فکر و نظر

عارف محمدخان صاحب، شاہ بانو معاملے کے بعد بہت کچھ بدل چکا ہے

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عارف محمد خان سیکولرزم کے اپنے دقیانوسی تصور کو گلے لگائے اب بھی 1986 میں جی رہے ہیں۔ ان کا سیکولرزم انہیں شاہ بانو کے مقدمے سے آگے سوچنے ہی نہیں دیتا۔ موجودہ حالات میں مسلمان جن مسائل سے دوچار ہیں ان پر غور کرنے کیلئے بھی عارف محمد خان صاحب شاہ بانو مقد مے کوبنیادی حوالہ بنائے ہوئے ہیں۔

فوٹو : یو ٹیوب

فوٹو : یو ٹیوب

نریندر مودی کی انتخابی فتح پر مسلمانوں کے رد عمل کو لے کر کرن تھاپر کے ساتھ عارف محمد خان کاجوانٹرویو اس وقت وائرل ہو رہا ہے وہ ان کے روایتی تکبرانہ انداز تخاتب کا مظہر ہے جس کا مقصد جھوٹی دانشوارانہ بالادستی ثابت کرنا ہے۔ مگراس کے برعکس جو کچھ اس انٹرویو کے ذریعے سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ سیاسیات اور سیکولرزم دونوں ہی موضوعات پر موصوف کی فہم نہایت سطحی اور فرسودہ ہے۔

خان صاحب نے تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ  لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی کی فتح کے بعد  مسلمان اپنے آپ کو تنہا محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ موصوف نے سیکولرزم کی اپنی وضع کردہ تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ملک کے آئین پر یقین رکھتے ہیں۔ مگرلطف کی بات یہ ہے کہ ان کے دعوے ہندوستان میں سیکولرزم کے مخصوص تصور اور دستور ہند میں جو ضمانت شہریوں کو دی گئی ہیں ان کی نفی کرتے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ پانچ سال کے دوران ملک میں پھیلائی گئی منافرت اور ان کے خلاف برانگیختہ کئے گئے جذبات کا انکار نہایت جارحانہ انداز میں کیا ہے۔

بہرحال میں تین نکات پر ہندوستان میں سیاسی نمائندگی سے متعلق خان صاحب سے اتفاق کرتا ہوں۔ اولاً یہ کہ آئین رائے دہندگان کی شناخت خالصتاً سیکولرنظریے سے کرتا ہے۔ لہٰذا رائے دہندگان کی تفریق مذہبی یا ذات پات کے زاویےسے نہیں کی جانی چاہئے۔دوئم یہ کہ دستورمیں لفظ’اقلیت’ کی تعریف نہیں کی گئی ہے۔ لہٰذا اقلیت/ اکثریت کی تعریف معاملے کے سیاق و سباق کے مطابق طے کی جانی چاہئے۔ ہندواورمسلمانوں کو ہر اعتبارسے اور تمام حالات میں اکثریت اور اقلیت کے زاویے سے دیکھے جانے میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں اوراس طریقہ کار سے نو آبادیاتی ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔تیسرے یہ کہ ضروری نہیں کہ مسلمانوں کی نمائندگی مسلمان ہی کریں۔ ایک رکن پارلیامنٹ اپنے حلقہ انتخاب میں تمام رائے دہندگان کی نمائندگی کرتا ہے۔

مگر مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خاص سیاسی ذہنیت کا جواز پیدا کرنے کے لیے کھلم کھلا اِن تکنیکی نکات کی مدد لی جاتی ہے۔

اِس تبصرے کی روشنی میں کہ ایک رکن پارلیامنٹ کو اپنے حلقہ انتخاب میں تمام رائے دہندگان کی نما ئندگی کرنی چاہئے، اُس بات کا کوئی جواز نہیں پیدا نہیں ہوتا جو مینکا گاندھی نے  مسلمانوں سے متعلق سیتا پور میں کہی تھی۔ انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ اگرمسلمانوں نہ انہیں ووٹ نہ دئے تو وہ اُن کے لیے کام نہیں کریں گی۔ظاہر ہے کہ خالصتاً نوآبادیاتی نقطہ نظر کے مطابق مسلمان ایک مستقل اقلیت نہیں ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمانوں کی اقلیتی حیثیت آئینی نہیں ہے۔

