فکر و نظر

چمکی بخار: مرض تو پرانا ہے پھر حکومتوں کی جانب سے اتنی لاپروائی کیوں ؟

اے ای ایس/جے ای کے بارے میں جب مرکز-ریاستی حکومتیں اور ان کے وزیر بڑے-بڑے اعلان کرتے ہیں تو ان حقائق کو ضرور دھیان میں رکھاجانا چاہیے اور ان سے سوال پوچھا جانا چاہیے کہ اس بیماری سے جب اتنی بڑی تعداد میں بچوں کی موت ہو رہی ہے تو اس بیماری کی روک تھام کی تدبیروں پر عمل کرنے میں اتنی سستی کیوں ہے؟

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

بہار کے مظفر پور میں ایکیوٹ انسیفلائٹس سنڈروم (اے ای ایس)/جاپانی انسیفلائٹس (جے ای)اور چمکی بخار سے 100 سے زیادہ بچوں کی موت کے بعد ملک کے وزیرِ صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے 17 جون کو مظفر پور کا دورہ کیا اور کئی اعلانات کیے۔انہوں نے کہا کہ مظفر پور کے شری کرشن میڈیکل کالج اور ہاسپٹل (ایس کے ایم سی ایچ) میں 100 بیڈ کا پیڈیاٹرک آئی سی یو وارڈ اور وائرولاجی لیب بنے‌گا۔ اس کے علاوہ ضلع کے تمام کمیونٹی ہیلتھ سینٹر(پی ایچ سی)میں 10-10 بیڈ کا پیڈیاٹرک آئی سی یو بنے‌گا۔ پی ایچ سی پر سروے کی بنیاد پر ڈاکٹروں کی تعیناتی ہوگی، تمام پی ایچ سی پر گلوکومیٹر دیا جائے‌گا، خاطر خواہ  ایمبولینس اور دوا کا انتظام کیا جائے‌گا۔ڈاکٹر ہرش وردھن جب یہ اعلان کر رہے تھے، تب کچھ صحافیوں نے ان کے 2014 میں کیے گئے اعلان کی طرف دھیان دلایا، جس پر ان کی حالت دگر گوں  ہو گئی۔ دراصل، ڈاکٹر ہرش وردھن پانچ سال پہلے کیے گئے اپنے ہی اعلان کو پھر سے دوہرا رہے تھے جو یا تو اب تک عمل میں ہی نہیں آ سکے ہیں یا آدھےادھورے ہیں۔

ٹھیک پانچ سال پہلے 2014 میں بھی مظفر پور میں اسی طرح اے ای ایس اور چمکی بخار کا قہر سامنے آیا تھا۔ نیشنل ویکٹر بارن ڈیزیز کنٹرول پروگرام (این وی بی ڈی سی پی)کے اعداد و شمار کے مطابق 2014 میں بہار میں اے ای ایس سے 355 اور جاپانی انسیفلائٹس (جے ای) سے 2 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔تب نئی نئی بنی مودی حکومت کے وزیر صحت ہرش وردھن نے 20/22 جون 2014 کو مظفرپور، پٹنہ کا دورہ کیا تھا اور تمام اعلانات کیے تھے۔تب انہوں نے کہا تھا کہ ایس کے ایم سی ایچ میں 100 بیڈ کا پیڈیاٹرک آئی سی یو وارڈ بنے‌گا اور مظفر پور اور آس پاس کے متاثرہ ضلعوں میں پی ایچ سی میں 10 بیڈ کے پیڈیاٹرک آئی سی یو بنیں‌گے۔ ایس کے ایم سی ایچ کو سپر اسپیشلٹی اسٹینڈرڈ میں اپ گریڈ کیا جائے‌گا۔

گیا، بھاگل پور، بتیا، پاواپوری اور نالندہ میں وائرولاجیکل ڈائگنوسٹک لیبارٹری بنے‌گی۔ اس کے علاوہ مظفر پور اور گیا میں ملٹی ڈسپلنری ریسرچ یونٹ کا قیام کیاجائے‌گا۔ ان اعلان کی زمینی حقیقت حیران کرنے والی ہے۔ایس کے ایم سی ایچ میں وائرولاجی لیب تو بن گیا ہے لیکن ابھی تک شروع نہیں ہو پایا ہے۔ اے ای ایس اور چمکی بخار سے سب سے زیادہ متاثر مظفر پور میں وائرولاجی لیب نہیں بن پایا ہے، تو بھاگل پور، بتیا، پاواپوری اور نالندہ میں بننے کی بات تو دور کی کوڑی ہے۔ایس کے ایم سی ایچ میں 100 بیڈ کا پیڈیاٹرک آئی سی یو بنانے کا کام ابھی تک شروع نہیں ہو پایا ہے۔ پی ایچ سی میں پیڈیاٹرک آئی سی یو بنانے کا کام بھی ابھی تک شروع نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح مظفر پور اور گیا میں ملٹی ڈسپلنری ریسرچ یونٹ کا بھی اب تک قیام نہیں ہو سکا ہے۔

