو فوراً کرایے کی رقم دی جائے۔ ‘

بہار میں تقریباً 93600 آشا ورکر ہیں۔ سرکاری افسر کے دعووں کی جانچ کے لئے ہم نے آشا ورکر سے بات کی، تو انہوں نے بےحد عام لہجے میں کہا کہ یہ تو ہرسال کا اصول ہے۔ایک آشا ورکر نے نام نہ چھاپنے کی شرط پر کہا، ‘میرے ذمہ جو گاؤں ہے، وہاں جاکر میں نے لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ لیکن، او آر ایس ہمیں بہت کم ملتا ہے، اس لئے سارے گاؤں والوں کو میں دے نہیں پاتی۔ ‘خاطر خواہ  او آر ایس نہیں ملنے کی شکایت دوسری آشا ورکر نے بھی کی۔یہاں حکومت کی ایک بڑی خامی یہ نظر آ رہی کہ اے ای ایس سے متاثر بچوں کے ہاسپٹل میں آنے کا سلسلہ جون سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا اور دو جون کو ایک ہی دن میں اس بیماری سے ڈیڑھ سال کی رانی اور سات سال کی درگا کماری کی موت ہو گئی تھی، مگر حکومت کی نیند تب نہیں کھلی۔

مظفرپور میں کام کرنے والی ایک آشا ورکر نے کہا، ‘ہرسال کی طرح اس سال بھی اصول کے مطابق ہم نے بیداری پھیلائی، لیکن اے ای ایس کو لےکر بیداری تیز کرنے کا حکم ہمیں دوتین دن پہلے ملا۔ ‘ وہیں، اس بارے  میں جب متاثر بچوں کے سرپرستوں سے بات کی گئی، تو انہوں نے ان سب کو لےکر بےخبری ظاہر کی۔سوموار کو بھرتی ہوئے انشو کمار کے والد اور صاحب گنج کے باشندہ سنجئے رام نے کہا کہ انہوں نے نہیں دیکھا کہ آشا ورکر ان کے گاؤں میں لوگوں کو بیدار کر رہی ہیں۔ سنجئے نے یہ بھی بتایا کہ مائیک سے کسی طرح کی تشہیر نہیں ہو رہی ہے کہ کیسے اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔سنجئےرام غریب ہیں۔ اپنا کھیت بہت کم ہے اس لئے بازار میں مزدوری کرتے ہیں، تو فیملی کا پیٹ پلتا ہے، لیکن پچھلے تین دنوں سے وہ ہاسپٹل میں پڑے ہوئے ہیں، جس سے کمائی بھی رک گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں،’بیٹے کی حالت میں ابھی بھی بہت اصلاح نہیں ہوئی ہے۔ اس کی حالت دیکھ‌کر مجھے فکر ہو رہی ہے۔ ‘ سنجئے کو بچےکو کھو دینے کا اتنا ڈر ہے کہ اس کو ہچکی آنے پر بھی وہ نرس کے پاس بھاگتے ہیں۔ سنجئے نے بتایا کہ پرائمری ہیلتھ سینٹر میں علاج کا مناسب انتظام نہیں ہے، اسی وجہ سے ان کو 700 روپے خرچ‌کر کے 10 کلومیٹر دور ایس کے ایم سی ایچ میں آنا پڑا۔سنجئےکو یہ بھی نہیں پتہ کہ پرائیویٹ گاڑی یا ایمبولینس سے بچے کو لانے پر حکومت پورا کرایہ برداشت کرے‌گی۔ سنجئے کی طرح ہی زیادہ تر لوگوں کو اس طرح کی اسکیم کی جانکاری نہیں ہے۔بچوں کی موت کے بڑھتے اعداد و شمار نے اب حکومت کی پیشانی پر شکن لا دیا ہے۔ نتیش کمار نے محکمہ صحت سے فوری حل تلاش  کرنے کو کہا ہے۔ دوسری طرف، مرکزی وزارت صحت نے بھی اب اس معاملے میں مستعدی بڑھا دی ہے۔

اگر اسی طرح چستی برقرار رہی اور دیہی سطح پر مداخلت کی گئی، تو ممکن ہے کہ معاملہ ہاتھ میں آ جائے، لیکن حکومت کو اس سوال کا جواب تو دینا ہی ہوگا کہ آخر 50 سے زیادہ معصوموں کی قبل از وقت موت کا قصوروار کون ہے؟

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)