واضح رہے کہ نیشنل کمیشن فار مائنارٹیز ایکٹ 1992 کی روشنی میں حکومت (بشمول مودی حکومت)مسلمانوں اور دیگر اقلیتی گروہوں کو قومی اقلیتیں تسلیم کرتی ہیں۔ اس کا منشاء مسلمانوں کو خصوصی رعایات دینا ہر گز نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد آئین میں فراہم کردہ سہولیات کا نفاذ ہے تاکہ ملک کے تمام شہریوں کوزندگی کی دوڑ میں یکساں میدان میسر ہو۔مودی حکومت نے اس اصول سے انحراف نہیں کیا ہے۔ اقلیتوں کی فلاح کے لیے مختلف اسکیمیں وضع کرنے کیلئے سچر کمیشن رپورٹ کو’پالیسی کی بنیاد’ کے طور پر تسلیم کیا جانا اس کی واضح مثال ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عارف محمد خان سیکولرزم کے اپنے دقیانوسی تصور کو گلے لگائے اب بھی 1986 میں جی رہے ہیں۔ ان کا سیکولرزم انہیں شاہ بانو کے مقدمے سے آگے سوچنے ہی نہیں دیتا۔ موجودہ حالات میں مسلمان جن مسائل سے دوچار ہیں ان پر غور کرنے کیلئے بھی عارف محمد خان صاحب شاہ بانو مقد مے کوبنیادی حوالہ بنائے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں وہ دو نکات اٹھاتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اپنے مسا ئل کے لیے مسلمان خود ذمہ دار ہیں(خان صاحب فرماتے ہیں کہ مسائل کی جڑخود گھر کے اندرموجود ہے) لہٰذا حکومت سمیت اب کسی سے سوال کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ہندوتوا سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس ہندو اور مسلمانوں کے اشتعال انگیز تقریریں کرنے والے جارح قائدین فرقہ پرست ہیں جنہیں سنجیدگی سے نہیں لیا جانا چاہئے۔ ان کے نزدیک انتہائی برابری والا سیکولرزم جس میں اقلیت اور اکثریت کا کوئی تصورنہ ہو اور جس میں مذہب اور سیاست کے درمیان واضح لائن کھینچی گئی ہو، مسئلے کا حتمی حل ہے۔

فرقہ پرستی بنام سیکولرزم کے بظاہر آسان اور سیدھے سادے تصور میں بڑی پیچیدگیاں ہیں۔ جس فرقہ پرستی کا ہمیں اس وقت سامنا ہے اسے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشمکش کا آسان سا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے برعکس اس وقت ہمیں جس چیز کا سامنا ہے وہ ہندوتوا کے زہر سے لبریز فرقہ پرستی ہے۔ سیاست کے اس منظم طرز میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے۔ یہ اکثر ایسے حالات پیدا کرتا ہے جن کا نتیجہ افراد یا گروہوں، بالخصوس مسلمانوں کے خلاف تشدد کی شکل میں سامنے آتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ مظلوموں اور تشدد کا شکار ہونے والوں کے خلاف نفرت کو فروغ دیتا ہے۔  سچی بات تو یہ ہے کہ خان صاحب کا انتہا پسندانہ سیکولر مساوات کا تصورہندوتوا کی فرقہ پرستی سے مطابقت رکھتا ہے کیونکہ وہ بھی تو اقلیتوں کو آئینی تحفظ دیے جانے کے خلاف ہیں۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ خان صاحب کی انتہا پسندانہ سیکولر مساوات کا نظریہ بالکل وہی ہے جس کے لیے  ایل کے اڈوانی pseudo-secularism (منافقانہ سیکولرزم) کی اصطلاح استعمال کیا کرتے تھے۔ ان کے نزدیک غیر بی جے پی اور غیر آرایس ایس والا سیکولرزم جھوٹا اور بناوٹی سیکولرزم ہے کیونکہ، ان کے بقول، یہ بنیادی طور پر ہندو مخالف اوراقلیت دوست نظریہ ہے۔

انتہا پسندانہ سیکولر مساوات بنیادی طور پرآئینی سیکولرزم کے اقدار اور اصولوں کے خلاف ہے جواپنے آپ کو کسی مخصوص مذہب یا ثقافت سے منسلک کئے بغیر حکومت کو ہندوستان کی کثیرالمذہبی اور کثیر الثقافتی معاشرے پرفخر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ امریکی یا فرانسیسی تصور سیکولرزم کے بر عکس ہندوستانی سیکولرزم مذہبی فرقوں کی روز مرہ کی زنگی کے تئیں ہمدردانہ رویہ رکھتا ہے۔یہ باکل وہی بات ہے جسے ماہر سیاسیات راجیو بھارگوا نے ‘ہندستانی سیکولرزم کا طرہ امتیاز’ قرار دیا ہے۔ شاید خان صاحب آزاد ہندستان میں فروغ پانے والے سیکولرزم کے اِس منفرد اور انوکھے تصور سے بالکل نابلد ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ سیکولرزم کے نام پر مسلمانوں پر طعن تشنیع بھیجنے سے عارف محمد خان اپنے آپ کوآزادی کے بعد کی سیاست میں قابل قبول سمجھے جانے والے’اچھے مسلمانوں’کےزمرے میں شامل کر لیتے ہیں۔اپنی مراعات یافتہ حیثیت اور پس منظر(ان کا تعلق اشرافیہ طبقے سے ہے، وہ تعلیم یافتہ ہیں، اور ان کا ایک مضبوط سیاسی اور معاشی پس منظر ہے)کو وہ مسلمانوں کے قائد بننے کے لیے پوری طرح استعمال کرتے ہیں۔ سیاسی درستگی کے اپنے موجودہ عقیدے کی وجہ سے اس بات پر مصر ہیں کہ وہ اپنی بات بحیثیت ہندوستانی پیش کرتے ہیں نہ کہ بحیثیت مسلمان۔ اور ان کا یہ کہنا کہ مسلمانوں کو ہندوتوا پر الزام لگانا چھوڑدینا چاہئے’سب کا ساتھ’ کی فوج میں شمولیت کے لیے ان کی بے چینی کی مظہر ہے۔

(ہلال احمد سی ایس ڈی ایس میں ایسو سی ایٹ پروفیسر ہیں اورحال میں شائع ہونے والی کتاب Siyasi Muslims: A Story of Political Islams in Indiaکے مصنف ہیں۔انگریزی سے ترجمہ محمد غزالی خان)