رہی بات ایس کے ایم سی ایچ میں سپراسپیشلٹی بلاک بنانے کی تو یہ ابھی بن ہی رہا ہے۔ ایس کے ایم سی ایچ کو سپراسپیشلٹی اسٹینڈرڈ میں اپ گریڈ کرنے کا فیصلہپی ایم ایس ایس وائی کے تحت سات نومبر 2013 کو ہوا تھا۔پی ایم ایس ایس وائی کے تحت تیسرے مرحلے میں ایس کے ایم سی ایچ کے ساتھ ساتھ ملک کے 39 میڈیکل کالج کو سپراسپیشلٹی اسٹینڈرڈ میں اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ لیا گیا تھا۔ ان میڈیکل کالجوں میں بی آر ڈی میڈیکل کالج گورکھپور بھی شامل تھا۔ایس کے ایم سی ایچ کو سپراسپیشلٹی اسٹینڈرڈ میں اپ گریڈ کرنے کے لئے 150 کروڑ روپے خرچ ہونا ہے جس میں 120 کروڑ روپے مرکزی حکومت اور 30 کروڑ روپے ریاستی حکومت کو دینا ہے۔

کسی میڈیکل کالج کو سپراسپیشلٹی اسٹینڈرڈ میں اپ گریڈ کرنے کا مطلب ہوتا ہے کہ وہاں آٹھ سے دس سپراسپیشلٹی محکمے بنیں‌گے، پی جی کی 15 سیٹیں ہوں‌گی اور ہاسپٹل بیڈ کی تعداد 150 سے 250 تک بڑھ جائیں‌گی۔

مظفرپور کے ایس کے ایم سی ایچ میں بھرتی بچے(فوٹو : پی ٹی آئی)

مظفرپور کے ایس کے ایم سی ایچ میں بھرتی بچے(فوٹو : پی ٹی آئی)

ایس کے ایم سی ایچ میں 160 بیڈ کا سپراسپیشلٹی بلاک بننا ہے جس میں آٹھ سپراسپیشلٹی محکمے بنیں‌گے، جس میں نیو-نیٹولاجی محکمہ بھی شامل ہے۔ ایس کے ایم سی ایچ میں یہ بلاک ابھی بن ہی رہا ہے اور مرکزی وزیرِ صحت نے سوموار کو اس کا بھی جائزہ کیا۔کہا گیا کہ نومبر 2019 تک یہ بن‌کرتیار ہو جائے‌گا۔اس کے بعد یہاں ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی تعیناتی کی جائے‌گی۔ اگر یہ طےشدہ دو سال میں بن گیا ہوتا تو آج ایک ایک بیڈ پر دو-دو بچوں کو رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ایس کے ایم سی ایچ کے ساتھ ہی اعلان ہوا یوپی کے گورکھپور واقع بی آر ڈی میڈیکل کالج کا سپراسپیشلٹی بلاک کچھ مہینوں پہلے ہی شروع ہوا ہے، لیکن سپراسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے اس کو میڈیکل کالج کے ڈاکٹروں سے ہی کام چلایا جا رہا ہے۔

اعلیٰ سطح پر اعلان اور ان کے عمل کی کہانی مظفر پور میں گورکھپور کی ہی طرح ہے۔ گورکھپور میں 2017 میں آکسیجن واقعہ کے بعد پی آئی سی یو کی صلاحیت 225 سے 400 بیڈ تک بڑھائی گئی۔انسیفلائٹس متاثرہ گورکھپور سمیت نو ضلعوں کے ضلع ہاسپٹل میں 10-10 بیڈ کے پیڈیاٹرک آئی سی یو بنانے کا اعلان اکھیلیش حکومت 2012 میں کیا تھا جس کو عمل میں لانے میں ڈھائی سال سے زیادہ کا وقت لگا۔آکسیجن واقعہ کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے 2017 میں گورکھپور کمشنری کے چار ضلعوں گورکھپور، کوشی نگر، مہراج گنج اور دیوریا میں آٹھ ابتدائی اور عمومی صحت مراکز میں 3-3 بیڈ کا آئی سی یو بنانے کا اعلان کیا جو دو سال بعد اب تیار ہو پائے ہیں لیکن وہاں ڈاکٹروں بالخصوص بچوں کےڈاکٹروں کی کمی اب بھی بنی ہوئی ہے۔

