خبریں

مودی حکومت نے 3 اخباروں کو سرکاری اشتہار دینا بند کیا

مجموعی طور پر 2.6 کروڑ ماہانہ ر یڈرس والے تین بڑےاخبار گروپ کا کہنا ہے کہ مودی کے پچھلے مہینے لگاتار دوسری بار بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ان کے کروڑوں روپے کے اشتہارات کو بند کر دیا گیا۔

(فوٹو : رائٹرس)

(فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے ملک کے کم سے کم تین بڑے اخباروں کو سرکاری اشتہار دینا بند کر دیا ہے۔ حزب مخالف کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ ایسا حکومت کے خلاف کی گئی رپورٹنگ کے رد عمل میں کیا گیا ہے۔خبر رساں ایجنسی رائٹرس کے مطابق، ناقدین لگاتار کہتے رہے ہیں کہ سال 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت میں میڈیا کی آزادی خطرے میں ہے۔ وہیں، کئی صحافیوں کی یہ شکایت رہی ہے کہ تنقیدی رپورٹ لکھنے کی وجہ سے ان کو ڈرایا-دھمکایا جاتا ہے۔

 حزب مخالف پارٹی کانگریس کے رہنما ادھیر رنجن چودھری نے اس ہفتہ پارلیامنٹ میں بتایا تھا کہ حکومت تین بڑے اخباروں کے گروپ کو جھکانا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا تھا، ‘ سرکاری اشتہار روکنے کا غیر جمہوری اور مغرور رجحان اس حکومت کا میڈیا کو اس کی لائن بدلنے کے لئے ایک پیغام ہے۔ ‘

مجموعی طور پر 2.6 کروڑ ماہانہ ریڈرس والے تینوں بڑے اخبار گروپوں کا کہنا ہے کہ مودی کے پچھلے مہینے لگاتار دوسری بار بھاری اکثریت سے منتختب ہوکر اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ان کے کروڑوں روپیے کے اشتہارات کو بند کر دیا گیا۔ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا کی مالکانہ کمپنی بینٹ، کول مین اینڈ کمپنی کے ایک افسر نے نام نہ چھاپنے کی شرط پر کہا کہ سرکاری اشتہار بند کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، اشتہار بند ہونے کی وجہ کچھ ایسی رپورٹس ہو سکتی ہیں جو ان کو پسند نہ آئی ہو۔

افسر نے کہا، ‘ ٹائمس گروپ کے 15 فیصد اشتہار حکومت سے آتے ہیں۔ ان اشتہارات میں زیادہ تر کانٹریکٹ کے لئے سرکاری ٹینڈرس اور سرکاری اسکیموں کی تشہیر کے ہوتے ہیں۔ ‘مودی حکومت کو نیشنل سکیورٹی  سے لےکر بےروزگاری تک تمام مدعوں پر گھیرنے والے اے بی پی گروپ کا دی ٹیلی گراف اخبار کے سرکاری اشتہارات میں بھی اسی طرح تقریباًپچھلے چھے مہینوں میں 15 فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ اے بی پی گروپ کے دو افسروں نے یہ بات کہی۔

اے بی پی گروپ کے ایک افسر نے نام نا چھاپنے کی شرط پر کہا، ‘ جب آپ حکومت کے خلاف کچھ بھی لکھتے ہیں، تو ظاہر ہے کہ وہ آپ کو کسی نہ کسی طرح سے نقصان پہنچائیں‌گے ہی۔ ‘اے بی پی کے دوسرے افسر نے کہا کہ حکومت سے اب تک اس معاملے کو لےکر کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔ کمپنی نقصان کے فرق کو کم کرنے کے لئے دیگر ذرائع کو دیکھ رہی ہے۔

افسر نے مزید کہا، ‘ پریس کی آزادی کو قائم رکھا جانا چاہیے اور ان چیزوں کے باوجود اس کو قائم رکھا جائے‌گا۔ ‘انگریزی اخبار دی  ہندو کو ملنے والے سرکاری اشتہارات میں بھی کمی آئی ہے۔ کمپنی کے ایک افسر نے کہا کہ فرانس کے دساں سے رافیل جیٹ کی خرید سے متعلق رپورٹس شائع کرنے کے بعد دی  ہندو اخبار کو ملنے والے سرکاری اشتہارات میں کمی دیکھی گئی ہے۔

ان رپورٹس میں حکومت کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ حالانکہ، حکومت نے د ی ہندو کی رپورٹس میں لگائے گئے الزامات کو خارج کر دیا تھا۔حالانکہ، بی جے پی ترجمان نلین کوہلی نے کہا کہ ہندوستان میں پریس کی آزادی پوری طرح سے برقرار ہے۔انہوں نے کہا، ‘ اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر حکمراں پارٹی کی اچھی خاصی تنقید کی جاتی ہے۔ یہ تنقید اظہار  رائے کی  آزادی کی گواہ ہے۔ بی جے پی پر پریس کی آزادی کو دبانے کا الزام لگانا بکواس ہے۔ ‘

غور طلب ہے  کہ، World press freedom index میں ہندوستان سال 2019 میں 180 میں سے 140 ویں مقام پر رہا، جو کہ افغانستان، میانمار اور فلیپنس جیسے ممالک سے بھی کم ہے۔ سال 2002 میں جب اس انڈیکس کی شروعات ہوئی تھی تب ہندوستان 139 ممالک میں سے 80 ویں مقام پر تھا۔