خبریں

کل این پی اے کی تقریباً 50 فیصدی رقم 100 بڑے قرض داروں  کے پاس

دی وائر کی خصوصی رپورٹ: آر ٹی آئی کے تحت حاصل اعداد و شمار کے مطابق ٹاپ 100 این پی اے قرض داروں   کا این پی اے 446158 کروڑ روپے ہے، جو کہ ملک میں کل این پی اے 1009286 کروڑ روپے کا تقریباً 50 فیصدی ہے۔

ریزرو بینک (فوٹو : رائٹرس)

ریزرو بینک (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: این پی اے قرار دیے گئے ٹاپ 100 کھاتوں کی این پی اے رقم تقریباً ساڑھے 4 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ رقم کل این پی اے کا تقریباً 50 فیصدی ہے۔ دی وائر کے ذریعے کیے گئے آر ٹی آئی  میں اس کا انکشاف ہوا ہے۔ریزرو بینک آف انڈیا نے بتایا کہ 31 دسمبر 2018 تک ٹاپ 100 این پی اے قرض دار وں کا کل این پی اے 446158 کروڑ روپے تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ان میں سے ہرایک کھاتے کی اوسطاً 4461 کروڑ روپے کی رقم این پی اے قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ آر بی آئی نے ان 100 کھاتوں کی جانکاری دینے سے منع کر دیا۔5 فروری 2019 کو اس وقت کے وزیر خزانہ کے ذریعے راجیہ سبھا میں دئے گئے ایک جواب کے مطابق شیڈیولڈ کامرشیل بینک کا کل این پی اے 31 دسمبر 2018 تک 1009286 کروڑ روپے تھا۔ اس میں سے پرائیویٹ سیکٹر کے بینکوں کا کل این پی اے 864433 کروڑ روپے تھا۔

اس حساب سے کل این پی اے کا تقریباً 44 فیصدی حصہ صرف 100 کھاتوں میں ہے۔ وہیں، اگر پبلک سیکٹر کے بینکوں سے اس کا موازنہ  کریں تو کل این پی اے کی تقریباً 52 فیصدی رقم ان 100 کھاتوں میں ہے۔ مارچ 2019 تک کل لون کاتقریباً9.3 فیصدی حصہ این پی اے تھا۔گزشتہ 26 اپریل 2019 کو سپریم کورٹ نے آر بی آئی کے ذریعے بینک ڈفالٹرس کی جانکاری نہیں دینے کو لےکر دائر ایک ہتک عزت کی عرضی کی سماعت کے دوران سینٹرل  بینک کو  پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ آر بی آئی اپنی شفافیت کے اصولوں میں تبدیلی کرے اور اس طرح کی جانکاری عوام کو مہیا کرائے۔عدالت  نے کہا تھا کہ ریزرو بینک کے پاس یہ آخری موقع ہے، اگر اس کے بعد بھی جانکاری نہیں دی جاتی ہے تو پھر ہتک عزت کی کارروائی کی جائے‌گی۔ کورٹ کا یہ حکم اس کے دسمبر 2015 کے حکم کی تصدیق تھی، جس میں آر ٹی آئی کے تحت ایسی تمام جانکاری دینے کے لئے کہا گیا تھا۔

حالانکہ دی وائر کے ذریعے دائر کئے گئے آر ٹی آئی کے تحت آر بی آئی نے ٹاپ 100 این پی اے کھاتوں کی تفصیلی جانکاری جیسے کہ کھاتوں کی رقم، اکاؤنٹ ہولڈر کے نام، سود رقم وغیرہ دینے سے منع کر دیا۔ آر بی آئی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسی جانکاری دستیاب نہیں ہے۔آر بی آئی نے بتایا کہ وہ بینکنگ ریگولیشن (بی آر) ایکٹ 1949 کی دفعہ 27 (2) اور آر بی آئی ایکٹ 1934 کی دفعہ 28 کے تحت قرض سے متعلق جانکاری اکٹھا کرتا ہے۔ جواب کے مطابق، ‘ بی آر ایکٹ کی دفعہ 28 کے تحت آر بی آئی صرف ایکٹ کی دفعہ 27 (2) کے تحت اکٹھی کی گئی جانکاری کو ہی دے سکتا ہے، وہ بھی جس طریقے سے اس کو ٹھیک لگے۔ ‘سینٹرل  بینک نے کہا کہ آر بی آئی ایکٹ کی دفعہ 45 (ای) کے تحت کچھ خاص حالات کو چھوڑ‌کر باقی دیگر معاملوں میں آر بی آئی کو قرض سے متعلق جانکاری دینے سے منع کیا گیا ہے۔

حال ہی میں دیے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے خاص طور سے کہا تھا کہ آر بی آئی کو بینکوں کے سالانہ جائزہ رپورٹ اور وجہ بتاؤ نوٹس سے متعلق جانکاری دینی ہوگی۔ حالانکہ اس تناظر میں بھی آر بی آئی نے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی طریقے سے جواب دینے سے منع کر دیا۔آر بی آئی نے کہا، ‘جو جانکاری مانگی گئی ہے اس کو اکٹھا کرنے میں ادارے کے کافی وسائل خرچ ہوں‌گے۔ اس لئے یہ جانکاری آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 7 (9) کے تحت نہیں دی جا سکتی ہے۔ ‘حالانکہ آر ٹی آئی ایکٹ کی اس دفعہ کی بنیاد پر جانکاری دینے سے منع نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دفعہ 7 (9) کہتی ہے کہ اگر مانگی گئی جانکاری اس خاکے میں نہیں ہے جس خاکے میں امید وار نے مانگی ہے تو پبلک انفارمیشن افسر اس شکل میں یہ جانکاری مہیا کرائے، جس شکل میں وہ موجود ہے۔

بینک ڈفالٹرس سے متعلق جانکاری مانگنے پر آر بی آئی نے کہا، ‘اس معاملے میں ابھی تفتیش چل رہی ہے۔ ‘حالانکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا تھا کہ یہ جانکاری دی جانی چاہیے۔ریزرو بینک اپنی شفافیت پالیسی کو لےکر ہمیشہ سے ہی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ آر بی آئی نے آج تک سپریم کورٹ کے سال 2015 کے فیصلے کو نافذ نہیں کیا ہے، جس میں بینک ڈفالٹرس، جائزہ رپورٹ جیسی جانکاری دینے کے لئے کہا گیا تھا۔گزشتہ سال 20 نومبر کو ریٹائر ہوئے سینٹرل انفارمیشن  کمشنر شری دھر آچاریہ لو نے خط لکھ‌کر چیف انفارمیشن کمشنر آر کے ماتھر سے گزارش کی تھی کہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) کو آر بی آئی کے ذریعے جان بوجھ کر قرض نہ چکانے والے لوگوں (ول فل ڈفالٹرس) کی جانکاری نہیں دینے کے لئے سخت قدم اٹھانا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے 2015 کے فیصلے میں آر بی آئی کی تمام دلیلوں کو خارج کرتے ہوئے ول فل ڈفالٹرس پر سی آئی سی کے 11 احکام کو صحیح ٹھہرایا تھا۔شری دھر آچاریہ لو نے اس بات کو لےکے خطرہ بتایا ہے کہ اگر آر بی آئی شفافیت کے معاملے میں سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا رہا تو یہ پرائیویسی کے اقتصادی اقتدار میں تبدیل ہو جائے‌گا۔ اس کی وجہ سے مالی گھوٹالہ ہوں‌گے اور گھوٹالےباز آسانی سے ملک چھوڑ‌کر بھاگ سکیں‌گے، جیسا کہ حال کے دنوں میں ہوا ہے۔