گورکھپور میں انسیفلائٹس کی خوفناکی کو دیکھتے ہوئے یو پی اے-2 حکومت میں سال 2012 گورکھپور میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وائرولاجی کی طرح ریجنل میڈیکل ریسرچ سینٹر(آر ایم آر سی)یونٹ کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ اس کے پہلے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وائرولاجی (این آئی وی) کا فیلڈ یونٹ کام کر رہا تھا۔وائرس سے متعلق بیماریوں پر وسیع طور پر ریسرچ کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے آر ایم آر سی کو قائم کرنے کا فیصلہ لیا گیا تھا لیکن اس کے قیام کا عمل پانچ سال تک کچھوتے کی رفتار سے چلتا رہا اور ایک روپیہ بھی مرکزی حکومت نے نہیں دیا۔جب گورکھپور میں 10 اگست 2017 کو آکسیجن واقعہ ہوا اور 13 اگست کو اس وقت کے مرکزی وزیرِصحت جے پی نڈھا گورکھپور آئے تو انہوں نے اس کے لئے 80 کروڑ روپے جاری کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے 11 مہینے بعد ستمبر 2018 میں بی آر ڈی میڈیکل کالج میں اس سینٹر کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔

دیکھنا ہے کہ یہ کب تک بن‌کر تیار ہوتا ہے اور شروع ہوتا ہے۔ اگر اس ادارے کو ترجیح کی بنیاد پر جلد قائم کر دیا گیا ہوتا تو یہاں ہوئی ریسرچ اے ای ایس/جے ای کو ختم کرنے یا اس پر قدغن لگانے میں ضرور کام آتی۔اسی طرح انسیفلائٹس اور دیگر بیماریوں سے سے معذور بچوں اور لوگوں کے علاج کے لئے گورکھ پور میں سی آر سی کا قیام کرنے کا اعلان کیا گیا۔فوری طور پر بی آر ڈی میڈیکل کالج کے احاطے کی ایک عمارت میں اس کو شروع کیا گیا اور اسپیچ تھیراپسٹ، فزیوتھیراپسٹ وغیرہ کی تعیناتی کی گئی۔ کچھ اوزار بھی آئے لیکن یکایک اس کو سمیٹنے کا فیصلہ لے لیا گیا اور دو کو چھوڑ‌کر تمام اسٹاف جو کہ ٹھیکہ پر تھے، ہٹا دئے گئے۔اس فیصلہ کے خلاف جب مخالفت کی آواز تیز ہوئی تو سال 2018 میں اس کے لئے زمین ڈھونڈی گئی اور ستمبر 2018 میں آر ایم آر سی کے ساتھ اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ یہ سینٹر فی الحال چھوٹی سطح پر گورکھپور شہر میں سیتاپور آئی  ہاسپٹل کے احاطے میں چل رہا ہے۔

اے ای ایس/جے ای کے بارے میں جب مرکز-ریاستی حکومتیں اور ان کے وزیر بڑے-بڑے اعلان کرتے ہیں تو ان حقائق کو ضرور دھیان میں رکھاجانا چاہیے اور ان سے سوال پوچھا جانا چاہیے کہ اس بیماری سے جب اتنی بڑی تعداد میں بچوں کی موت ہو رہی ہے تو اس بیماری کی روک تھام کی تدبیروں پر عمل کرنے میں اتنی سستی کیوں ہے؟گورکھپور میں اے ای ایس/جے ای سے بچوں کی موت کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے الٰہ آباد ہائی کورٹ نے 31 جنوری 2007 میں مشرقی اتر پردیش میں انسیفلائٹس کی حالت کو نیشنل ایمرجنسی جیسا بتاتے ہوئے اس کے مطابق مرکز اور ریاستی حکومت کو ہر قدم اٹھانے کو کہا تھا۔ہائی کورٹ کی  اس ہدایت کے ان 12 سالوں میں حکومتوں کے کام کو دیکھتے ہوئے کیا یہ لگتا ہے کہ وہ حالات کو ٹھیک ٹھیک سمجھ پا رہے ہیں اور اس کے مطابق قدم اٹھا پا رہے ہیں چاہے وہ مظفر پور ہو یا گورکھپور؟

(مضمون نگار گورکھپور نیوزلائن ویب سائٹ کے مدیر ہیں۔)